حج کا سفر۔۔۔ مکہ معظمہ سے روانگی۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
08:50PM Thu 22 Jun, 2023
مکہ معظمہ میں ہمارے سفارت خانے کا جو عارضی دفتر ،المستشفی الہندی میں تھا، اس میں ہر جمعہ کو ہندوستانی سفیر اور ہر منگل کو سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری مسٹر شہاب الدین آتے تھے اور عرضیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔
سفیر صاحب نے اس سلسلے کا سارا کام فرسٹ سیکریٹری کے سپرد اس طرح کر رکھا ہے کہ ذرا بھی اس میں دخل نہیں دیتے ، جب تک خود شہاب الدین صاحبان سے مشورہ نہ لیں ۔
منیٰ میں ہم سفارت خانے میں قدوائی صاحب کے پاس تھے کہ شہاب الدین صاحب آئے اور کہنے لگے کہ: شاہ صاحب کسی طرح نہیں مانتے ، اب آپ سے ملنے پر اصرار کر رہے ہیں ، انہوں نے ہم سے کہا کہ تم ذرا بیٹھے رہنا ، شاہ صاحب کو یہیں بلائے لیتے ہیں۔
ایک شاہ صاحب پینتیس چالیس کے درمیان زلفیں رکھے بڑی مظلوم صورت بنائےآئے ، کہنے لگے:حضرت مجھے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے عرس میں شریک ہونا ہے ، پاکستان جانے کا ویزا بھی دہلی میں ہی لے لیا ہے ، اگر جلد یہاں سے واپسی کا ویزا نہ ملا ،تو وہ ویزا کینسل ہوجائےگا، پھر میں بڑی پریشانی میں پڑ جاؤں گا ۔
یہ گیارہویں ذی الحجہ کو بات ہو رہی تھی، ابھی شاہ صاحب مدینہ شریف بھی حاضر نہیں ہوئے تھے اور ۵محرم کوحضرت بابا فرید گنج شکر کا عرس پاک پٹن شریف (پاکستان۔۔۔) میں ہونے والا تھا ، مطلب یہ کہ اگر ان کو واپسی میں ترجیح مل گئی تو مدینہ شریف کی حاضری سے محرومی یا اتنی مختصر حاضری کا امکان ہوگا، کہ بس گویا قسم پوری کرنے کے لیے حاضر ہوگئے ، اس لیے کہ اگر مدینہ شریف میں آٹھ روز قیام کریں گے تو پاک پٹن شریف نہیں پہنچ سکتے ، سفیر صاحب نے پہلے تو ٹالنا چاہا ، شاہ صاحب نے کئی طرح کے زور ڈالے کہ:”دہلی میں فلاں صاحب نے کہا تھا کہ تم سفیر صاحب سے میرا نام لے کر کہہ دینا ،تمہارا کام ہوجائے گا۔“
آخر میں کہنے لگےکہ: مجھے تو وہاں بتایا گیا تھا کہ بہت آسانی سے اجازت مل جاتی ہے ،مذاق کے انداز میں سفیر صاحب نے کہا :بھائی ہم حکومت کے ملازم ہیں ، اس نے ترجیح دینے کے کچھ قاعدے ہمیں بتادئے ہیں ، اگر ہم اس کی خلاف ورزی کریں گے تو آپ کا تو کچھ نہیں جائے گا ،ہم سے بازپرس ہوگی۔
شاہ صاحب بولے : مجھے اگر معلوم ہوتا تو میں شاستری جی ،وزیر اعظم سے لکھوا لیتا ، میں تو بڑی مشکل میں پڑ گیا ہوں ۔اس وقت ایک ممبر پارلی مینٹ مسٹر سید احمد (ہوشنگ آباد ،آندھرا) بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے بظاہربگڑ کرکہا:” شاستری جی بھی کوئی غلط بات کیسے لکھ دیتے ؟اگر وہ ایسا کرتے تو ہم پارلی مینٹ میں ان سے باز پرس کرتے“ ۔
شاہ صاحب جو اب تک دون کے لے رہے تھے خوشامد پر اتر آئےقدوائی صاحب ! میرا بڑا نقصان ہوجائے گا ، آپ کے لیے کوئی بات نہیں ہے ،ذرا سی توجہ فرمادیجئے۔
سفیر صاحب نے کہا:جب سارا کام شہاب الدین صاحب کر رہے ہیں ،تو میں کیسے دخل دوں ؟ وہ برا مان جائیں گے۔
شہاب الدین صاحب بھی خاصے مردم شناس معلوم ہوئے ، بڑی سختی کے ساتھ درخواستوں پر حکم دیتے تھے ، لیکن کسی بھی ضرورت مند کو ناکامی کا منھ نہیں دیکھنا پڑا ۔ہمارا معاملہ ذرا مختلف تھا (جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے)اس لیے ہمیں اور ہمارے ساتھ امی ، پھوپھوجان ، ممانی اور متین میاں سب کو اجازت مل گئی کہ آٹھویں ہی کو روانہ ہونے والے جہاز میں جہاز سے ہم واپس ہوں ،جب کہ ترتیب کے اعتبار سے ہمیں ۱۵جون یا ۲۳جون کے جہاز سے واپس آنا تھا۔
اجازت مل جانے کے بعد(۲۴، اپریل کو اجازت ملی تھی )ہم نے ۲۷،اپریل کو مکہ معظمہ سے روانگی کا پروگرام بنایا ۔
سفارت خانے سے حاصل کردہ اجازت نامہ کو لکھا کر رئیس المعلمین سے سند ِ روانگی حاصل کرنا ہوتی ہے ، یعنی ان سے معلوم کرنا ہوتا ہے کہ کس فوج یا کھیپ میں ہمیں جانا ہوگا۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک جانے کا بس کا کرایہ ،ایک سو ایک ریال فی کس بھی داخل کرنا ہوتا ہے ، پھر جس بس میں رئیس المعلمین حکم دیتا رہے ،اس میں جانا ہوتا ہے ، اگر کوئی بس سے جانا چاہے تو بھی اسے ایک سو ریال داخل کرکے اجازت حاصل کرنا ہوتی ہے کہ ہم اپنی ٹیکسی کر کے جائیں گے ،اسے تنازل حاصل کرنا کہتےہیں۔
مکہ معظمہ سے مدینہ شریف تک ساڑھے تین سو میل کی مسافت ہے ، ایک بس میں ۴۵کے قریب مسافر ہوتے ہیں ، راستے میں کئی چوکیوں پر شہر کے تمام مسافروں کے کاغذات کی جانچ کرانا ہوتی ہے ، اس طرح ہر چوکی پر کافی وقت صرف ہوجاتا ہے، راستے میں کئی منزلیں ہیں جہاں مسافر کھانے پینے کے لیے یا نماز اور ضروریات کے لیے اترتے ہیں ، بعض اوقات راستے کی کسی منزل پرپوری رات گزارنا ہوتی ہے ، ان منزلوں میں مسافر اپنی وہی چٹائیاں ، جو ممبئی میں انہوں نے خریدی تھیں ، بچھالیتے ہیں ، اور پڑے رہتے ہیں ، کرایہ دے کر پلنگ بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں اس طرح بس کے سفر میں ۱۶-۱۷ گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں ۔
ٹیکسی میں مکہ معظمہ سے مدینہ شریف تک کا سفر بآسانی پانچ گھنٹے میں ہوجاتا ہے ، ہمارے ایسے لوگ جو ہر معاملے میں آسانی اور سہولت کے شائق رہے تھے ، مدینہ شریف کے سفر میں ان شوق سے کیوں دست بردار ہوجاتے ، خوشی خوشی ہم نے ایک سو ایک ریال فی کس ادا کرکے تنازل حاصل کیا ، یعنی یہ اجازت حاصل کی کہ اگر چہ ہم مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک آنے جانے کا کرایہ دے رہے ہیں مگر از راہِ کرم یہ اجازت ہوجائے کہ ہم آپ کی بس سے نہ جائیں ،بلکہ مزید کرایہ دے کر ٹیکسی کرلیں۔
ہمارا قافلہ اب پانچ افراد پر مشتمل تھا، یعنی وہی لوگ ، جو ممبئی سے جہاز یا ایک ساتھ سوار ہوئے تھے ، امی ،پھوپھو جان ،ممانی ،متین میاں اور ہم ۔عظیم بھائی (چودھری عظیم الدین )اپنی اہلیہ کے ساتھ ہوئی جہاز سے آکر حج سے پہلے ہی مدینہ شریف حاضری دے چکے تھے ۔
