حیاتی اختلاف تحفظ قانون 2002کی جانکاری بے حد ضروری ۔ڈاکٹڑ سبھاش
12:47PM Sun 25 Jan, 2015
بھٹکلیس نیوز/20جنوری ،15
کاروار(نامہ نگار) حیاتی اختلاف کے تحفظ کے لئے 2002میں قانون بنایا گیا اور اس کو 2004میں قانونی درجہ دیا گیا ،حیاتی اختلافات کے تحفظ کیلئے اس قانون کی سمجھ بے حد ضروری ہے ، ان خیالات کا اظہار کرناٹک حیاتی اختلاف بورڈ کے رکن ڈاکٹر ایم ڈی سبھاش چندر نے کیا ، موصوف یہاں ڈسٹرکٹ سائنس سینٹر کاروار میں منعقدہ پریس کانفرس میں اخباری نائندوں سے مخاطب تھے ،ڈاکