جولائی 30: کو استاد شاعر عزیز لکھنوی کی برسی ہے

03:19PM Sat 29 Jul, 2017

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ابوالحسن علی بھٹکلی عزیز لکھنوی مرزا محمد ہادی ۔ ولادت 14 مارچ 1882ء لکھنؤ ۔ تلمتذ ۔ صفی لکھنوی ۔ جلال لکھنوی کے بعد جن شعرا نے غزل کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی ۔ ان میں عزیز لکھنوی ایک امتیازی حیثیت کے مالک ہیں ۔ وفات 30 جولائی 1935ء لکھنؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عزیزؔ لکھنوی کا پورا نام محمد ہادی اور عزیزؔ تخلص ہے۔ ان کی ولادت  14 مارچ1882 میں لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے اجداد کا وطن شیراز (ایران) تھا۔ علم و فضل خاندان میں موروثی تھا۔ عزیزؔ کی عمر ابھی سات سال کی تھی کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لیکن فطری شوق نے علم حاصل کرنے سے منہ نہ موڑنے دیا اور مطالعہ کا شوق ہمیشہ قائم رہا۔ اساتذہ کے دواوین اور کتب سے ان میں شاعری کا ذوق پروان چڑھا۔ غالباً طالب علمی ہی کے زمانے میں شاعری کا ذوق پیدا ہوگیا تھا۔ شاعری کی ابتدا فارسی سے ہوئی مگر بہت جلد اردو میں شعر کہنے لگے اور اصلاح سخن کے لیے صفیؔ لکھنوی سے مشورہ کرتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں انہوں نے صفیؔ کے شاگردوں میں اپنی ایک خاص جگہ بنا لی۔ عزیزؔ لکھنوی کا شمار اردو کے ان چند شعرأ میں ہوتا ہے، جنہوں نے جدید دور میں غزل کی نوک پلک سنوارنے کی کوششیں کیں۔ ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’’گل کدہ‘‘ کے عنوان سے 1919 میں پہلی بار اور1931 میں تیسری بار شائع ہوا۔ 1919 کے بعد کی تخلیقات ان کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ ’’انجم کدہ‘‘ اور ’’قصائد عزیزؔ‘‘ ان کے دو مجموعے اور شائع ہوئے ہیں۔ عزیزؔ لکھنوی نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ قصیدہ گوئی میں بھی آپ کا پایہ کافی بلند ہے لیکن ان کی اصل قدر و منزلت غزلوں کی وجہ سے ہی ہے۔ محمد اقبالؔ ’’گل کدہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ میں آپ کے کلام کو ہمیشہ بہ نظر استفادہ دیکھتا ہوں۔ اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا سبحان اللہ یہ بات ہر کسی کو نصیب نہیں! موجودہ ادبیات ارد و کی نظر حقائق پر ہے اور یہ مجموعۂ غزلیات اس نئی تحریک کا بہترین ثبوت ہے۔‘‘  (گل کدہ ، ص: 12 ، 1931 ( عزیز لکھنوی کے مراسم مرزا محمد عباس علی خاں جگر سے بڑے خاص تھے۔ یہ ڈپٹی کمشنر اور رئیس اعظم لکھنؤ تھے۔ سات آٹھ سال تک ان کے خاص معتمد رہے اور جگر کو اصلاح سخن دیتے رہے۔ اس کے بعد امین آباد ہائی اسکول میں فارسی مدرس کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے۔ 1928 میں راجہ صاحب محمود آباد نے طلب کر لیا اور ولی عہد کا استاد مقرر کر دیا۔ اس طرح زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اردو ادب کا یہ ستارہ 1935 میں غروب ہوگیا۔ ویسے تو ان کے شاگردوں کی تعداد کافی ہے مگر ان کے مخصوص شاگردوں میں مرزا جعفر علی خاں اثر، شبیر حسن خاں جوش، جگت موہن لال رواں اور حکیم سید علی آشفتہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جس طرح ہر شخص کا ایک فطری میلان ہوتا ہے، اسی طرح شاعر کا بھی ہوتا ہے۔ کسی کو تخیل آفرینی سے لگاؤ ہوتا ہے تو کسی کو معنی آفرینی سے۔ اسی طرح کسی کو فلسفے سے شغف ہے تو کسی کو سادگی و پرکاری یا استفہام سے لیکن یہ کبھی ضروری نہیں ہے کہ شاعر اپنے آپ کو کسی ایک دائرے تک محدود رکھے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ طبیعت کا جھکاؤ جس طرف ہوتا ہے، رفتہ رفتہ وہ رنگ غالب ہونے لگتا ہے۔ یہی خاص رنگ آگے چل کر شاعر کی انفرادیت قائم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ عزیز نے غزل، مرثیہ، قصیدہ، رباعی اور نظم میں اپنی شاعری کے جوہر دکھلائے ہیں۔ ان کے قصائد کا مجموعہ ’’صحیفۂ ولا‘‘ اور ادبی، اصلاحی، قومی، مذہبی نظموں کا مجموعہ ’’نالۂ جرس‘‘ کے نام سے شائع ہواہے۔ اس سے ان کی جولانی طبیعت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’گل کدہ‘‘ اور ’’انجم کدہ‘‘ کے مطالعے سے پہلی نظر میں جو بات ذہن میں آتی ہے، وہ ہے غالب کا اثر۔ اس لیے سب سے پہلے اسی رنگ کی بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عزیزؔ لکھنوی نے کلامِ غالبؔ کا مطالعہ خاص طور سے کیا تھا اور اسی رنگ کو اپنے لیے اختیار کیا۔ غالبؔ کی پیروی میں نہ صرف نئے مضامین، خیالات اور اسلوب بیان اختیار کیا بلکہ ان کی زمینوں میں کثرت سے غزلیں کہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ عزیزؔ کو بھی استفہام سے کافی دلچسپی تھی جو کہ غالبؔ کا ایک خاص رنگ ہے۔ مثلاً : شرح جانکاہی عشق ایک غیر ممکن بات ہے کاٹ کر لانا بہت آساں تھا جوئے شیر کا بعد میرے میرا ساماں سب تبرک ہوگیا حلقہ حلقہ بٹ رہا ہے اب مری زنجیر کا وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہوگئیں دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں اگر کچھ ہم کو امید اثر ہوتی تو کیا ہوتا؟ ہماری آہ کوئی کارگر ہوتی تو کیا ہوتا ؟ کیے ہیں ملکے حسن و عشق میں برپا یہ ہنگام خدائی تیرے قبضے میں اگر ہوتی توکیا ہوتا ؟ حسن بے پردہ ہے یا رب کیا ہی غیرت آفریں پانی پانی ہوگیا ہے آئینہ تصویر کا کسی کے وعدے پر اتنا جو انتظار کیا ارے یہ کون سا دل تھا کہ اعتبار کیا اوپر درج کیے گئے اشعار سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ عزیز پر غالب کا اثر بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف غالب کا رنگ اپنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی زمینوں میں غزلیں بھی کہی ہیں۔ دیوان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض غزلیں غالب کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہیں۔ عزیز کایہ خاص رنگ ہے جو ان کی شاعری پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ مرزا جعفر حسین عزیز کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ : ’’عزیزؔ مرحوم تمام شعرائے سابقین میں سب سے زیادہ مرزا غالبؔ سے متاثر تھے اور دلی کے رنگ سخن کو قبول کرنے کی انہوں نے کامیاب کوشش کی تھی۔ ‘‘ تخیل آفرینی: عزیزؔ کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں معنی آفرینی، تخیل آفرینی کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ شاعری میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ شاعر کوئی نیا مضمون، نیا خیال لے آئے۔ تخلیق کار انہیں خیالات کو جو نظم کیے جا چکے ہیں، ایک نئے طرز سے نظم کر کے اپنی تخیل آفرینی، فکر کی بلندی کی داد چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ کبھی دو مماثل چیزوں میں فرق تو کبھی دو متفرق چیزوں میں مماثلت دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طورپر عزیزؔ کے اشعار درج ہیں : سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا الحذر اب دور مجھ سے بیٹھتا ہے چارہ گر زخم پر رکھنے نہ پایا تھا کہ پھاہا جل گیا کسی نے نزع کی اس طرح گتھیاں سلجھائیں سرہانے بیٹھ کے ہر سانس کا شمار کیا آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا ؟ بس ان کے رخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا اڑے وہ طور کے پرزے گرے وہ حضرت موسیٰ اثر تم نے بھی دیکھا کچھ تبسم ہائے پنہاں کا ہر گل میں تو ہے تجھ میں ہزاروں تجلیاں دیوانہ کردیا مجھے فصل بہار نے جو یہاں محو ماسوا نہ ہوا                      دور اس سے کبھی خدا نہ ہوا اک نگہ نے تیری طئے کی صورتِ امید و بیم سارا جھگڑا مٹ گیا تدبیر اور تقدیر کا وہی ہمارے لیے پھول ہیں تر و تازہ قفس میں خون کے آنسو اگر رلائے بہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سہل ممتنع: اس کے علاوہ ان کے کلام کی ایک اور خصوصیت ہے اور وہ ہے سہل ممتنع۔ شعر میں سہل ممتنع اس وقت قائم ہوتی ہے، جب شعر میں کوئی مشکل لفظ نہ آئے اور شعر کی نثر بنانا مشکل ہو جائے یعنی شعر کی عبارت نہایت آسان ہو۔ مثلاً دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ؟ آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟ مرزا غالبؔ عزیزؔ کی شاعری میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ اتنی سیدھی سادی، عام فہم زبان میں ایسی مضمون آفرینی کم شعرأ کے یہاں دیکھنے میں آتی ہیں، جیسا کہ عزیزؔ لکھنوی کے کلام میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ملاحظہ ہو : تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی ہاۓ کیا چیز ہے جوانی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عزیزؔ اس قدر ہم نے سجدے کیے خدا ان کوآخر  بنا ہی دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبق آکے گورِ غریباں سے لے لو خموشی مدرس ہے اس انجمن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے مرنے کی ہو خوشی تم کو ایسی میت پہ کون روتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سانس بیمار کی اکھڑتی ہے آج قصہ تمام ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل نے اک بات نہ مانی میری مٹ گئی ہائے جوانی میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئے مرا حال پوچھنے والے تجھ کو اب تک مری خبر نہ ہوئی ہم اسی زندگی پہ مرتے ہیں جو یہاں چین سے بسر نہ ہوئی ہجر کی رات کاٹنے والے کیا کرے گا کیا اگر سحر نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سہل ممتنع کے تعلق سے اب تک جتنے اشعارنقل کیے گئے، ان سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس قدر عام فہم زبان میں ایسے مضمون نظم کرنا آسان نہیں لیکن عزیز اس طرح کے مضامین یوں باندھتے چلے جاتے ہیں کہ احساس نہیں ہوتا کہ اس قدر سہل زبان میں اتنے بلند مضامین کیوں کر نظم ہوسکتے ہیں۔ یہی عزیز کی سب سے بڑی شاعرانہ خصوصیت ہے۔ معنی آفرینی: شاعری کی خصوصیات کے سلسلے میں اب تک ہم نے تین خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور آخر میں اب معنی آفرینی پر گفتگو کر کے یہ سلسلہ ختم کیا جائے گا۔ معنی آفرینی کی مثالیں جو ایک نظر میں سامنے آئیں وہ درج کی جاتی ہیں: جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا نور جل جائے ابھی چشمِ تماشائی کا اف ترے حسن جہاں سوز کی پر زور کشش نور سب کھینچ لیا چشمِ تماشائی کا زمانے کے حوادث خود مری فطرت میں داخل ہیں مصیبت دل کی کیا کم ہے بلائے آسماں کیو ں ہو؟ سوزِ غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا! اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کر دیا دل نے زندۂ جاوید قیدِ ہستی سے میں رہا نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقدر جوشِ جوانی بڑھا غرور ان کا کہ مے نے نشہ باندازۂ خمار کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ہوا کہ جلد یہ برباد ہوگیا اتنے سے دل میں ساری خدائی کا درد تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درج بالا اشعارسے خود ہی معنی آفرینی کی تعریف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جب شاعر لفظوں کو ایک نئے معنی دیتا ہے یا معمولی لفظوں سے غیر معمولی کام لیتا ہے اور قاری اس کے فن کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا تو اسے معنی آفرینی کہتے ہیں۔ ادب زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ چوں کہ ادیب یا شاعر کسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے، لہٰذا اس معاشرے کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کی عکاسی اس کے فن پارے میں ہونا لازمی ہے۔ ادب و شعر کا مطالعہ قاری میں تہذیب و زبان سے لگاؤ پیدا کرتا ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ زبان کی باریکیوں سے بھی واقفیت پیدا ہوتی ہے۔ عزیز لکھنوی کا کلام بھی انہیں شعری خصوصیات کا آئینہ ہے، جو دبستان لکھنؤ کے حوالے سے ہمارے شعری سرمائے کا حصہ رہی ہیں۔