پانچ مسافروں کے لیے ایک ٹیکسی مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک کے لیے دوسو ریال میں ہوئی ، ایک ایک بستر اور ایک ایک بکس ہر ایک کا سامان ساتھ رکھا، باقی سامان جو لکھنؤ سے لاد کر لائے تھے، معلم صاحب مولانا عبد الہادی سکندر کے سپرد کردیا ،کہ وہ اپنے کارندے کے ہاتھ جدّے بھجوادیں۔جہاز پرواز ہوتے وقت وہیں لے لیں گے ،فی سامان دوریال غالباً مکہ معظمہ اور جدّے کے درمیان دھلائی کے ادا کرنا ہوتے ہیں اور ایل ریال فی سامان شاید گدام میں رکھنے کا کرایہ دینا ہوتا ہے اس کے بعد حاجی سامان سے بےفکر ہوکر جا سکتا ہے ، جب وہ مدینہ شریف سے واپس جدہ آتا ہے ، تو معلم کے وکیل مقیم جدہ سے اپنا سامان واپس لے لیتا ہے، مکہ معظمہ سے روانگی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں لیکن ہماری امی اور پھوپھوجان کا ایک ارمان پورا نہیں ہوا تھا ،یعنی حجر اسود کو چومنے کا موقعہ انہیں ایک دفعہ بھی نہیں ملاتھا۔ہمیں بھی نہ ملتا ،مگر خوش قسمتی سے ایک رات ہمیں نیند نہیں آئی، خیال آیا کہ بستر پر پڑے پڑے مچھروں کی یلغار کی روک تھام کب تک کرتے رہیں گے ، جاگنا ہے تو حرم شریف میں چل کر جاگیں ،ہم اور شیخ ظہیر حسین (رکاب گنج ،لکھنؤ)اٹھے ،وضو کیا اور ایک بجے رات کو حرم شریف پہنچے ، محض خوش قسمتی تھی کہ طواف کے بعد ہی ہم دونوں کو بڑی آسانی سے حجر ِاسود کے استلام کا موقعہ ہاتھ آگیا ، اس کے بعد ملتزم شریف پر بھی (خانہ کعبہ کے دروازے اور حجر اسود سے ملے ہوئے کونے کے درمیاں دس بالشت کا حصہ ٔ دیوار ملتزم شریف کہلاتاہے، جس سے لپٹ کر اور رورو کر دعائیں کرنا قبولیت کی سند ہے)ہم دونوں کو اتنی جگہ مل گئی کہ دیوار سے لپٹ کر اور جی کھول دعائیں مانگیں اور خوش بختی سے رقتِ قلب بھی نصیب ہوگئی ۔
ملتزم سے لپٹنے کا طریقہ فقہا نے یہ بتایا ہے کہ دونوں ہاتھ سر سے اونچے کر کے دیوارِ کعبہ پر پھیلادئے جائیں اور اپنا سینہ اور پیٹ دیوار سے چمٹا دیا جائے ،پھر کبھی دایاں رخسار دیوار پر رکھا جائے اور کبھی بایاں اور رقتِ قلب سے دعا مانگی جائے ۔دس بالشت کی اس مختصر جگہ تک رسائی اتنی ہی دشوار ہے جتنی حجر اسود تک ،حجر اسود چومنے کےشائقین ہی کا ہجوم ملتزم شریف کو بھی گھیرے رہتا ہے ۔
یہ قسمت کی رسائی تھی کہ ہم دونوں کی رسائی وہاں تک ہو گئی ، حجر اسود کو چومنے میں دیر لگائیے یعنی ذرا دیر تک اس کو چومیئے ،تو دربانوں کے کوڑے برسنےلگیں گے ، مگر ملتزم شریف سےچمٹے ہوئے لوگوں پر وقت کی کوئی قید دربانوں نے نہیں لگائی ہے۔ دوسرے خواہش مندوں کا خیال کر کے خود ہی آپ ملتزم شریف سے الگ ہو جائیں تو ہو جائیں ، وہاں سے کھسکاتا کوئی نہیں ہے۔
اس طرح جو طواف نصیب ہوا تو طبیعت کی شادمانی کی کوئی انتہا نہیں رہی ، آج بھی وہی طواف اور اس کا سرور یاد ہے جو اس رات میں ہم دونوں نے کیا تھا ۔ایک دفعہ اور بھی ہمیں حجر اسود کو بوسہ دینے کا موقعہ نصیب ہوا تھا ، مگر ملتزم شریف سے چمٹنے کی سعادت ہاتھ نہ آئی تھی ، ملتزم شریف کے بعد میزابِ رحمت کے بالکل نیچے دو رکعت نفل پڑھنے اور دعا مانگنے کا بھی موقع، اسی رات کو ملا۔
