توہین رسول کی مذموم اور ناپاک حرکت کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی: مولانا سجاد نعمانی

02:25PM Wed 15 Jun, 2022

لکھنئو: موجودہ عہد نفرتوں کاعہد ہے اس دور میں غیر سماجی اور شر پسند عناصر بلا کی شدت اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ حوصلہ ہار دیا جائے اور منفی طاقتوں کے سامنے سر نگوں ہوا جائے بلکہ ایسے ہی عہد میں مثبت اور تعمیری رجحانات و نظریات کی نمائندگی اور مظاہرے کے ضرورت ہے۔ یہ خیالات معروف عالم دین آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ دار رکن مولانا سجاد نعمانی سے منسوب ہیں۔ حال ہی میں اہانتِ رسول کے معاملے ہمارے ملک اور پوری دنیا میں جو فضا پروان چڑھی ہے۔ اس کو لے کر مولانا سجاد نعمانی نے کئی اہم سوالات اٹھائے ہیں ، بی جے پی اور آر ایس ایس کی مسلم مخالف پالیسیوں اور سازشوں کی مذمت کرتے ہوئے سجاد نعمانی کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہےکہ توہین رسول کی مذموم اور ناپاک حرکت کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی بہت سے نظیریں ہمارے سامنے ہیں ، بلا شبہ نپور شرما نے جو کچھ کہا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ آئین و قانون اور دستور کی بالادستی کے لئے ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے خود سزا دلوانے کا بند وبست کرے جس سے لوگ اشتعال انگیز ی پر آمادہ نہ ہوں ۔ مولانا سجاد نعمانی  Maulana Sajjad Nomani کہتے ہیں کہ یہ وقت محاسبے کا ہے غور و فکر اور سنجیدہ پیش رفت کرکے اپنے محور و مرکز کی طرف لوٹنے کا ہے کیا واقعی آج مسلمان سیرتِ رسول پر عمل کر رہے ہیں ؟ کیاواقعی ہماری بہو بیٹیاں اور خواتین ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کے مقدس و مبارک کرداروں میں اپنے آپ کو ڈھال رہی ہیں ۔ سجاد نعمانی واضح طور پر کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے اپنے آپ کو حقیقی اور عملی طور پر محمد سے وابستہ رکھا ہوتا تو کسی کی بھی ہمت نہ ہوتی کہ وہ خدا کے حبیب کی شان میں بد کلامی و گستاخی کرسکے ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ لوگ بیدار ہوں اور اس برگزیدہ شخصیت کی طرف لوٹیں جس کے صدقے میں یہ کائنات بنائی گئی جسے رحمت المسلمین نہیں بلکہ رحمت اللعالمین بناکر دنیا میں بھیجا گیا ۔
بی جے پی کی ترجمان کے مذموم بیانات کے بعد رونما ہونے والے واقعات و معاملات اور شدت و اشتعال کے پس منظر میں جو سازشیں سانس لے رہی ہیں انہیں سمجھنے اور انکا تدارک کرنے کی ضرورت ہے اگر وقت رہتے لوگ بیدار نہ ہوئے اور انہوں نے اپنے مذہبی ملی سماجی و سیاسی شعور کا مظاہرہ نہ کیا تو حالات مزید خراب ہوجائیں گے ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس پورے تناظر میں کچھ اہم مولویوں کی مصلحت آمیز خاموشی پر بھی سخت تنقیدیں ہوئی ہیں تنقید کی زد میں آنے والے علماء میں لکھنئو کے شیعہ اور سنی دونوں طبقوں کے وہ مولوی شامل ہیں جو صرف اور صرف ذاتی مفاد اور اپنی عزت و دولت کے تحفظ کے لئے حکومتوں کے درباروں میں حاضری لگاتے رہے ہیں، حکومت کے اشارے پر بولتے اور خاموش ہوتے رہے ہیں ۔ لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایسے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں پر بھروسہ نہ کریں جو ذاتی مفاد کے لیے پوری قوم و ملت کا سودا کرتے ہیں ۔ معروف دانشور اور سماجی کارکن مولانا یٰسین عثمانی کہتے ہیں کہ اگر مسلم قیادت نے اپنے فرائض دیانت داری و ایمانداری سے ادا کئے ہوتے تو یہ ذلت و خواری اقلیتی طبقے کا مقدر نہ ہوتی۔ طارق قمر