سید عبد الرحمن  باطن۔۔۔بھٹکل میں تعلیم وتربیت کےمیدان میں  ایک سنہرے دور کا اختتام (02 )

02:31PM Sun 2 Jul, 2023

تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)

معاشی بدحالی کا زمانہ تھا، اساتذہ کی تنخواہیں خود ان کے گزراوقات کے لئے کافی نہیں ہوتی تھیں، لیکن یہ ایسے اساتذہ تھے، جو اپنے طلبہ کے گھر چولہا جلنے کی فکر میں رہتے تھے، یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک ایسی نسل تیار کی جن کے ہاتھوں قوم کے تعلیمی ادارے پروان چڑھے، تھے تو وہ اردو میڈیم کے اساتذہ لیکن ان کے شاگردان نے قوم کو پروفیشنل تعلیم کے ایسے ادارے دئے، جو قوم کے افراد کی خوشحال زندگی کا ایک بڑا ذریعہ بنے۔

سید عبد الرحمن باطن مرحوم نے سنہ ۱۹۶۴ء میں بی اے منگلور سے کیا تھا، آپ کی خواہش وکالت سیکھ کر یل یل بی کرنے کی تھی، لیکن اس وقت عثمان حسن جوباپو مرحوم جیسے قوم کے مخلص اور دردمند ہیڈ ماسٹر انجمن اسلامیہ اینگلو اردو اسکول کو میسر آچکے تھے، آپ کا حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت سےبیعت وارشاد کا تعلق تھا، اسی زمانے میں  انجمن اولڈ بوئز ایسوسی ایشن متحرک ہوئی، جس کے باطن صاحب بھی رکن رکین تھے، اور اس کے متحرک ذمہ داران میں  اس وقت کے نوجوان صلاح الدین کوبٹے، بدر الحسن معلم، عبد الرحمن جان محتشم ، عبد القادر باشا دامودی، جعفر دامودی، عبد الرشید دامدا ابو، اور جعفر گنگاولی ، خواجہ جوباپو صاحبان بھی شامل تھے،اس وقت ہیڈ ماسٹر صاحب نے انجمن سے تعلیم یافتہ قوم کے دردمند نوجوانوں کو انجمن میں تدریس سے وابستہ ہونے کی ایک تحریک اٹھائی تھی، جس کو اولڈ بوئز ایسوسی ایشن نے طاقت بخشی ، اس تحریک کے زیر اثر قوم کے کئی ایک نوجوان انجمن میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے،اس قافلے کے امیر سالار سید عبد الرحمن باطن تھے۔ اس کے بعد آپ نے تسلسل سے پندرہ سال تک انجمن میں تدریس کی خدمت انجام دی، یہ سال انجمن کے سنہرے سال میں شمار ہوتے ہیں،آپ نے سابق اساتذہ کی شاندار روایات کو باقی رکھا، خود کو صرف اسکول کی ٹیچری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ محلے کے سبھی بچوں کے سرپرست اور نگران بن گئے، شام کے بعد گھر سے نکلنے والے بچوں پر آپ کی نگاہ رہتی تھی، تھے تو دھان پان، لیکن جب گھر سے نکلتے تھے، تو چوک سے جامع مسجد تک بچوں میں ایک دھاک بیٹھ جاتی تھی،کبھی بچوں کے کپڑے سونگھ کر پتہ لگاتے  کہ کہیں اس نے بیڑی اور سگریٹ کو تو منہ نہیں لگایا، یا پھر رات کو سینیما گھر کا چکر تو نہیں لگا آیا، اس زمانے میں تربیتی نقطہ نگاہ سے اس نگرانی  کی کیا اہمیت تھی، اس کا آج  اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، کیونکہ اس زمانے میں والدین اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر سال دو سال کے لئے تلاش معاش میں  سرگرداں دور دور  دوسرے شہروں کو نکلتے تھے، ایمو، بوٹیم، زوم اور ٹیم کا زمانہ نہیں تھا، دبی سے تین منٹ کا ایک کال آج کے حساب سے آٹھ سو روپئے کا پڑتا تھا،جو عموما بیماری یا موت ہی کی خبر یں لاتا تھا، ممبئی ، کلکتہ اور چنئی میں کام کرنے والوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں تھا، اب تنہا سرپوش والدہ چلمن کی  آڑ سے کہاں تک اپنے نونہال کا خیال رکھ پاتیں، کب تک محلے والوں سے نونہال کی شکایتوں کو سہ پاتیں، اس زمانے میں باطن ماسٹر جیسے اساتذہ اسکول ٹیچر کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے والد  اور سرپرست کی ذمہ داریاں  بھی سنبھال رہے ہوتے تھے۔ لہذا محلے کے بچوں کے روابط بھی ان کے ساتھ ایسے ہی گہرے، محبت بھرے اور اٹوٹ ہوا کرتے تھے، حقیقت تو یہ ہے، باطن صاحب انجمن کے اساتذہ کی  اس نسل کی آخری کڑی تھے، آپ کے ساتھ وہ تسبیح ٹوٹ گئی، اور قوم کی بدنصیبی کے ان احسانات کو یاد کرنے والے بھی اب نہیں رہے۔