خانۂ کعبہ کی شمالی دیوار کی چھت پر ایک پرنالہ لگا ہوا ہے، جو سونے کا بتایا جاتا ہے ،چھت پر سے بارش کا پانی اسی پرنالے سے نیچے گرتا ہے ،بارش کے وقت ہزاروں کا ہجوم میزاب رحمت کے نیچے اس آسرے میں جمع ہوجاتا ہےکہ اس سے کچھ قطرے اس کے اوپر بھی ٹپک جائیں ،ہمارے سامنے بارش نہیں ہوئی۔بہر حال میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر دعا مانگنے والے کو بھی قبولت کا مژدہ سنایا گیا ہے۔لیجئے مارے خوشی کے اس یاد گار رات کی تاریخ بھی ہمیں یاد نہیں رہی ۔
بہاریں ہم کو بھولیں یاد اتنا ہے کہ گلشن میں گریباں چاک کرنے کا بھی اک ہنگام آیا تھا
جب کبھی امی حجر اسود کو چومنےکا شوق ظاہر کرتیں ،ہم انہیں فقہی مسئلہ بتا دیتے ، کہ چومنا ضروری کب ہے ،موقع ملے تو ہاتھ سے اس کو اشارہ کر کے ہاتھوں کو چوم لینے کا بھی وہی ثواب ہے،بلکہ ازدحام میں گھسنا اور اس طرح لوگوں تکلیف پہنچانا الٹا گناہ اپنے سر لینا ہے ۔
اب ہمیں جو یہ سعادت اس طرح حاصل ہوگئی ،تو ایک ذمہ داری سی محسوس ہونے لگی کہ کس طرح امی وغیر ہ کو بھی استلام کرانا چاہئے ،ورنہ سوچیں گی کہ ہمیں تو مسئلہ بتاتا رہتا ہے اور خود چوم آیاحجر اسود کو ۔
روانگی سے ایک رات قبل بارہ ایک بجے اسی شوق میں حرم شریف میں تھے کہ شاید آج بھی پوری طرح باریابی نصیب ہو جائے ، دیکھا امی ،پھوپھوجان ، ممانی بھی وہیں ہیں ،اس وقت امی نے کہا: بھیا! کس طرح حجر اسود تک ایک دفعہ ہمیں پہنچا دو ، حسرت رہ جائےگی کہ حجر اسود کو چھونہیں پائے۔کچھ اس طرح انہوں نے کہا کہ فقہی مسئلہ بتانے کی ہمت اس وقت ہم نے اپنے میں نہیں پائی اور حجر اسود تک پہنچا نے کی ہمت بھی نہیں ہورہی تھی ،اس قسم کا مجمع اس کے ارد گرد تھا۔
عام طور پر لوگ یہ کرتے تھے کہ حجر اسود کے پاسبانوں کو ایک ریال دو ریال تھمائے اور انہوں نے کوڑے برساکر چومنے والوں کو ہٹایااور دینے والے کو دھکا دے کر آگے کردیا ،اس کاروباری طریقہ کو اختیار کرنے پر طبیعت ایک دفعہ بھی مائل نہ ہوئی ۔
یہ اندازہ ہوا کہ اس وقت جو آٹھ دس عورتیں ایک قطار میں کھڑی ہیں ان کے پیچھے اگر امی اور پھوپھو جان بھی لگ جائیں تو دس پندرہ منٹ میں وہاں تک پہنچ جائیں گی ،ہم قطار کے ساتھ قریب کھڑے ہوگئے کہ قطار کے باہر والی عورتوں کو آگے بڑھنے سے روکیں ۔قطار والی کوئی عورت بھی شاید حجر اسود تک نہیں پہنچ سکی ،ہوتا یہ تھا کہ آدمی حجر اسود کو چومنے لگا ،چار اس کو گھیرےرہتے ہیں ، اب اسے پیچھے ہٹنے کا بھی موقعہ نہیں اور دیر تک چوم سکتا نہیں ،ورنہ کوڑے برسنے لگیں گے ،پہلے تو وہ دب دبا کر واپس ہونے کی کوشش کرتاہے اور چاروں طرف سے چومنے کے لیے بڑھنے والوں میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ ہماری طرف سے نہیں ،دوسرے کی طرف سے یہ نکلے ،نکلنے کا راستہ دینے کے لیے کسی ایک کو ہٹنا پڑے گا ،تو وہ ہم کیوں ہوں؟دوسرا کیوں نہ ہو! بالآخر چوم چکنے والا ایک دفعہ ہڑبڑا کے جو پیچھے ہٹتا ہے ،تو چاروں وہ بھی اسی کی رو میں پیچھےڈکھل جاتے ہیں اور حجر اسود سے دور ہوجاتے ہیں ،دوسرے جو ان چاروں سے پیچھے تھے ،ان میں سے کوئی ایک اس ہل چل میں حجر اسود کو چومتا نظر آنے لگتا ہے ۔
دیر تک پیش قدمی اور پسائی کے یہ مناظر دیکھتے ہوئے ،اب ہمیں پیش قدمی کا ایک نیا راستہ سوجھا اور بس ”حکمتِ عملی“کے سوجھ جانے سے پوری پوری کامیابی ہوگئی ۔یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ کے لیے یہی حکمت عملی اختیار کرنا موزوں ہوگا ،اس وقت یہ ترکیب کامیاب ہو گئی تھی ،امی اور پھوپھوجان ،حجر اسود چوم کر بہت خوش ہوئیں ،مگر ممانی کہیں ادھر ادھر ہو گئی تھیں ،شاید پہلے ہی انہیں یہ سعادت مل چکی تھی ۔
۵،اپریل کو رات کے ۱۱بجےمکہ معظمہ میں داخل ہوئے تھے ،۲۲دن کے بعد ۲۷،اپریل (۲۵ ذی الحجہ )کو اس شہر سے جس کے رہنے والوں نے رسول عربی ﷺ کو رہنے نہیں دیا (من قریتک التی اخرجتک)اے رسول!آپ کی اس بستی سے جس نے آپ کو خارج کردیا تھا ،اس شہر کی طرف جہاں حضورانور ﷺنے ترک ِوطن کے بعد ہمیشہ کے لیے قیام فرمایا او ر جو ہمیشہ کے لیے آپ کا شہر ”مدینۃ الرسول“کہا جانے گا،ہمارا کوچ ہوا :
گفت معشوقے بعاشق کائے فتی تو بعزبت دیدۂ بس شہرہا پس کدا می شہرز آنہا خوش ترست گفت آں شہرے کہ دردے دلبرست
روانگی کا وقت ،حجاز کے موسم کے لحاظ سے ،قبل طلوع صبح صادق مقرر ہوا ،گرمی کا زمانہ تھا دن کی دھوپ میں سفر کرنا ،اس خوشگوار سفر کو کلفت میں تبدیل کردینے کے مرادف ہوجاتا ،بےشک شوق کی رہنمائی میں کوئی کلفت محسوس نہ ہونا چاہئے،مگر یہ دعوی بڑا دعوی ہوگا کہ شوق کہ نعمت کی شکل میں رہنمائے کامل ہاتھ آگیا ہے،ہاں ضرور محسوس کرنا پڑتا ہے کہ
ہیچ کسے بخویشتن رہ برو بسوئے او بلکہ بپائے او رود ہر کہ رود بکوئے رو
دو سو ریال میں پانچ سواریوں کے لئے ٹیکسی کرلی تھی ،جو رات ہی کو ہماری قیام گاہ ”بوہرہ رباط“کے گیٹ پر آکر کھڑی ہوگئی ، روانگی سے قبل طوافِ وداع (خانۂ کعبہ کا رخصتی طواف )کرنا تھا یہ رات کے کھانے کے بعد ہی کرلیا اور فقہا کی ہدایت کے مطابق خانۂ کعبہ کا رخصتی طواف کر کے ہم پانچوں (امی ، پھوپھو جان،ممانی ، متین میاں اور ہم) الٹے پاؤں حرم شریف سے واپس ہوئے ، یعنی اس طرح چلے کہ پیٹھ ہماری حرم سے باہر جانے والے دروازے کی طرف ، منھ خانہ کعبہ کی طرف رہا ، اگر چہ اس طرح چلنا بہت زحمت کی بات ہے ، راستہ بالکل ہموار ہو تو خیر ، لیکن مطاف (طواف کرنے کی جگہ)ہے پھر ایک ٹھوکر اونچی زمین ہے ، جو تھوڑی دور کے بعد ایک پتلی لکیر بن جاتی ہے ، جس کے دونوں طرف دو تین بالشت نیچی کنکریوں والی زمین ہے ، پھر حرم شریف کا دالان آتا ہے اس کے بعد دروازہ ”باب الوداع “جس سے آخری طواف کے بعد باہر جانا چاہئے ، واپس ہوتے ہوئے دعا بھی مانگنے جاتے تھے کہ اے رب البیت ! تیرے گھر میں ہماری یہ حاضری آخری حاضری نہ ہو ،ایسا ہوتا کہ جلد از جلد تیری چوکھٹ کو چومنے کے لیے ہم پھر پہنچ جاتے ، دعا مانگتے جاتے تھے اور اپنی حکومت کی لگائی ہوئی پابندی کو سوچتے جاتے تھے کہ پانچ برس تک تو اس دعا کے قبول ہونے کا کوئی نتیجہ ہاتھ آنے والا نہیں ، بقول زائر حرم مرحوم حمید صدیقی کے:
اب حج و زیارت پہ بھی ہے قیدِ تعین ہم ہجرکے ماروں کو ہوا ایک یہ غم اور تجدید تمنا نہ کریں پانچ برس تک ! ارباب تمنا پہ ہے یہ تازہ ستم اور !۔
