سچی باتیں۔۔۔ بچوں کی تربیت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

08:52PM Fri 9 Dec, 2022

[مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب ]

1931-04-24

سرسید احمد خاںؔ مرحوم کے بعض عقائد جیسے بھی کچھ رہے ہوں، بہرحال اُن کی ذاتی عظمت سب کو مسلّم ہے، اور اس سے تو کسی کو انکار نہیں، کی قوم میں اُن کی ایک نہایت اہم ونامور شخصیت تھی، ان کی اس سیر ت میں بڑ ادخل اُن کی اخلاقی قوت کو تھا، اخلاقی زندگی کی تربیت وتشکیل کیونکر ہوتی تھی، اس باب کا ایک ورق خود اُن کی زبان سے سننے کے قابل ہے، لکھتے ہیں:۔

’’جس زمانہ میں میری عمر ۱۱-۱۲ برس کی تھی، میں نے ایک نوکر جو کہ بہت پُرانا اور بڈھا تھا، کسی بات پر تھپڑ مارا، والدہ کو بھی خبر ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد جب میں گھر میں آیا۔ تو اُنھوں نے نہایت ناراض ہوکر کہا ، کہ اس کو گھر سے نکال دو، …یہ گھر میں رہنے کے لائق نہیں رہا۔ چنانچہ ایک ماما میر اہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر لے گئی، اور سڑک پر لاکر چھوڑدیا۔ اُسی وقت میری خالہ کے گھر سے جو بہت قریب تھا، دوسری ماما نکلی! اور خالہ پاس لے گئی۔ اُنھوں نے کہا دیکھو آپا بی تم سے بہت ناراض ہیں، میں تم کو کوٹھے پر ایک مکان میں چھپادیتی ہوں، وہاں سے باہر نہ نکلنا، ورنہ وہ ہم سے بھی ناراض ہوجائیں گی۔ میں تین دن تک وہاں چھپارہا، تیسرے دن خالہ صاحبہ مجھے والدہ کے پاس لے گئیں تاکہ قصور معاف کرائیں۔ انھوں نے کہا، اگر اُس نوکر سے قصور معاف کرائے گا، تو میں بھی معاف کردوں گی۔ میں نے جب ڈیوڑھی میں جاکر نوکر کے آگے ہاتھ جوڑے ، تب قصور معاف ہوا‘‘۔

یہ حکایت عہد رسالت کی نہیں، دَور صحاہ کی نہیں، سو برس سے کچھ ہی اوپر کی ہے۔ اللہ اکبر! اس سو برس کے اندر کیا سے کیا ہوگیا، اور ہم کہاں سے کہاں پہونچ گئے! پھر سرسیدؔ کی والدہ ماجدہ، رابعۂ بصریہ کی طرح تارک الدنیا نہ تھیں، عام دنیادار بیویوں میں تھیں۔ آج ہمارے کن گھرانوں میں یہ تربیت ملے گی؟ کن گھروں میں نوکر کا مارنا پیٹنا کوئی سنگین جُرم قراردیاجائے گا؟ کون مائیں اس جرم میں، تین تین دن ، لڑکے کی صورت دیکھنا چھوڑدیں گی؟ کون شریف ومعزز خاندان اِس ننگ کو گوارا کرے گا ، کہ لڑکا ہاتھ جوڑ کر نوکر سے اپنی خطا معاف کرائے، جب جاکر گھر میں گھسنے پائے؟ کس لڑکے کی ’’خودداری‘‘ اسے قبول کرے گی ، کہ نوکر کے آگے ہاتھ جوڑجوڑ کر اپنی خطا معاف کرائے؟

ساری امت کے رحیم وکریم، شفیق ودلسوز باپ ، ہر ماں اور باپ سے بڑھ کر شفیق ودلسوز باپ نے، امت کو لونڈیوں باندیوں، نوکروں چاکروں، غلاموں اور زیردستوں کے باب میں جو احکام دئیے تھے، وہ تو بھولے ہوئے ہمیں مدت ہوچکی، آج سے دوتین پشتوں اُدھر تک خود ہمارے بزرگوں کا جوطرز عمل تھا، وہی اب ہمین کب یادرہ گیاہے؟ لوگ کہتے ہیں ، کہ قوم میں دوسرا سرسید نہ پیداہوا، یہ کوئی نہیں کہتا، کہ سرسید کی ماں کی سی دوسری ماں، قوم میں کب پیداہوئی؟