’شام میں جاری فرقہ واریت سے نسل کشی کا خطرہ‘
11:49AM Tue 3 Sep, 2013
شام میں اقوام متحدہ کے سفیر مختار لامانی نے خبردار کیا ہے کہ شام میں جاری تشدد ملک کو نسل کشی کی جانب دھکیل رہا ہے۔
مختار لامانی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ شام میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت دہشت انگیز ہے اور وہاں دیہی علاقوں سے لوگ تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں بھلے ہی وہ سنّی ہوں، علاوی ہوں یا پھر مسیحی۔
ان کے بقول سب سے زیادہ خطرے سے دوچار علاوی فرقے سے تعلق رکھنے والی اقلیتی آبادی ہے جس سے صدر بشار الاسد کا بھی تعلق ہے۔ دوسرے نمبر پر مسیحی برادری ہے۔
مختار لامانی نے کہا کہ ’شام کے لوگوں کے لیے حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ وہاں نہ صرف انسانی صورتحال بہت ہی زیادہ خراب ہے بلکہ تباہی کے قریب ہے بلکہ فرقہ واریت تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہ واقعی دہلا دینے والی ہے۔ وہاں بہت بڑی آبادی صرف اپنی شناخت اور اپنی جائے پیدائش کی بناء پر اپنے گاؤں دیہات چھوڑنے پر مجبور ہے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بھی بہت خوفزدہ ہیں‘۔
اقوام متحدہ کے نمائندے مختار لامانی نے مزید کہا کہ شام کے لوگ صدیوں سے پرامن طور پر اکٹھے رہتے آئے ہیں مگر موجودہ بحران انہیں ایک دوسرے سے الگ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ انتخاب کا معاملہ نہیں۔ شامی لوگ فرقہ واریت کا شکار نہیں ہیں بلکہ صورتحال ایسی بن گئی ہے۔ پھر ان عناصر کی مداخلت بھی ہے جو اسلامی ریاست کے قیام یا ایسے ہی کسی ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اترے ہوئے ہیں، وہ ان مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں‘۔
فرانس کا کہنا ہے کہ شام کے دارالحکومت دمشق میں گزشتہ ماہ ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے کسی اور نے نہیں بلکہ شامی حکومت نے کیے ہیں۔
فرانس کے وزیر اعظم یاں مارك آئغو کی جانب سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق فرانس کی پارلیمان کو پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ 21 اگست کو بڑی تعداد میں کیمیائی ایجنٹس استعمال کیے گئے۔
فرانس کی پارلیمان میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس حملے میں کم سے کم 281 افراد مارے گئے۔
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں فرانسیسی دستاویزات کے مطابق شام کے پاس ایک ہزار ٹن کیمیائی ایجنٹوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ شواہد فرانس نے اپنی انٹیلیجنس ذرائع سے حاصل کیے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ان دستاویزات میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ شام نے ایک ہزار ٹن سے زیادہ کیمیائی مواد ذخیرہ کر رکھا ہے جس میں سارین گیس بھی شامل ہے۔
دوسری جانب شام کے صدر بشار الاسد نے ایک بار پھر 21 اگست کو ہونے والے کیمیائی حملے میں شام حکومت کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
فرانسیسی اخبار ’لا فیگارو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بشار الاسد نے متنبہ کیا کہ شام میں غیر ملکی فوجی کارروائی علاقائی تنازع کو مذید پھیلا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا ’شام میں کسی بھی قسم کی کارروائی سے صورتِ حال بے قابو ہو جائے گی اور اس سے شدت پسندی میں اضافہ ہو گا‘۔
دوسری جانب شامی صدر بشار الاسد نے فرانس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جانب میں شام میں کی جانے والی کسی بھی قسم کی مداخلت کا شدید ردِ عمل ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ فرانس کا شام کی حکومت پر کیمیائی حملوں کا الزام غیر منطقی بات ہے۔
خیال رہے کہ شامی حکومت کی جانب سے یہ مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ 21 اگست کو دمشق کے مضافات میں کیا گیا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں چودہ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جن میں 426 بچے بھی شامل تھے۔
اس سے قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل آنرس فو راسموسن نے کہا ہے کہ انہیں ذاتی طور پر یقین ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی ذمہ دار ہے۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کے لیے ایک مضبوط عالمی ردعمل بہت ضروری ہے۔
برسلز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ’اگر ہم کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال پرخاموش تماشائی بنے رہے اور کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا تو یہ دنیا میں ڈکٹیٹروں کو ایک خطرناک پیغام دے گا‘۔
اس کے علاوہ:
٭اقوامِ متحدہ کے معائنہ کار شام میں جمع کیے گئے شواہد کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا یا نہیں۔
٭برطانوی نائب وزیراعظم نِک کلیگ نے کہا ہے شام پر فوجی کارروائی کے حوالے سے دارلعوام میں دوبارہ ووٹ نہیں لیا جائے گا۔
٭روسی وزیر خارجہ سرگئی لاورو نے کہا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے متعلق امریلکی شواہد ناقابل یقین ہیں۔
٭عرب لیگ کے وزارئے خارجہ نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شام کے خلاف ’ضروری اور حوصلہ شکن کارروائی کرے‘ مگر کئی اراکین جن میں عراق اور لبنان شامل ہیں نے اس کی حمایت نہیں کی۔
٭اردن جو خطے میں امریکہ کا بنیادی حلیف ملک ہے نے شام کے خلاف کارروائی میں امریکہ کی قیادت میں اتحادی بننے کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔
BBC URDU