پھر بھی دعا مانگتے جاتے تھے، اور مولانا محمد عتیق صاحب فرنگی محلی کا یہ قول ”بلانے والے کےیہاں کوئی قید سال و ماہ کی نہیں ہے“ڈھارس دلاتا جاتا تھا ۔طواف ِ وداع سے فارغ ہو کر بارہ بجے رات کو واپس قیام گاہ پر آئے ،اب سونے کا وقت کہاں تھا ،تہجد کے وقت روانگی ہونے والی تھی ،ہم نے موقعہ سے یہ فائدہ اٹھایا کہ ہند وستانی پوسٹ کارڈوں پر ایک خط گھروالوں کے نام لکھ لیے اور عظیم بھائی (چودھری عظیم الدین اشرف )کے سپرد کر دئے، جو ہمارے ساتھ رباط میں مقیم تھے اور مدینہ منورہ کی زیارت سے قبل حج شرف اندوز ہو چکے تھے ، تین دن بعد (۳۰،اپریل)کو ہوائی جہاز سے واپس ممبئی جا رہے تھے ،اب ہماری واپسی کا پروگرام قطعی ہوچکا تھا ، یعنی ۲۷،اپریل کو مدینہ شریف جارہے ہیں آٹھ یا نو دن وہاں کی با برکت فضا میں رہ کر اور جو سعادتیں ہمارے نصیب میں ہوں گی ، ان کو سمیٹ کر واپس جدّے آئیں گے اور جدے سے ۸ مئی کے جہاز سے روانہ ہوکر ۱۶ مئی کو ممبئی پہنچ جائیں گے ،اس پروگرام کی اطلاع گھروالوں کو اور دفتر کو لکھ بھیجی ،یہ خطوط ممبئی میں عظیم بھائی کے سپرد ڈاک کرنے سے ۳ مئی تک وطن پہنچ بھی گئے ۔
ٹیکسی پر ہمارا مختصر سامان جب رکھا جانے لگا (باقی سامان مکہ معظمہ ہی میں معلم مولانا عبد الہادی سکندر کے حوالےکردیا تھا ،کہ وہ باربرداری کے مصارف ہم سے لے کر اپنی ذمہ داری پر اسے جدہ بھجوادیں)تو پتہ چلا کہ ہماری ایک جائے نماز نہیں مل رہی ہے ، ابھی تک ہماری کوئی چیز اس سفر میں نہیں کھوئی تھی (البتہ حرم ِ محترم میں چپلیں کھوئی تھیں مگر وہ کھوئی نہیں ،بلکہ بدل گئی تھیں)۔بلکہ یہ تک ہوا کہ ہم لوگ رباط میں اپنا کمرہ مقفل کر کے منی ٰ چلے گئے ، دو دن کے بعد طواف ِ زیارت کے لے واپس مکہ معظمہ آئے اور اپنا کمرہ کھولنا چاہا ،تو اس کا قفل بالکل ٹوٹا ہوا تھا، دھک سے ہوگئے کہ سارا سامان کمرے میں بند کر کے گئے تھے، قفل شکنی ہوئی ہے ،تو سرقہ بھی ہوا ہوگا ،لیکن حیرت ہوئی کہ ایک چیز بھی جگہ سے بے جگہ نہیں تھی ،اگر چہ ان دنوں رباط میں کیاپورے مکہ میں سناٹا تھا سب ہی منی چلے گئے چوری بہت آسان تھی ، یہ بھی ملحوظ رہے کہ حرم محترم میں حاجیوں کی جیبیں کٹی ہیں۔لیکن ہمارا سامان جوں کا توں ملا ۔
ہوا یہ کہ ہمارے کمرے سے ملے ہوئے غسل خانے کا نل کھلا رہ گیا تھا، ہمارے جانے کے بعد جب نل میں پانی آیا تو بالٹی بھرنے لگی، اس کی آواز باہر چوکیدار کو سنائی دی ،وہ فکر مند ہوا کہ رباط کی ٹنکی میں جو پانی روزانہ بھرا جاتا ہے ،جس سے تمام کمروں کے غسل خانوں میں پانی آتا ہے ہمارے غسل خانے کے نل ہی سے بہہ جائے گا ،پانی کی قیمت زمانۂ حج میں جو ہوتی ہے وہ ظاہرہی ہے، چوکیدار کے یہی سمجھ میں آیا کہ ”رفاہ ِ عام“ کی خاطر ہمارے کمرے کا قفل توڑکر نل بند کردے اور اس نے یہی کیا ،اب جب ہمارا غسل خانہ کھل گیا تو ہماری دو تین دن کی عدم موجودگی میں جو چند افراد رباط میں رہ گئے تھے انہوں نے غسل خانے کا جی کھول کر استعمال کیا ۔نہائے ،کپڑے دھوئے ،کھانا پکایا ،مگر کوئی چیز ہماری گڑبڑ نہیں ہوئی ۔
