سچی باتیں (۴؍مارچ ۱۹۳۲ء)۔۔۔ بڑائی کیا ہے؟ ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
08:10PM Sat 5 Aug, 2023
سچی باتیں (۴؍مارچ ۱۹۳۲ء)۔۔۔ بڑائی کیا ہے؟ ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
اپنے بچپن مین جب بڑے بڑے لوگوں کی حکایتیں سنتاتھا، تو خود بھی بڑے بن جانے کی تمنا دل میں پیداہوجاتی تھی، لیکن یہ تمنا محض مبہم وغیرمتعین تھی۔ ذہن کے سامنے یہ صاف نہ تھا ، کہ بڑاہونا کسے کہتے ہیں، اور بڑائی حاصل کیونکر ہوتی ہے، آیا محض سِن کے بڑھ جانے سے، یاکچھ اور بھی ضرورت پڑتی ہے؟ جب اسکول کے نیچے درجوں میں پڑھنا شروع کیا، تو خیال ہوا، کہ جب نویں اور دسویں درجہ میں پہونچ جائیں گے، تو بڑے ہوجائیں گے، بڑے کہلائیں گے، اور بڑے شمار کئے جانے لگیںگے۔ وہ زمانہ آیا، نواں درجہ بھی پاس کیا، اور میٹریکولیشن کا امتحان بھی دیا۔ ایک امتحان میں اتنے اچھے نمبر ملے، کہ وظیفہ بھی ملنے لگا۔ لیکن ’’بڑائی‘‘ اب بھی نہ حاصل ہوئی!
خیال ہوا کہ اسکولی زندگی بھی کوئی زندگی ہے، عزت کالج کی طالب علمی میںہے۔ کالج میں داخلہ ہوا۔ یہاں فرسٹ ایر کے طلبہ سب سے زیادہ حقیر تھے۔ دل نے کہا کہ عزت اور بڑائی اُس وقت سے شروع ہوگی ، جب سے بی ، اے کلاس میں آئیں۔ ایف، اے پاس کیا، اور بڑی خوشی کے ساتھ تھرڈ ایر میں آئے۔ پریہ خوشی بھی بالکل عارضی ثابت ہوئی۔ اب یہ رائے قائم ہوئی ، کہ دُنیا معزز اُس وقت قرار دے گی ، جب گریجویٹ ہوجائیں گے، اور نام کے ساتھ بی، اے لکھا جانے لگے گا۔ کالج میں متعدد انعامات پائے، مجلس علمی میں مضامین ومقالات پڑھ کر سُنائے، ان پر خوب واہ واہ ہوئی، محفل مشاعرہ کا لطف آآگیا، بالآخر بی ،اے کی امتحان میں شرکت کی۔ جب نتیجہ شائع ہونے کو ہوا، تو خوشی اور شوق سے راتیں آنکھوں میں کٹتی رہیں۔ او ر دل دن گنتارہا، کہ گزٹ کب آئے گا۔ آخرکار، وہ مبارک دِن آکر رہا، اور جی خوب خوب خوش ہوا۔ معلوم ایسا ہوتا تھا، کہ بس اب مسرتِ جاودانی کا خزانہ ہاتھ آگیا۔ پر، افسوس، کہ یہ مسرت بھی دیرپانہ ثابت ہوئی۔ اور دل بدستور عزت اور بڑائی کا تمنائی، جاہ وناموری کا بھوکا، اور اور فکروں میں پڑگیا، اور امیدوں اور تمناؤں کے نئے نئے ہوائی قلعے تعمیر کرنے لگا۔
سِن بڑھتا گیا۔ کامیابیاں اور کامرانیاں ، اندازے اور استحقاق دونوں سے کہیں بڑھ بڑھ کر نصیب ہوتی رہیں۔ جاہ ومال، عزت وناموری ، دوستوں کی دوستی اورعزیزوں کی محبت، داد دینے والوں اور دل بڑھانے والوں، کسی طرف سے محرومی نہ رہی۔ پردل کی ہوس کسی منزل پر بھی پہونچ کر نہ بجھی۔ ہر منزل پہلے دُور سے دل کو لُبھاتی اور للچاتی رہی، کہ گویا وہی عین مقصود ہے، اور پیاس کے مارے، ہارے تھکے مسافر کے لئے سرد پانی کا چشمہ، لیکن جب جب اُس منزل پر قدم پہونچا تو نظر کا فریب کھُل کررہا، اور ہمیشہ یہی نظرآیا ، کہ یہ راہ کی منزل تھی، منزل مقصود نہ تھی۔ پانی کا چشمہ نہ تھا، ریگ کے ذروں کا چمکتاہوا میدان تھا! عمر کا بیشتر حصہ گزرچکا، دل ودماغ، جسم وحواس کی بہترین قوتوں کی فرصتیں ختم ہوچکیں، اور حاصل اگر ہوا، تو صرف یہ کہ کچھ حاصل نہ ہوا، اور سبق اگر ملا تو یہ، کہ رہ گذر کے فریب نے اب تک ہر ہر قدم پر مبتلا رکھا! ساری’’دل لگی‘‘ صرف طلب کے وقت تک ہے، ’یافت‘ کے وقت معلوم ہوتا ہے، کہ کچھ بھی یافت نہ ہوئی! فلاں عہدہ اور فلاں مرتبہ، فلاںا اعزاز اور فلاں دولت ، یہ ساری امیدیں اور آرزوئیں، سوااس کے کہ، پھِر طبیعت کو ڈانواڈول ہی رکھیں، اور کس کام کی ہیں! اُردو کے عارف شاعر، اکبرؔ نے اسی آپ بیتی کو کتنے خوشنما اور مؤثر لفظوں میں ادا کیاہے ؎
کارِ جہاں کو دیکھ لیا میں نے غور سے
اک دل لگی ہے سعی میں حاصل میں کچھ نہیں!
دوستو اور عزیزو! عبرت حاصل کرو، اُس کے حال سے، جس کا حالِ زار صرف عبرت ہی کے لئے ہے۔