گیان واپی مسجد کے وضو خانے کو انتظامیہ نے کیا سیل، سی آر پی ایف رہے گی تعینات

03:39PM Mon 16 May, 2022

وارانسی: یوپی کے وارانسی کی گیان واپی مسجد کے سروے کا کام تین دن کی قواعد کے بعد پورا ہوگیا ہے۔ ہندو فریق نے دعویٰ کیا ہے کہ نندی کے گیٹ کے سامنے مسجد کے وضو خانے سے 12 فٹ 8 انچ کی شیولنگ ملا ہے۔ اس کے بعد عدالت نے شیولنگ والے علاقے کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہیں پیر کے روز دیر شام کو ضلع انتظامیہ کی ٹیم نے وضوع خانے والے علاقے کو سیل کردیا ہے۔ دراصل ہندو فریق کے وکیل ہری شنکر جین نے اہم شواہد کو محفوظ کرنے کے لئے درخواست دی تھی۔ اسی عرضی کے بعد سول جج (سینئر ڈویژن) روی کمار دیواکر کے حکم پر وضو خانے والی جگہ کو سیل کیا گیا ہے۔ بہر حال گیان واپی مسجد کے وضو خانے کو عدالت کے حکم پر سیل کرنے کی کارروائی کے دوران اے ڈی ایم پروٹوکول موقع پر موجود رہے۔ وہیں، وضو خانے کے پاس سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی تعیناتی کردی گئی ہے، جو کہ اب 24 گھنٹے نگرانی کرے گی۔ واضح رہے کہ  گیان واپی مسجد تنازعہ معاملے میں آج الہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت پوری نہیں ہوسکی۔ اس کے ساتھ عدالت نے اب اس معاملے کی سماعت کے لئے آئندہ تاریخ 20 مئی طے کی ہے۔ جبکہ سماعت دوپہر 12 بجے سے شروع ہوگی۔ وہیں، پیر کے روز ہوئی سماعت میں سوئمبھو بھگوان وشیشور یعنی ہندو فریق نے دلیلیں پیش کی۔ اس دوران ہندو فریق کی طرف سے عدالت کو یہ جانکاری دی گئی کہ وارانسی میں سروے کے دوران عدالت کمیشن کو مسجد کے تالاب سے بڑے سائز کا شیولنگ ملا ہے۔ اسی بنیاد پر اے ایس آئی سے کھدائی کراکر سروے کرانے کے احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گیان واپسی مسجد تنازعہ کی سماعت الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس پرکاش پاڈیا کی سنگل بینچ میں ہوئی ہے۔ کب آیا معاملہ سامنے؟ یہ تقریباً 30 سال پرانا معاملہ ہے، جب سال 1991 میں پجاریوں کے گروپ نے بنارس کی عدالت میں عرضی دائر کی تھی، جنہوں نے گیان واپی مسجد علاقے میں پوجا کی اجازت مانگی تھی۔ ان لوگوں نے عدالت میں یہ دلیل دی کہ اورنگ زیب نے کاشی وشو ناتھ مندر کو توڑ کر گیان واپی مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ ایسے میں انہیں احاطے میں پوجا کی اجازت دی جائے۔ اس معاملے میں مسجد کی نگرانی کرنے والی انجمن انتظامیہ مساجد کو مدعا علیہ بنایا گیا۔ تقریباً 6 سال کی سماعت کے بعد 1997 میں عدالت نے دونوں فریق کے حق میں ملا جلا فیصلہ سنایا۔ جس سے دونوں فریق ہائی کورٹ چلے گئے اور الہ آباد کورٹ نے 1998 میں لور کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔ اس کے بعد سے یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں ہی رہا۔
سال 2018 میں پھر سے کیس میں آئی تیزی تقریباً 20 سال بعد 2018 میں مقدمے میں وکیل رہے ونے شنکر رستوگی نے next friend کے طور پر عرضی دائر کی اور دسمبر 2019 میں یہ کیس پھر سے کھل گیا۔ اہم بات یہ تھی کہ اس کے ٹھیک ایک ماہ پہلے ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ آیا تھا اور رستوگی کی عرضی پر اپریل 2022 میں عدالت نے گیان واپی احاطے کا آثار قدیمہ کا سروے کرنے کا حکم دیا اور اسی بنیاد پر اب احاطے کا سروے کیا جائے گا۔ مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کی گئی؟ کاشی وشوناتھ مندر اور اس سے متصل گیان واپی مسجد کے بننے کو لے کر الگ الگ طرح کی مفروضے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کا یہی ماننا ہے کہ اورنگ زیب نے مندر توڑ کر گیان واپی مسجد بنوائی۔ جبکہ مسلم فریق کا ماننا ہے کہ دونوں الگ الگ بنائے گئے اور مسجد بنانے کے لئے کسی مسجد کو نہیں توڑا گیا، جہاں تک کاشی وشوناتھ مندر کی تعمیر کا سوال ہے تو اس کا سہرا اکبر کے درباری راجا ٹوڈرمل کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے سال 1585 میں برہمن نارائن بھٹ کی مدد سے کرایا تھا۔ اسی بنیاد پر ہندو فریق کا ماننا ہے کہ اورنگ زیب کی مدت میں مندر توڑ کر گیان واپی مسجد بنائی گئی۔ حالانکہ اس پر مورخین کا اتفاق رائے نہیں ہے۔ کچھ ہندو فریق کی دلیل کو صحیح بتاتے ہیں تو کچھ کا کہنا ہے کہ مندر کو توڑا نہیں گیا تھا۔ ہندوستانی سیاست میں کیا ہے اہمیت جس طرح ایودھیا کو لے کر رام مندر تعمیر کا فیصلہ آیا اور اس کے ایک ماہ بعد گیان واپی کیس شروع ہوا۔ اسے دیکھتے ہوئے اس فیصلے کا ہندوستانی سیاست پر بڑا اثر نظر آسکتا ہے۔ کیونکہ موجودہ وقت میں مرکز کے اقتدار میں بیٹھی بی جے پی کے لیڈروں کی طرف س ے اس طرح کے بیانات ہمیشہ آتے رہے ہیں کہ ایودھیا تو جھانکی ہے، کاشی-متھرا باقی ہے۔ اصل میں ایودھیا کی طرح بھلے ہی بی جے پی نے کاشی-متھرا کو لے کر تجویز منظور نہیں کی ہو، لیکن پارٹی کے لیڈران کا یہ ماننا ہے کہ کاشی متھرا تنازعہ کا بھی حل نکلنا چاہئے۔ ایسے میں جب گیان واپی مسجد احاطے میں سروے شروع ہو رہا ہے۔ تو طے ہے کہ اس کے بڑے سیاسی اثرات ہوں گے۔