جائے نماز کی گمشدگی ایسی کوئی خاص بات نہ ہوتی ،مگر اس کی کچھ اہمیت ہماری نظر میں تھی ایک تو یہ کہ ہماری بیوی نے اپنی جہیز کی جائے نماز ہمارے ساتھ کی تھی ،گویا ایک امانت تھی ہمارے سپرد، دوسرےیہ کہ حرم شریف میں منی میں عرفات میں ہر جگہ اسی جائے نماز کو بچھا کر ہم لوگوں نے نمازیں ادا کی تھیں ، ایک تعلق اس ارض مقدس سے اس جائے نماز کوبھی ہو گیا تھا، سامان میں ڈھونڈھا،محمد میاں صاحب الہ آبادی سے پوچھا کہ عموماً وہ اور متین میاں اور ہم اپنی اپنی جائے نماز یں لے کر ایک ساتھ حرم شریف جاتے تھے ،کوئی صاحب دیر تک حرم میں رکے اور ہماری جائے نماز ان ہی کے نیچے ہوئی تو چھوڑ آئے او کہا کہ وہ آئیں گے تو لیتے آئیں گے ،محمد میاں صاحب اکثر اپنی جائے نمازحرم شریف کے بوّاب ہی کے پاس رکھ آتے تھے ،اور جب جاتے تو اس سے کہتے ”سجادہ“اور وہ ان کی جائے نماز الماری سے نکال کر دےدیتا ،کہیں نہیں ملی ۔
اب روانگی کا وقت آگیا ،خیال آیا کہ چلو بواب سے بھی پوچھ لیں شاید وہاں رہ گئی ہو ، دوڑتے ہوئے گئے ،تین بجے رات کا وقت بوّاب بھی سو رہا تھا اسے جگایا ،پوچھا ”سجادہ“اس نے الماری کھول کر کئی جانمازیں دکھائیں ،ہماری کوئی نہ تھی ،اس نے کہا ”تم خود ڈھونڈ لو “الماری میں ہم نے تلا ش کیا ،تو ہماری جائے نماز ہمیں مل گئی ،بڑی خوشی ہوئی ،ہم نےبوّاب سے کہا:”اس وقت ہم جا رہے ہیں“اس نے فوراً معانقہ کیا اور دیر تک سینے سے لگائے رہا ،پھر اس نے ہاتھ اٹھا دیر تک دعا ئیں دیں اور دوبارہ حاضری کے لیے باربار دعا کی ،ہم بھی ہاتھ اٹھائے آمین کہتے رہے ۔
اس طرح طوافِ وداع کے بعد بھی ایک بار اور زیارت خانہ کعبہ کا موقع مل گیا ، اس دفعہ جو نگاہ خانہ کعبہ پر پڑی ،تو ایسا محسوس ہواکہ کسی شناسا کو آخری بار دیکھ رہے ہیں اور اس پر رخصتی نظر ڈال رہے ہیں،اکیلے بھی تھے ا س وقت ، دل بھر آیا اور اتنی بڑی نعمت سے جو جمال کعبہ کی دید کی شکل میں نصیب تھی ،چند لمحوں کے بعد محروم ہوجانے کے تصور سے تکلیف ہونے لگی۔
جائے نماز لے کر وپس آئے اور ٹھیک تہجد کے وقت ٹیکسی پر سوار ہو کر رات کے سناٹے اور برقی قمقموں کی روشنی میں مکہ معظمہ کی کشادہ سڑکوں پر چل پڑے ،اچانک یہ خیال آیاکہ کس آرام اور سکون کے ساتھ منزلِ مقصود پر پہنچنے کے کس یقین کے ساتھ آج مکہ معظمہ سے روانگی ہو رہی ہے ،یا وہ وقت جب ختم الرسل ﷺ پہلی بار اسی مکہ سے رات کے سناٹے اور گھٹا ٹوپ اندھیارےمیں یثرب (مدینہ شریف )کی طرف اپنے ایک دوست ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ روانہ ہواتھا ،پیدل پتھریلی اور ریگستانی راہوں پر اس طرح قطع مسافت کی جارہی تھی کہ نشان قدم بھی مٹا دئے جاتے کہ دشمنوں میں ایسے ماہرین بھی تھے ، جو پیروں کے نشان دیکھ کر جان لیتے تھے کہ کس قبیلے اور کس خاندان کے مسافر اس راہ سے گئے ہیں ، دشمنوں نے اس رات در دولت کا محاصرہ کرلیا تھا اور قتل کردینے کی سازش بڑی ہوشیاری سے تیار کر لی تھی ،کیوں؟صرف اس لیے کہ وہ بزرگ ہستی ہماری نجات کی راہ بتانے میں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کر رہی تھی !۔
