کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ(۱)۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

07:16AM Sun 15 Jan, 2023

نام کتاب: کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ (جلد اول  )

مصنف: جابر علی سید

صفحات (۱۶۴  )

سنہ: ۱۹۸۴

ناشر: مقتدرہ قومی زبان ۔ اسلام آباد

تعارف نگار: عبد المتین منیری (بھٹکل )

زبانیں تہذیب وثقافت کی علامت ہوا کرتی ہیں ،یہ مختلف قوموں کے اختلاط سے بنتی ہیں، اور انہیں بنتے بنتے صدیاں بیت جاتی ہیں، اس دوران یہ تبدل و تغیر کے کئی ایک مراحل سے گذرتی ہے، اوراسے تکمیل تک پہنچانے میں علمائے لغت کی کئی نسلیں بیت جاتی ہیں۔ اردو زبان بھی کچھ ایسی ہی زبانوں میں شامل ہے۔

جب زبانیں بنتی ہیں تو ان میں نت نئے الفاظ شامل ہونےلگتےہیں، جو دوسروں زبانوں سے بھی آتے ہیں، اور بولنے والوں کے ماحول و معاشرت سے بھی  تخلیق پاتے ہیں، جب زبانیں تشکیل پاتی ہیں اور ان کے الفاظ استعمال میں آنے لگتے ہیں اور ان کا دائرہ کار بڑھ جاتاہے، اور مختلف قوموں تک یہ پھیل جاتی ہے، تو پھر انہیں سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ماہرین زبان معاجم اور کتب لغت ترتیب دیتے ہیں، اردو ان خوش قسمت زبانوں میں سے ہے جسے ابتدائے زمانہ ہی سے ماہر لغت نویس دستیاب ہوئے اور انہوں نے الفاظ کے معنی ومفہوم اور ان کے استعمالات بتانے کے لئے کتب لغت تصنیف کی۔

ایک زمانہ تھا کہ اردو دہلی اور لکھنو تک محدود تھی، اور زبان کے استناد کے لئے ان دو شہروں کی مہذب سوسائٹی کی بولی اہل زبان کی بولی سمجھی جاتی اور بطور سند استعمال ہوتی تھی، لیکن اب  اہل زبان کی یہ اصطلاح متروک ہوتی جارہی ہے، کیونکہ دہلی اور لکھنو سے زیادہ اردو کو دوسرے شہروں نے سینے سے لگالیا ہے۔ اب جو علمائے زبان کے تشکیل کردہ اصولوں کی پاسداری کرے وہی سند ہے۔ اس کی مثال میں آپ مستند اور مشہور ماہر زبان ڈاکٹر رؤوف پاریکھ صدر نشین ادارہ فروغ قومی زبان اسلام کا نام لے سکتے ہیں، ہمارے خیال میں پاریکھ صاحب کی آبائی گھریلو زبان اردو نہیں ہے۔ اگر ہم غلطی نہیں کررہے ہیں تو پاریکھ  کی نسبت رکھنے والوں کی مادری زبان گجراتی یا راجستھانی ہے، غالبا میمن برادری میں بھی پاریکھ پائے جاتے ہیں۔

چونکہ مسلمانوں سے وابستہ علمی کام چاہے  وہ اردو کے ہوں یا عربی کے ان میں بڑی بڑی کتب لغت عموما اداروں اور اکیڈمیوں کے بجائے افراد کے ہاتھوں انجام پائے ہیں۔لہذا ان میں غلطیوں کے امکانات زیادہ ہیں، ان زبانوں کے عالموں نے ان زبانوں کے الفاظ واستعمالات کے تنقیح و تصحیح پر عمریں صرف کی ہیں۔ اردو میں بھی اس سلسلے کا وقیع کام ہوا ہے، لیکن اسے جتنے وسیع پیمانے پر متعارف ہونا چاہئے تھا ویسا متعارف نہیں ہے، اس کی بڑی وجہ لسانیات کے اس اہم شعبہ سے اردو والوں کی  بے اعتنائی او سہل پسندی ہے۔

اسلام آباد میں سنہ ۱۹۸۰ کی دہائی میں مقتدرہ قومی زبان کا قیام عمل میں آیا تھا، تو اردو زبان کو علمی زبان کی حیثیت سے فروغ دینے، اور صحت زبان کے ساتھ اسے عام کرنے کے لئے کئی منصوبوں پر کام ہوا تھا، جن میں کتب لغت کا تحقیقی ولسانی جائزہ سے متعلق منتشر کتابوں کو اکٹھا کرکے عام قارئین تک ان کی رسائی کو آسان کرنا شامل تھا، اور اس سلسلے سات جلدیں شائع ہوئی تھی، اور پھرابھی قریب میں ڈاکٹر رؤوف پاریکھ کی آٹھویں جلد شائع ہوئی ہے۔

اس علمی سلسلے میں ماہرین لسانیات میں سے جابر علی سید، وارث سرہندی، نواب جعفر علی خان اثر کی کتابیں شامل تھیں، غالبا یہ کتابیں مقتدرہ سے ایک ہی مرتبہ شائع ہوئیں، اور اب تلاش بسیارکے باوجود دستیاب نہیں ہیں، پی ڈی یف کتابوں کو عام کرنے والوں نے بھی اسے توجہ کے قابل نہیں سمجھا، حتی کہ ریختہ والوں کی بھی نظر اس سلسلے کی دو ایک کتابوں سےآگے نہیں گئی ہے۔

اس سلسلے کی اہمیت کے پیش نظر علم وکتاب گروپ کے احباب کے لئے خاص طور پر ہم نے کتب خانہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے اس پورے سلسلے کو حاصل کرکے اس کی اسکیننگ کی ہے ۔

اس سلسلے کی پہلی کتاب جابر علی سید کی تصنیف کردہ ہے، جو ایک بڑے ماہر لسانیات تھے، مصنف کتاب کی طباعت سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، اس کتاب پر نظر ثانی علمی اردو لغت کے مرتب اور مشہور ماہر زبان وارث سرہندی نے کی ہے۔

اس کتاب میں  مصنف نے جائزہ کے لئے دو کتب لغت کا انتخاب کیا :۔

۔  پلیٹس کی لغت: انگریزوں نے ہندوستان آنے کے بعد یہاں کی زبان سیکھنے کے لئے کتابیں اور کتب لغت تیار کیں، ان میں یہ ایک اہم مرجع ہے، یہ  ( ۱۲۵۴ ) صفحات پر دو کالمی لغت ہے، یہ غدر کے ایک سال بعد ۱۸۵۸ء میں دیدہ زیب انداز سے کلکتہ سے اردو ٹائپ پر شائع ہوئی تھی۔

۔ فرہنگ آصفیہ، مولوی سید احمد دہلوی کی چار ضخیم جلدوں میں ۱۹۱۸ ء میں شائع شدہ یہ لغت اردو کی اہم ترین لغت سمجھی جاتی ہے، کوئی بھی اردو کا قاری اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا، نہ ہی اردو کی کوئی لغت اس سے مستغنی کرسکتی ہے، اس کا ایک نیا ایڈیشن الفیصل لاہور سے شائع ہوا ہے، جو کتاب کے شایان شان ہے۔ اس نئے ایڈیشن کو ہم نے اسکین کرکے محفوظ کیا ہے، اس کے بوک مارک کا کوئی نظم ہوتو ایک بڑی خدمت ہوسکتی ہے۔

جابر علی سید نے اپنی اس کتاب میں فرہنگ آصفیہ کی چند فروگزاشتوں پر ایک جائزہ پیش کیا ہے۔ جو اردو کے طالب علموں کے لئے بہت  اہم ہے۔

قاری کے ذہن میں یہ بات رہے کہ فرہنگ آصفیہ پر جابر علی سید کے نقد وتبصرہ اور جائزہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سید صاحب کی بات حتمی اور درست اور فرہنگ آصفیہ کی بات غلط ہے، یہ ایک نقطہ نظر کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اردو کے ایک طالب علم اور قاری کو ماہرین زبان کے درمیان ہونے والے ان علمی ولسانی اختلافات اور ان کے جائزوں  کا علم ہونا چاہئے، ان بحثوں  میں نتیجہ سے زیادہ اہم یہ جاننا ہوتا ہے کہ اختلاف کی وجہ کیا ہے۔ اس طرح ہماری زبان زیادہ درست اور بہتر ہوسکتی ہے۔ احباب کی دلچسپی اور متابعت جاری رہی تو ان شاء اللہ مزید چیزیں پوسٹ ہونگی۔

ہماری خواہش ہے کہ لکھنو، دہلی یا کسی اور شہر میں کوئی ایک مرکز ایسا ہو جہاں ان اہم کتابوں کی کی کاپی اور جلد بندی کا انتظام ہو، اور مناسب قیمت پر ایسی کتابیں طلب کرنا مدارس، اساتذہ اور طلبہ کے لئے آسان ہو، یہ کام ہمارے گروپ ممبر مولانا مفتی حذیفہ وستانوی صاحب اپنے ادارے سے بھی کرسکتے ہیں، ہمارے خیال میں اس کی لاگت اصل کتاب سے زیادہ نہیں آئے گی۔ اس مقصد سے زیادہ واضح اور معیاری کاپی فراہم کی جاسکتی ہے۔

علم وکتاب ٹیلگرام چینل پر کتاب دستیاب ہے۔

https://t.me/ilmokitab/9088

 WhatsApp: 00971555 636151