جناب حسن شبر دامدا۔  ایک مخلص معمار قوم(۲) ۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

08:19AM Sun 17 Apr, 2022

WA:+971555636151

انجمن مختلف ادوار میں:۔

انجمن قوم کا ایک ایسا اجتماعی  جمہوری ادارہ ہے، جس میں تسلسل کے ساتھ مقرر ہ میعاد پرمجلس انتظامیہ کے صاف وشفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے، اس میں ذمہ داران کی جواب دہی کا ایک ایسا نظام اس کے بانیان کے زمانے سے رائج ہے جو برصغیر کے مسلم اداروں میں شاید وباید ہی نظر آتا ہے۔ یہ کہنا انجمن کی ترقی ان تین افراد ہی کے مرہون منت ہے ایک غلطی ہوگی ، لیکن اس میں شک نہیں، اس کی ترقی میں مجلس انتظامیہ کے اراکین اور بھٹکل کے عوام کے اس ادارے سے محبت و تعلق، اور پھر ۱۹۷۰ء کے بعد فروغ پانے والی قوم کی خوشحالی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

انجمن حامی مسلمین کا آغاز ۱۹۱۹ء میں ایک  پرائمری اسکول سے آغاز   میں روڈ پر واقع اس عمارت سے ہوا تھا،  جہاں  پر کبھی حکیم  محمد حاجی فقیہ   مرحوم کا یونانی دواخانہ ہوا کرتا تھا۔  پھر اس کے مقابل  گورنمنٹ اردو بورڈ اسکول کے احاطے میں  مصبا کامپلیکس میں اس کی منتقلی ہوئی، اور ۱۹۶۰میں  جب عثمان حسن   مرحوم  کی بحیثیت ہیڈ ماسٹر تقرری ہوئی تو موجودہ انجمن اینگلو اردو ہائی اسکول کی  نئی وسیع عمارت میں اس کی منتقلی ہوئی۔

  انجمن ابھی پرائمری اسکول ہی کی حیثیت سے کام کررہا تھا کہ ۱۵ستمبر ۱۹۲۹ء میں  پرائمری تعلیم کا نظام  سرکاری حکم سے  پرائیوٹ مینیجمنٹ سے چھین لیا گیا تھا،  یہ انجمن پر بڑا کڑا وقت تھا۔

۔۱۹۳۸ء میں انجمن کے ماتحت ثانوی درجات شروع کئے گئے ۔ اور   پہلا میٹرک بیچ  ۱۹۴۲ء میں  انجمن سے فارغ ہوا، یہ پانچ مسلم اور تین.۔ غیر مسلم طلبہ پر مشتمل تھا، ان میں  الحاج محی الدین منیری، محی الدین مومن  ماسٹر، ابو الحسن نوری شابندری ماسٹر، محمد شریف کوڑا، اور کوللے ایڈوکیٹ شامل تھے۔ چونکہ اس وقت بمئی ریاست  میں شمالی کنیرا ، اور مدراس ریاست میں جنوبی کنیرا  ضلع شامل  ہوا کرتےتھے،  تومیسور ریاست کی تشکیل تک میٹرک  کے ریاستی امتحانات بمبئی کے ماتحت  منعقد ہوا کرتے تھے۔