بچپن میں ضرور اپنی والدہ محترمہ حضرت بی بی آمنہ ؓ کے ہمراہ حضور انور ﷺنے یثرب (نانیہال)کا سفر فرمایا تھا،لیکن مبعوث ہونے کے بعد پہلی بار مدینہ شریف کے لیے بحکم خداوندی حضوراکرم ﷺ مکہ معظمہ سے نکلے تھے اور اس طرح نکلے تھے کہ راستہ میں ہر موڑ پر دشمن کی خون خوار نگاہیں گزرنے والوں کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں ،اپنے گھر کے دروازے سے نہیں، پچھواڑے سے آپ باہر تشریف لائے ، پھر مکہ سے نکل کر تین دن تک ایک پہاڑ کے کھوہ میں (غازِ ثور )دشمن کی جستجو سے پوشیدہ رہنا پڑا ،یہ سب کس لیے ؟ غارِحرا میں ریاضتیں کیوں ؟ یہ ہاتھ کا تکیہ خاک کا بستر کس کےواسطے ؟غارِ ثور میں پوشیدگی کس کی خاطر ؟ صرف اس واسطے کے اس کی امت کو بعد میں کلفتیں نہ ہوں ، اس کی راہ کے کانٹیں ہٹ جائیں، اسکی قطع مسافت میں زحمتیں سد راہ نہ وہوں :۔
بوریا ممنون خواب راحتش ماندشبہا چشم او محروم نوم تاج کسری زیرِ پائے امتش تا بہ تخت خسروی خوابیدہقوم
مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد حضور انور تین دفعہ مکہ معظمہ تشریف لائے ، سب سے پہلی بار تشریف لائے تو دشمنوں نے آنے ہی نہیں دیا ،حدیبیہ کے مقام پر ،جو اس وقت جدے اور مکہ معظمہ کی راہ پر تقریبا وسط میں ہے،حضور انور کورکنا ہوا وہیں معاہدہ ٔصلح ہوا جس کے تحت دوسرے سال حضور ﷺ اس طرح مکہ معظمہ میں عمرۃ القضا ادا کرنےآئے کہ از روئے معاہدہ صرف تلوار یں ساتھ تھیں اور وہ بھی نیام کے اندر اس طرح خون کے پیاسے دشمنو ں کے درمیان آپ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف لائے اور از روئے معاہدہ تین دن سے زیادہ مکہ معظمہ میں قیام نہیں فرمایا اور واپس مدینہ شریف چلے آئے ۔ دوسری بار فتح مکہ کے سلسلہ میں تشریف آوری ہوئی اور کافی قیام بھی ہوا ،تیسری بار حجۃ الوداع کے لیے تشریف لائے اور پانچ دن مناسک حج وغیرہ میں یہاں صرف کر کے مدینہ شریف لوٹ گئے ،جہاں پورے تین ماہ کے بعد آپ نے دنیا سے پردہ فرمالیا ۔
اب وہ راہیں اور گزرگاہیں سب مخفی ہو چکی ہیں ،جو حضور انور ﷺ کے قدمہائے مبارک کی وابستگی سے خوش نصیب ہو چکی تھیں ،اگر واقعی اور بعینہ وہی راہیں رہ جاتیں ،تو ایک امتی کے لیے ان راہوں پر چلنا یعنی پیروں سے چلنا ذہنی طور پر کس قدر دشوار ہوتا ۔
ٹیکسی ہمیں لیے جس صبا رفتاری سے چل رہی تھی ، اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ چالیس پینتالیس میل کی دوری پر واقع جدہ جب آیا تو س وقت تک اندازاً صبح صادق طلوع نہیں ہوئی تھی ، یعنی ہم لوگ جو جدے میں ٹھہرنے والےنہ تھے اگر نماز ِفجر کا وقت آجاتا تو شاید اتنی دیر ضرور وہاں ٹھہرجاتے ،مگر بغیر رکے آگے بڑھتے چلے گئے ، راستے کی ایک منزل میں اتر کر نماز فجر پڑھی ،چائے ناشتہ کیا ، ناشتہ ساتھ تھا ، ساد ی چائے منزل پر فروخت ہو رہی تھی ،پانی بھی فروخت ہو رہا تھا،وضو بھی کرنا تھا ، اس لیے کہ اگر چہ وضو کر کے مکہ معظمہ سے روانہ ہوئے تھے ،مگر سناٹے میں موٹر کے سفر نے سب کو اونگھا دیا تھااور نئے سرے وضو کرنا تھا ۔