حجاب معاملہ: کرناٹک ہائی کورٹ  میں عدالت کی کارروائی کل کے لیے ہوئی ملتوی۔ عدالت نے حکومت سے  حجاب تنازعہ میں سی ایف آئی کے رول کی  مانگی وضاحت

12:19PM Wed 23 Feb, 2022

بینگلور: 23 فروری، 2022 (بھٹکلیس نیوز بیورو/ ذرائع)کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کیس کے سلسلے میں آج 9 ویں دن بھی  معاملے کی سماعت کی تاہم آج بھی عدالت نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنایا اور عدالت کی کارروائی کل کے لیے ملتوی کردی۔  آج سینئر ایڈوکیٹ ایس ناگانند نے پری یونیورسٹی کالج کی طرف سے دلائل شروع کئے۔ وکیل نے بنچ کو درخواست گزاروں میں سے دو کے آدھار کارڈ کی تصویر دکھائی جس میں انہیں حجاب نہیں پہنے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ وکیل ناگانند نے اس معاملہ میں کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی ) کو گھسیٹتے ہو ئے کہا  کہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کی طلبہ اور حکام کے ساتھ میٹنگ کے بعد ہی حجاب کا ہنگامہ شروع ہوا تھا۔ پی یو کالج کے وکیل ناگانند نے کرناٹک ہائی کورٹ کو بتایا کہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) ایک بنیاد پرست تنظیم ہے، جس نے حجاب کے نام پر ڈھول پیٹنے کی قیادت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی اسکول یا کالج کی طرف سے تسلیم شدہ یونین نہیں ہیں بلکہ وہ صرف ہنگامہ برپا کر رہے ہیں۔ عدالت نے اس معاملہ کو سننے کے بعد حکومت سے حجاب معاملے میں سی ایف آئی کے رول ہونے کے متعلق وضاحت طلب کی ۔ کالج  کی طرف سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ایس ایس ناگنند  کا کہنا  تھا  کہ 2004 سے یونیفارم لازمی تھا۔ انہوں نے عرضی گزاروں کے آدھار کارڈ کا حوالہ دیا اور کہا کہ بغیر حجاب کے تصاویر لی گئی تھیں۔ ایڈوکیٹ ناگنند نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ طالبات اس لحاظ سے کسی عقیدے کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں عوام میں ہمیشہ حجاب پہننا چاہیے۔ ایڈوکیٹ ناگنند نے کہا کہ سال 2004 میں یونیفارم کو لازمی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تب کوئی مسئلہ نہیں تھا اور طلبہ کلاس میں جا رہے تھے۔ یہ کوئی گمراہ کن قرارداد نہیں ہے۔ 21 دسمبر 2021 کو کچھ والدین نے کالج کے حکام سے ملاقات کی اور اصرار کیا کہ لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پرنسپل نے درخواست کی کہ وہ یونیفارم پہنیں۔ ایڈوکیٹ ناگنند نےعدالت کو بتایا  کہ کرناٹک حکومت نے کوئی یونیفارم تجویز نہیں کیا ہے۔ حکومت نے یونیفارم کے معاملے پر فیصلہ کرنا اداروں پر چھوڑ دیا ہے اور ہمارا کالج 2004 سے بغیر کسی اعتراض کے یہ فیصلے کر رہا ہے۔ایڈوکیٹ ناگنند نے کہا کہ کالج ڈیولپمنٹ کونسل (سی ڈی سی) ایک ادارہ ہے جو کالج کی جانب سے کام کرتا ہے۔ یہ ایک نمائندہ ادارہ ہے۔ سی ڈی سی نے یونیفارم تجویز کیا ہے۔ 20 سال پہلے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سی ایف آئی اور دیگر اداروں نے بچوں اور ان کے والدین کو اکسایا ہے۔ عدالت نے آج  وکیلوں کے دلائل سننے کے بعد آئندہ کی کارروائی کو کل کے لیے ملتوی کردیا ہے ۔ واضح رہے کہ  کل عدالت نے اسی ہفتے کے اندر اس معاملے کو نمٹانے کی بات بھی کہی تھی ۔چیف جسٹس جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا عبوری حکم صرف طلبا پر لاگو ہوتا ہے۔ چیف جسٹس اوستھی نے کہا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی لباس استعمال نہ کرنے کی ہائی کورٹ کی تجویز صرف طلبا پر لاگو ہوتی ہے۔ یہ تجویز اساتذہ پر لاگو نہیں ہوگی۔ سابق میں کرناٹک کے ایک پرائیویٹ کالج کی ایک گیسٹ لیکچرر نے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب ان سے مبینہ طور پر حجاب نہ پہننے یا کوئی مذہبی علامت ظاہر نہ کرنے کو کہا گیا تھا۔ سی جے اوستھی کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کا حکم ان تمام کالجوں پر لاگو ہوتا ہے جہاں یونیفارم کا تعین کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا کہ حکم واضح ہے کہ یہ صرف ان اسکولوں اور کالجوں کے لیے ہے جہاں یونیفارم کا تعین کیا گیا ہے۔ اگر یونیفارم مقرر ہے تو انہیں اس پر عمل کرنا ہوگا، چاہے وہ ڈگری کالج ہو یا پی یو کالج۔ اس دوران کہا گیا کہ عوامی ہدایات کے ذریعے تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ایک سیکولر سرگرمی ہے۔ لہٰذا سیکولر تعلیم میں مذہب کی مداخلت کو کم سے کم رکھا جائے۔ اسکول میں یونیفارم نافذ کرنا اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ سیکولر ہے، یہ پبلک آرڈر ہے۔ اس لیے جب میں یونیفارم تجویز کرتا ہوں تو مذہب غیر متعلقہ ہے اور میں ایسا کرنے کا حقدار ہوں۔