مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی پر خاموشی کے خلاف مولانا محمود مدنی نے اٹھائی آواز

04:14PM Thu 23 Dec, 2021

جمعیت علماء ہند کے قومی صدرمولانا محمود مدنی نے ہریدوار میں شرپسند عناصر کی طرف سے سہ روزہ دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں کو کھلے عام قتل کی دھمکی دینے پر تشویش کااظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں سرکاراور انتظامیہ کی طرف سے خاموش رویہ اختیارکرنے کو پشت پناہی سے تعبیر کیا ہے اور اسے ملک کے انتہائی نقصان دہ بتایاہے۔ مدنی نے ملک کے وزیر داخلہ شری امت شاہ، اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی، قومی اقلیتی کمیشن اور نیشنل ہیومن رائٹس کو خط لکھ کر اس پر فوری توجہ دینے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ملک کے امن وامان، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اس لیے میرا مطالبہ ہے کہ منتظمین اور مقررین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔واضح ہو کہ ۷۱/ تا۹۱/دسمبر ۱۲۰۲ء کے مابین ہریدوار میں ’اسلامی ہندستان میں سناتن دھرم: مسائل اور حل‘ کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں بہت سے مقررین نے اشتعال انگیز اور منافرت پر مبنی تقاریر کیں، مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلم کھلا اپیل کی اور پوری ہندو برادری کو مسلح کرنے پر زور دیا۔ ایک مقرراور پروگرام کا سرپرست اعلی یتی نرسنگھا نند نے کہا کہ اگر کوئی ہندو، دہشت گرد تنظیم ایل ٹی ٹی ای چیف پربھاکرن بننا چاہتا ہے تو میں اس مقصد کے لیے سب سے پہلے ایک کروڑ روپیہ پیش کروں گا اور بقیہ سو کروڑ تک اکٹھا کرسکتا ہوں۔ ہر ہندو مندر کو ایک پربھاکرن کی ضرورت ہے۔ دوسری مقرر انپورناماں نے کہا کہ اگر سو ہندو فوج بنا کر بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کردے تو اسے ہندو کی فتح قرار دی جائے گی۔ ایک اور مقرر نے کہا کہ میانمار کی طرح، یہاں بھی (ہندستان) میں فوج، پولیس، لیڈر اور ہر ہندستانی شہری کو ان (مسلمانوں) کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے صفائی مہم میں شامل ہونا چاہیے۔ تیار رہیں اور ایسا کرنے کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کریں۔“ مولانا مدنی نے اپنے مکتوب میں ان بیانات کا حوالہ دے کر سرکار کو متوجہ کیاہے کہ وہ ملک کے آئین او ر قانون کی حکمرانی و بالادستی کی حفاظت کرے اور آئینی عہدے کی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھ کر ملک میں انارکی اور نفرت پھیلانے والے عناصر کو کیفرکردار تک پہنچائے۔