جب سرکار نے پرائمری تعلیم پر مکمل کنٹرول کیا، اور پرائیوٹ اداروں کا اختیار اس پر سے ختم کردیا تو پھر    پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی  ، نصاب وغیرہ کے جملہ اختیارات گورنمنٹ کے ہاتھ میں رہے، البتہ ہائر اسکول میں اساتذہ کے انتخاب اور تقرری  کا اختیار  پرائیوٹ انتظامیہ کے ہاتھ میں رہا، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے انجمن نے نونہالان قوم کو قران کی تعلیم اور دینیات سے مزین کرنے کے لئے اخلاقی علوم کے دائرے میں گورنمنٹ اسکولوں میں دینیات کے اساتذہ کی تقرری اپنے مصارف پر کرنی شروع کی ، اب شاید قوم کے حافظہ سے یہ بات نکل گئی ہوگی کہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے قیام کے محرکات میں پرائمری نظام تعلیم پر انجمن انتظامیہ کے  اختیارات ختم ہونے کی وجہ سے دینی بنیادوں پر نونہالان قوم کی تعلیم وتربیت میں جو دشواریاں پیش آرہی ہیں،اس کا مداوا بھی تھا ۔ جامعہ کی تاسیس میں مرحوم عثمان حسن  (  ہیڈ ماسٹر) وغیرہ  انجمن سے وابستہ شخصیات  نے جو بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا  اس کے  پیچھے یہ جذبہ بھی کار فرما  تھا،   دینی مدارس میں جامعہ کا یہ اختصاص رہا ہے کہ  ابتدائی چھ سال مکتب کی تعلیم کا یہاں پر شروع سے نظام قائم کیا گیا، یہ نظم عموما برصغیر کے مدارس دینیہ میں پایا نہیں جاتا، عام طور پر دینی  مدارس میں طلبہ ساتویں یا میٹرک کرکے ،  حفظ مکمل کرکے یادرمیان میں تعلیم چھوڑ کر آتے ہیں، لیکن جامعہ  میں  مقامی طلبہ کا تناسب وطن عزیز کے دوسرے مدارس دینیہ  کے مقابلے میں   جو زیادہ ہے، اس میں جامعہ کے ماتحت  قصبے میں چلنے والے  چار مکاتب اور مجلس احیاء المدارس کے سات  مکاتب  کے طلبہ کاان مکاتب سے  جامعہ کا مکتب کا نصاب مکمل کرکے  منتقل ہونا بھی بہت بڑا سبب ہے۔

اس وقت وطن عزیز کے حالات، اور وسائل کی تنگ دامانی کچھ ایسی تھی کہ   انجمن کے ذمہ داران،   یہاں کے اساتذہ کے اخلاص اور محنتوں  کے باوجود زیادہ ترقی نہیں کرپارہا تھا، اور یہ ایک  حقیقت ہے کہ ۱۹۱۹ء میں انجمن حامی مسلمین کے قیام سے ۱۹۶۸ء تک جملہ پچاس سال تک انجمن کے ماتحت صرف ایک ہائی اسکول ہی رہا، جہان سے تعلیم وتربیت پانے والوں نے آئندہ قوم کی باگ ڈور سنبھالی، بھٹکل میں اس وقت چھ سات سے زیادہ اردو میڈیم پرائمری اسکول تھے، جن میں لڑکیوں کے بھی  دو ایک اسکول تھے ، جن میں ساتویں  جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی، یہ سبھی سرکاری اسکول تھے، لیکن  تکیہ محلہ، سلطانی محلہ، قدوائی روڈ، نوائط کالونی ، مین روڈ  وغیرہ خالص مسلم محلوں میں یہ سرکاری اسکول  رہنے کی وجہ سے ان کی نگرانی میں مقامی افراد کا  عمل دخل بھی ہوتا  تھا، اور ان اسکولوں  پر انجمن کی ایک حد تک  سرپرستی و نگرانی  قائم تھی، آج پرائیوٹ اسکولوں کے قیام نے ان سرکاری اردو میڈیم اسکولوں کو نہ صرف  بھٹکل  بلکہ پوری ریاست اور ملک سے تقریبا ختم کردیا ہے،اردو میڈیم سرکاری اسکولوں کے بند ہونے کے  نقصانات کا حقیقت پسندانہ جائزہ ابھی قوم نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے،  ورنہ صورت حال یہ تھی سرکاری  مردم شماری، ووٹر لسٹ وغیرہ کی  تیاری کے موقعہ پر  ان اسکولوں کے اردو اساتذ ہ گھر گھر جاکرمعلومات جمع کرتے تھے تو ناموں میں  املا کی غلطیوں،ووٹر لسٹ سے اخراج،سرکاری دستاویزات میں ناموں کے فرق جیسے سنگین نقصانات  سے قوم زیادہ تر محفوظ رہا کرتی تھی، ورنہ  اب ان کاموں کے لئے جو سرکاری کارندے آتے ہیں وہ اردو سے نابلد ہوتے ہیں، وہ صرف کنڑی یا مقامی زبان جانتے ہیں ،اور  عمومی طور پر کنڑی وغیرہ مقامی زبانوں قوم کے فرزندان کا عبورنہ ہونا ایک  ٹائم بم کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، نہ جانے یہ کب پھٹ پڑے، اور قومی سیاسی قیادت کے فقدان موجودہ   حالات میں کب کونسا  بھاری قومی واجتماعی نقصان اٹھا نا پڑے۔

انجمن آرٹس ایند سائنس کالج کا قیام:۔

انجمن کے قیام کے بعدبھٹکل میں  قوم کی عصری تعلیم کے جس ادارے  نے  انجمن کے بطن سے  پہلے پہل جنم لیا وہ انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج ہے، جس کا قیام ۱۹۶۸ ء میں عمل میں آیا،  اس کے قیام کی تجویز ریاست کرناٹکا کے پہلے مسلم وزیر، قوم کے قائد جناب شمس الدین جوکاکو مرحوم نے ۱۹۵۲ ء میں رکھی تھی،آپ نے اس کے لئے ایک قطعہ ارضی بھی سرکار سے الاٹ کیا تھا، لیکن اس کے قیام کا سہرا آپ کی رحلت کے چار سال بعد قوم کے ایک اور قائد جناب عبد القادر حافظکا مرحوم (  سابق سفیر ہند برائے سعودی عرب) کے حصے میں آیا، جن کی تحریک اور رہنمائی نے انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج کے قیام کو آسان بنادیا،  لیکن اس وقت قو م کے معاشی اور اقتصادی حالات اتنے خراب تھے کی اس کالج کو سنبھالنا دشوار ہورہا تھا، یہاں تک کے کالج کے قیام کے ایک سال بعد ہی انجمن انتظامیہ کی مرکارہ ۔ کورگ میں منعقدہ  ایک میٹنگ ہوئی  تھی جس میں   نوازائدہ کالج کو بند کرنے کے بارے میں سوچا گیا تھا، لیکن خوش قسمتی سے اس وقت حافظکا صاحب اس میٹنگ میں پہنچ گئے،   اور انہوں نے سختی سے ہدایت کی  کہ پیسوں کی فراہمی کوئی بڑی چیز نہیں، آج نہیں تو کل آسانیاں پیدا  ہوجائیں گی، لیکن قوم اگر تعلیم میں بچھڑ گئی تو پھر اس کا مداوا مشکل ہوگا۔ اور انہوں نے اس وقت اپنی جیب سے پندرہ ہزار روپئے کالج کو عطیہ کئے ، اسی طرح اپنی اہلیہ سے  عطیہ دلوایا، اور دیگر ذرائع سے عطیات کی فراہمی سے  اس کالج کو ایک نئی زندگی ملی، اور اس میں شک نہیں قوم کے نونہالوں پر آئندہ دنوں میں اعلی تعلیم  کے جو دروازے کھلے،  اور قوم کے غریب بچے  بھی اعلی تعلیم سے مزین ہونے لگے، تو اس میں  انجمن آرٹس ایند سائنس کالج  کا  یوگدان سب سے زیادہ ہے، قوم حافظکا مرحوم کے اس احسان کا حساب  کبھی  نہیں چکا  سکتی۔ حافظکا مرحوم کی شخصیت کو قومی تاریخ میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے، ان کاتذکرہ  بھی آئی یس صدیق اور یم یم صدیق  کے بعد عظیم معماران قوم کی حیثیت سے ہونا چاہئے۔

انجمن کی نشات ثانیہ:۔

۔۱۹۶۹ء کے بعد  یس یم یحیی، عبد الغنی محتشم اور حسن شبر دامدا مرحوم کی ٹیم نے انجمن کی جو قیادت سنبھالی ،شاید  اس وقت مشیت یزدی کو قوم کا  کچھ بھلا مقصود تھا، قوم کے معاشی اور اقتصادی حالات میں بڑی خوش گوار تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ، خلیجی ممالک کے دروازے معاشی ترقیوں کے لئے کھل گئے ، آندھرا   (  وجے واڑہ، وغیرہ)، ٹامل ناڈو، کیرالا ، ممبئی وغیرہ میں قوم کی تجارتوں میں اچھال آگیا، جس کا اندازہ آپ آندھرا نوائط فنڈ کی  ۱۹۷۶ء میں شائع کردہ نوائط ڈاکٹری  کو دیکھ کر کرسکتے ہیں،قوم پر خوش حالی کا ایک دور شروع ہوگیا،  نئی قیادت کو یس یم سید محی الدین مولانا، یس یم سید محی الدین  انمباری،  قاضیا محمد حسن باپا، مولانا  خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی، الحاج محی الدین منیری  ، محمد امین چیڈو دامدا ابو جیسی بزرگ تجربہ کار شخصیات کی سرپرستی اور تعاون حاصل ہوا، اور دوعشروں کے اندر انجمن کے ماتحت  (  ۲۲)  اداروں  کی داغ بیل رکھی گئی ،جن میں  انجمن نرسری اسکول۔ گرل ہائی اسکول، گرل کالج، کامرس کالج، بی بی اے  مختلف کالجس شامل ہیں، جو ایک ریکارڈ ہے۔

۔۱۹۷۱ء میں کامرس کی اعلی تعلیم کا آغاز ہوا، اور کالج  اب   انجمن آرٹس ، سائنس اینڈ کامرس کالج بن گیا۔

یکم جولائی ۱۹۷۱ء کو لڑکیوں کی آٹھویں کلاس کا  آغاز ہوا، جس کےبعد لڑکیوں کو میٹرک اور اس کے بعد گریجویشن کرنا آسان ہوگیا، اس سے پہلے ساتویں کے بعد لڑکیاں بیاہی جاتی تھی۔ یا پھر جوڑے کے انتظار میں کنوارپنے کی زندگی گذاررہی ہوتی تھیں۔

۔۱۹۷۲ء میں الحاج محی الدین منیری مرحوم کی کنوینر شپ میں انجمن کی تاریخی گولڈن جوبلی منعقد ہوئی، جس نے قوم میں تعلیم کے تعلق سے ایک نئی روح پھونک دی۔

جون ۱۹۷۳ ء میں انجمن میں پہلی جماعت سے انگلش میڈیم اسکول کا آغاز ہوا، ابتک  پرائمری تعلیم صرف اردو میں ہوا کرتی تھی۔

جون ۱۹۷۳ میں  انجمن نرسری اسکول کا آغاز ہوا۔

۔۱۹۹۵ ء میں انجمن کے ماتحت گرلس کالج  کا قیام عمل میں آیا،  جس کے بعد لڑکیوں کےلئے  مخلوط تعلیم کی پابندی نہیں رہی، اور لڑکیوں میں اعلی تعلیم کا تناسب بہت بڑھ گیا۔