 کیونکہ اسی دوران عین جوانی میں عثمان حسن ہیڈ ماسٹر  مورخہ ۳۱/ اکتوبر ۱۹۷۷ء اچانک اپنی ڈیوٹی ادا کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے، پرانے مخلصین بھی تھوڑی مدت میں اللہ کو پیارے ہوگئے یا رٹائرڈ ہوگئے ، پھر انگلش میڈیم پرائیوٹ اسکولوں کا بول بالا  شروع ہوا، اور اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول پس پشت جانے لگا، اور  مقامی خوشحال خاندانوں کے بچوں، اور عصری علوم کے مقامی اساتذہ سے خالی ہوتا چلا گیا، اور انجمن اینگلو اردو اسکول میں جس  داخلے کو عزت اور فخر کی بات سمجھی جاتی تھی،اب وہ احساس ختم ہونے لگا۔ یہی صورت حال بقیہ سرکاری اردو اسکولوں کی بھی ہوئی، اور یہ اسکول یا تو بند ہوگئے، یا پھر غیر مستطیع اور محنت پیشہ  اور غیر مقامی افراد  کے نونہالوں کے لئے رہ گئے۔ جس کی وجہ سے بیٹر منٹ کمیٹیوں سے مقامی افراد بے دخل ہوتےگئے، اس کے منفی اثرات آج شدت سے محسوس ہورہے ہیں، کیونکہ گورنمنٹ اسکولوں کے اردو اساتذہ مردم شماری ، ووٹرلسٹ اور سرکاری پروگراموں کے موقعہ پر آکر مقامی باشندوں سے اردو میں تفصیلات لے کر ان کا درست اندراج کرتے تھے، لیکن اردو داں اسٹاف کی غیر موجودگی میں سرکاری دستاویزات میں ناموں اور تفصیلات کے اندراج میں جو فاش غلطیاں سرزد ہورہی ہیں، اور اس سے یہاں کے باشندوں کو  جوالجھنیں ، مشکلات اور  نقصانات پہنچ رہے ہیں، ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

باطن صاحب نے اس دوران  شولاپور یونیورسٹی سے یم اے  ( اردو) کیا، اور تین سال نیشنل اسکول مرڈیشور میں وہاں کے ذمہ اران کی خواہش پر ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، پھر د وسال اڈپی کالج میں گذارا، ہمیں اچھی طرح یا ہے جب آپ اڈپی میں تھے تو وہاں کے لوگوں کو بھٹکل سے مربوط کرنے کی کوشش  کرتے تھے  ، وہاں کی مسجد کے نظم وضبط سے بھی دلچسپی لیتے تھے، اور ہر ہفتہ نماز جمعہ کے بعد اردو بیان کے لئے بھٹکل سے کسی عالم دین کو دعوت دینے کا اہتمام کرتے تھے۔

