کرناٹک ہائی کورٹ نے اسکول اورکالج میں  حجاب پر پابندی کو رکھا برقرار۔ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گی طالبات

10:15AM Tue 15 Mar, 2022

بنگلورو: 15 مارچ،2022 (ذرائع) حجاب کے معاملے پر آج کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مسلم لڑکیوں کی طرف سے دائر کی گئی تمام عرضیوں کو خارج کردیا ہے۔ اس عرضی میں مسلم لڑکیوں نے اسکول اور کالج میں حجاب پہننے کی اجازت مانگی تھی اور پانچ فروری کے سرکاری حکم کو چیلنج دیا گیا تھا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کی تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے آٹھ منٹ میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یونیفارم کے سلسلے میں حکومت کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے مزید یہ بھی کہا کہ ڈریس پر جو پابندیاں نافذ کی گئی تھیں، وہ مناسب تھیں اور طلبا اس پر اعتراض نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے کرناٹک  کے اسکولوں اور کالج میں حجاپ پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے۔ واضح رہے کہ حجاب تنازعہ میں کئی دنوں کے احتجاج، مظاہروں، الزامات، جوابی الزامات اور بیک ٹو بیک سماعتوں کے بعد کرناٹک ہائی کورٹ نے آج منگل کے روز یعنی 15 مارچ 2022 کو حجاب کیس پر اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی کی بینچ نے کہا کہ حجاب مذہب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس لئے یہ عرضی منسوخ کردی جاتی ہے۔ حجاب آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ایک بنیادی حق محفوظ ہے کہ نہیں اس بات پر کرناٹک ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنا تھا۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے واضح حکم دیا کہ اسلام میں حجاب لازمی حصہ نہیں ہے، اس لئے اسکول میں اگر کوئی ڈریس کوڈ ہے تو بنیادی حق کا حوالہ دے کر کوئی اپنی مرضی کا ڈریس نہیں پہن سکتا۔ یہ ہیں ہائی کورٹ کے فیصلے کی بڑی باتیں عدالت نے کہا کہ ہم نے حجاب موضوع کو لے کر دونوں فریق کی باتیں سنیں۔ ایک فریق کا سوال تھا کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کا حق آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت محفوظ ہے۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ اسکول کا یونیفارم آئینی طور پر رکاوٹ نہیں پیدا کرتا ہے کیونکہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا، 5 فروری کو کرناٹک کے سرکاری حکم کو غلط قرار دینے کے لئے کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔ اس لئے اسکول میں ڈریس کوڈ نافذ کرنا آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ حجاب کی تاریخ ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی اور ثقافتی عقائد سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ خواتین معاشرے کے دباؤ میں برقع پہنتی ہیں جبکہ کچھ مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی مرضی سے کرتی ہیں۔ برقع حقیقت میں ایک سادہ سی چیز ہے۔ جو خواتین حجاب پہنتی ہیں یا نہیں پہنتی ہیں اور اس کے پیچھے موجود غلط فہمیاں یا اسے پہننے کی وجہ حجاب کو عقائد اور عمل کی ایک شکل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس لیے اس کی سادگی ایک دھوکہ ہے۔ برقع کے پیچھے اس کی پیچیدگیاں ہی چھپی ہوئی ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گی طالبات ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کیس کرنے والی لڑکیاں سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گی۔ وکیل انس تنویر نے ٹویٹ کر کے کہا ہے کہ اُڈپی کی طالبات اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گی۔ سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر نے کہا کہ حجاب کیس کے سلسلے میں اُڈپی میں میں نے اپنے موکل سے ملاقات کی۔ انشاء اللہ ہم اسے جلد سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ یہ لڑکیاں اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے حجاب کے اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ان لڑکیوں نے عدالت اور آئین سے امید نہیں چھوڑی ہے۔