انجینیرنگ کالج کا قیام ، ایک سنگ میل:۔

۔۱۹۸۰ء انجمن کے لئے ایک تاریخی سال تھا، ایک طرف کرناٹک کےوزیراعلی دیوراج ارس کے زوال کے ساتھ قوم کے قائد  اور انجمن کے جنرل سکریٹری یس یم یحیی صاحب   کی بھی  سیاسی طور پر کمزور ہوگئے تھے، یحیی صاحب ارس کی  حکومت میں جب وزیر  برائے اعلی تعلیم۔ اور وزیر مالیات ہوا کرتے تھے تو انہوں نے  اپنے سیاسی اثر ورسوخ سے بھٹکل کے وسط میں ایک خوشنما پہاڑی پر  پچاس ایکڑ  وسیع قطعہ اراضی، انجمن کے لئے الاٹ کروائی تھی، جہاں پر انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج کی منتقلی عمل میں آئی تھی، یحیی صاحب اور محتشم عبد الغنی صاحب کی انجمن کے ماتحت ایک انجینرنگ کالج  کے قیام کی بڑی خواہش تھی، لیکن پرائیوٹ اداروں کو ابتک اس کی اجازت نہیں مل  رہی تھی،جب یحیی صاحب کو معلوم ہوا کہ ارس کے بعد گنڈو راؤ حکومت  نے دس پرائیوٹ انجینیرنگ کالجوں کی اجازت دی ہے تو انہوں نے انجمن  انتظامیہ  کی منظوری لئے بغیر اپنی بیگ میں محفوظ  لیٹر پیڈ پر انجینرنگ کالج کے قیام کی درخواست دے دی ، جو مرحوم کے اثر ورسوخ سے منظور بھی ہوگئی، اسے کامیاب کرنے کے لئےعبد الغنی صاحب نے دن ورات ایک کردئے، وجے واڑہ میں ان کے وسیع کاروبار کو پارٹنروں  کے ذمے چھوڑ  کر خود  کئی سال وہ بھٹکل  ہی میں جم گئے،  اللہ نے ان حضرات کے اخلاص اور محنت کا صلہ دیا، انجمن انجینرنگ کالج  ، مسلمانان ہند کے  نامور  کالجوں کی فہرست میں شامل ہوگیا، اور ہندوستا ن بھر سے ملت کے نونہال یہاں سے سیراب ہونے لگے، اس کالج سے انجمن کی مالیات بہت مضبوط ہوگئی، جس سے انجمن کے ماتحت دوسرے اداروں کی ضرورتی ں پوری کرنا آسان ہوگیا۔

 انجمن حامی مسلمین مرحوم شبر صاحب کی پہچان تھی، اور شاید انجمن کے جملہ ادوار کو دیکھنے والے وہ واحد گواہ تھے، ۱۹۴۴ء میں جبب انجمن کی سلور جوبلی مرحوم محمد امین چیڈو دامدا ابو کی کنوینر شپ میں سجی تھی اسے دیکھنے والی اس وقت واحد  زندہ شخصیت تھے، اس  تاریخی موقعہ پر قائد ملت نواب بہادر یارجنگ مرحوم حیدرآباد  دکن سے تشریف لائے تھے،  آج  بھی قائد ملت  کے پرجشن کی کیفیت اور پرمسرت استقبال کے مناظر ان کی آنکھوں میں ایسے  حافظے محفوظ تھے،کہ  انہیں سن کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے اپنی آنکھوں سے انہیں ہم  دیکھ رہے ہوں، آپ نے انجمن کی ابتدائی قیادت میں سے تقریبا سبھی شخصیات  آئی یس صدیق، یم یم صدیق، حاجی حسن ، وغیرہ  کو دیکھا تھا، آپ کے بعد انہیں دیکھنے  والی آخری آنکھ بھی بند ہوگئی۔

خدمت کے دوسرے میدان:۔

انجمن آپ کی اولین محبت تھی، لیکن آپ نے بھٹکل کے دیگر اداروں اور جماعتوں کو ابھی اپنی خدمات اور صلاحیتوں سے نوازا،۔