۱۹۷۹ء میں آپ نے تلاش معاش کے لئے امارات کا رخ کیا،  بعد میں آپ کا احساس تھا کہ یہ ان کی بڑی غلطی تھے، سرکاری ملازم کی حیثیت سے اگر وہ رٹائرمنٹ لیتے تو نونہالان قوم  کی تربیت کے ساتھ ساتھ   پینشن بھی جاری رہ سکتی تھی، یہاں پہنچ کر پہلے آپ نے ابوظبی کی ایک کمپنی میں کام کیا ، پھر دبی آگئے، یہاں  خالی وقت میں  جناب عبد الباری محتشم اور جناب محمد ابراہیم قاضیا کے بچوں کو قرآن اور دینیات پڑھانا شروع کیا، یہی سلسلہ  یہاں پر جماعت کے مدرسے کی بنیاد بنا ، دو تین ماہ بعد صدیق محمد جعفری مرحوم نے شیخ عبد البدیع صقر رحمہۃ اللہ کے مدرسۃ الایمان راشدیہ میں شیخ مرحوم کے ساتھ مل کر انگریزی سیکشن شروع کیا، تو باطن صاحب اس سے وابستہ ہوئے، اور جماعت کے مدرسے کی ذمہ داری اس ناچیز کو سونپ دی، گزشتہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک اللہ کے فضل سے کسی نہ کسی طرح اس مدرسہ کی زیادہ تر ذمہ داریاں اس ناچیز سے وابستہ رہیں، اور الحمد للہ  یہاں سے تین نسلیں قرآن، دینیات اور اردو کی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر نکلیں، مدرسۃ الایمان چونکہ شہر سے دور راشدیہ میں تھا،  اور مدرسۃ الایمان کا انگریزی شعبہ کامیاب بھی نہ ہوسکا تو آپ نے ایک سال کے اندر ہی سعودیہ  کی رخ کیا، جہاں الخوبر کے ایک انگریزی اسکول میں سولہ ( ۱۶) سال تک بڑی تندہی سے محنت کی اور بڑی ناموری پائی ۔

آپ کی الخوبر موجود گی کے دوران جماعت کے عید ملن پروگراموں میں بہار آئی، اس میں پیش ہونے والے آپ کے کلام اور نظامت کی بازگشت دور دور تک سنائی دی، ایک زمانہ تھا دبی کے عید ملن  پروگراام بھی قومی ادب وثقافت کی عکاسی کرتے تھے، اور بھٹکل کے نامی گرامی شعرائ کرام  حاضر ہوکر انہیں یادگار بناتے تھے، ۱۹۹۰ء کے عید ملن  کی نظامت کے لئے آپ کو خصوصیت سے دعوت دی گئی تھی، جس میں بھٹکل کے استاد شعراء میں سے محمد حسین فطرت بھٹکلی، اور سید اسماعیل حسرت بھٹکلی کی شرکت نے اسے یادگار بنادیا تھا۔ باطن صاحب کا تعلق بھٹکل میں اردو شعرائ کی دوسری نسل سے تھا، یہ سبھی مولانا محمود خیال مرحوم کے شاگرد اور فیض یافتہ تھے۔ آپ سے پہلے کی نسل  کے شعراء میں جناب محمد بن عبد الرحمن کمتر شابندری، ابوبکر مصور کولا، محمد تقی مضطر کولا  مرحوم کا نام آتا ہے۔

مرحوم محمد مظفر کولا نے جب نونہال اسکول کے قیام کا ارادہ کیا تو اس کے انتظام و انصرام صدیق محمد جعفری کے ہاتھوں میں دیا، لیکن جب جعفری مرحوم دبی میں دوبارہ مشکلات میں پھنس گئے تو پھر آپ نے اس کی ذمہ داری باطن صاحب کو سونپی تھیں، اور اس دوران آپ نے اسے لائسنس دلانے میں اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا تھا، لیکن باطن صاحب بنیادی طور پر ایک معلم اور مربی تھے،  ان کے مزاج میں تعلیم وتربیت کا پہلو انتظام وانصرام پر حاوی تھا۔

گزشتہ بیس سال سے آپ بھٹکل میں رٹائر منت کی زندگی گذار رہے تھے، اس آخری دور میں آپ کو کئی ایک صدموں سے دوچار ہونا پڑا، آپ کا جوان بیٹا سید جاوید احمد اور آپ کے داماد عبد السلام جوکاکو اچانک حادثاتی طور پر اس دنیا سے داغ مفارقت دےگئے، یہ دونوں باصلاحیت اور قوم کی فکر رکھنے والے جوان تھے، آخری عمر میں آپ آنکھوں سے بھی معذور ہوگئے تھے، لیکن آپ نے ہر حال میں اپنی زندہ دلی کو نہیں چھوڑا، اس عرصہ میں مختلف میعادوں کے لئے انجمن حامی مسلمین بھٹکل اور جماعت المسلمین بھٹکل کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے،  نوائط محفل کی تاسیس میں بھی شامل رہے، اور محلے کی مسجد امام ابو حنیفہ ؒکے انتظام وانصرام سے بھی وابستہ رہے۔اس طرح آپ کی زندگی نونہالان قوم کی تعلیم وتربیت اور سماجی خدمات سے معمور رہی۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان خدمات کے صلے میں وہاں پر آپ کے درجات  بلند ہونگے، اور آپ کی لغزشوں کی تلافی ہوگی، اللھم اغفرلہ وراحمہ، واعفہ واعف عنہ۔

2023-07-01