سال 2019 میں مودی کا "وجے رتھ "روکنے کیلئے اپوزیشن پارٹیوں نے بنائی یہ نئی حکمت عملی
01:59PM Mon 26 Mar, 2018
اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا "وجے رتھ "روکنے کی کوششوں میں مصروف اپوزیشن پارٹیوں کو اترپردیش کے ضمنی انتخابات سے ممکنہ طور پر بڑا سبق ملا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن پارٹیاں اب قومی سطح پر مہا گٹھ بندھن کی بجائے ریاستوں کے حساب سے اپنی انتخابی حکمت عملی اور اسی اعتبار سے اتحاد کی کوششیں کریں گی ۔
اترپردیش میں ایس پی اور بی ایس پی اتحاد آنے والے دنوں میں بی جے پی مخالف مہم کیلئے ایک مثال بن سکتا ہے ، جہاں اپوزیشن پارٹیاں اگلے لوک سبھا انتخابات میں "مودی بنام سب "کے مقابلہ میں پڑنے کی بجائے اسے علاقائی معاملات پر لڑنے کی حکمت عملی بناتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کے موقف میں تبدیلی کی شروعات گزشتہ ایک مہینے کے دوران اترپردیش میں دیکھنے کو ملی ، جہاں سماجوادی پارٹی ، بی ایس پی اور کانگریس کے درمیان انتخابی سمجھوتہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ گورکھپور اور پھولپور لوک سبھا سیٹ پر ضمنی الیکشن میں جہاں بی جے پی کے خلاف لڑائی کیلئے ایس پی اور بی ایس پی نے ہاتھ ملایا تو وہیں کانگریس نے دونوں سیٹوں پر ایسے امیدوار کھڑے کئے جنہوں نے شہری اور اعلی ذاتوں میں بھگوا پارٹی کے ووٹوں میں سیندھ لگائی ۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی رہی کہ یوپی ضمنی الیکشن میں ایس پی اور بی ایس پی سے الگ رہنے والی کانگریس تقریبا ایک ہفتہ کے بعد ہی راجیہ سبھا الیکشن میں بی ایس پی کی حمایت کرتی ہوئی نظر آئی۔
در اصل اعلی ذاتوں میں اب بھی کانگریس حامیوں کی اچھی تعداد ہے اور اس سے پہلے کے الیکشن میں ایسا نظر آیا ہے کہ کانگریس نے جن سیٹوں پر امیدوار نہیں اتارے ، وہاں اس کے یہ ووٹر پوری طرح بی جے پی کی طرف چلے گئے ۔ اس کی مثال تری پورہ الیکشن میں بھی نظر آئی ، جہاں کانگریس اگر مضبوطی سے اپنے امیدوار میدان میں اتارتی تو بی جے پی کو اس طرح فائدہ نہیں ہوتا۔
اپوزیشن کی حکمت عملی میں یہ تبدیلی سیاسی زمین کی نئی جانچ پڑتال کے بعد نظر آرہی ہے۔ وزیر اعظم مودی کی ملک بھر میں ووٹروں میں ایک اچھی خاصی اپیل نظر آتی ہے اور 2014 کی طرح اگر 2019 کے عام انتخابات میں بھی "مودی بنام سب "کی مہم چلائی گئی تو وہ بی جے پی کیلئے ہی فائدے مند ثابت ہوسکتی ہے ۔
عام انتخابات میں "مودی بنام سب "کی لڑائی ہونے سے بی جے پی کو ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ وہ ان ریاستوں میں حکومت مخالف لہر سے آسانی سے بچ سکتی ہے، جہاں کئی سالوں سے اس کی حکومت ہے ۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس براہ راست لڑائی میں الیکشن میں پولرائزیشن کا بھی پورا امکان پیدا ہوجائے گا جس کا فائدہ براہ راست طور پر بی جے پی کو مل سکتا ہے۔
ادھر بی جے پی بھی اس کے خلاف قومی سطح پر تیسرا مورچہ بنانے کی علاقائی پارٹیوں کی کوششوں سے زیادہ فکر مند نہیں نظر آرہی ہے ۔ یہاں غور کرنے والی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مہینے کے آغاز میں یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی کی ڈنر پارٹی سے ٹی آر ایس ، ٹی ڈی پی اور بیجو جنتادل ندارد رہی ۔ حالانکہ یہ ایسی علاقائی پارٹیاں ہیں ، جن کی اپنی ریاستوں میں بی جے پی کے ساتھ کوئی براہ راست لڑائی نہیں ہے۔
جنوبی اور مشرقی ہندوستان میں اچھی گرفت رکھنے والی کانگریس کی سیاسی جڑیں اب وہاں بھی سکڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ ایسے میں کانگریس کی کوشش ان ریاستوں میں سماجی حساب کتاب بٹھانے کیلئے ان علاقائی پارٹیوں کے ساتھ نئے اتحاد بنانے کی ہے ، جہاں وہ اپنے دم پر بی جے پی کو ٹکر نہیں دے سکتی ۔
یہاں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی اس بات پر منحصر ہوگی کہ کانگریس اس کے ساتھ براہ راست مقابلہ میں کتنی سیٹیں اس سے چھیننے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ کانگریس کی رائے یہ ہے کہ بی جے پی کے خلاف قومی سطح پر ایک بڑا مورچہ کی بجائے اگر چھوٹے چھوٹے محاذ پر اس کا مقابلہ کیا جائے تو مودی کے پاس ووٹروں کو لبھانے کی گنجائش کم ہی بچے گی۔
سمت پانڈے