وہ بھٹکل میونسپل کونسل کے صدر رہے، مجلس اصلاح وتنظیم کی منصب صدارت پر بھی فائز رہے، جماعت المسلمین بھٹکل کے ذمہ دارارن میں تھے، یحیی صاحب کی جگہ پر بھٹکل اسمبلی حلقے میں امیدوار بھی بننے کے لئے کوشاں ہوئے تھے، قوم کے لئے آپ کی انہی کوششوں کو دیکھ کر انہیں ۲۰۰۲ء میں کالیکٹ میں منعقدہ بین الجماعتی بھٹکل مسلم کانفرنس میں  مسلمانان بھٹکل کے  سیاسی قائد  کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔

مرحوم نے اپنی زندگی میں تعلیمی وسماجی میدان میں خاص طور پر مسلمانان بھٹکل کی بڑی مخلصانہ خدمت کی، وہ صوم وصلاۃ کے پابند تھے، ان سے مذہبی حلقے کو کبھی کبھار شکایت بھی  ہوتی رہی،  لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں جراءت ایمانی تھی، وہ لگی لپٹی بات نہیں کرتے تھے، اپنے موقف کے سلسلے میں ان کے پاس دلیلیں بھی تھیں، ضروری نہیں کہ ہر ایک کو یہ دلیلیں مطمئن  بھی کریں، جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے پچاس سالہ تعلیمی سیمینار کے موقعہ پر ان سے گفتگو کا موقعہ ہمیں ملاتھا، اس وقت آ پ نے  اپنا دل کھول کے رکھ دیا تھا، جس سے محسوس ہوتا تھا کہ جامعہ  کے سلسلے میں ان کے دل میں کتنا احترام اور عزت  پائی جاتی ہے، اور فارغین جامعہ کی خدمات کو وہ کتنی اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

وہ خود کو اس حیثیت سے  بہت خوش نصیب سمجھتے تھے کہ انہیں انجمن میں کام کرنےکے لئے بڑا اچھا ماحول ملا، اس زمانے میں مجلس انتظامیہ میں جس معیار کے افراد تھے ان کے ساتھ بیٹھنے میں عزت محسوس ہوتی تھی، اختلاف رائے کے باوجود مجلس انتظامیہ میں سنجیدگی کا ماحول رہتا تھا، وہاں بیٹھ کر گروپ بندی سے ہٹ کر صرف ادارے کے مفاد کے بارے میں سوچا جاتا تھا، اس زمانے میں جو افراد انتظامیہ میں آتے تھے ، وہ اپنی سماجی اور اجتماعی خدمت کے بل بوتے پر آتے تھے،لیکن اب کلبوں سے وابستگی کی بنیاد پر ممبران چن کر آنے لگے ہیں، خدمت کے بجائے ٹورنامنٹوں میں شرکت اب  تعارف کا ذریعہ بن گئی ہے، جس کی وجہ سے اب انتظامیہ کا ماحول خراب سے خراب تر  ہوتا جارہا ہے، اور بحث ومباحثہ میں انجمن کا مفاد پیچھے ہٹتے چلا جارہا ہے، اس ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لئے فارغین انجمن کو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہئے۔

 جس نے نوے سال تک زمانے کے پیچ وخم دیکھیں ہو، اور عملی دنیا میں بھی اس نے گہرے نقوش چھوڑیں ہوں، ایسی شخصیات آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ بنا کرتی ہیں ،  مرحوم نے تعلیمی اور سماجی میدانوں میں  قوم کی جو انتھک خدمت کی ہے ، امید ہے کہ قیامت تک ان کے حق میں   دعا ء کے لئے ہاتھ اٹھتے رہیں گے،  ان کی خوش بختی کے لئے یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے اپنے پیچھے جو کام چھوڑے ہیں  اس کی روشنی سے آئندہ نسلیں منور ہوتی رہیں گیں۔ اور ان کے  لئے یہ الباقیات الصالحات بنا کریں گئی ، جو انہیں وہاں کام آئیں گی ، جہاں انسان کی اور کوئی چیز کام نہیں آتی۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ

2022-04-16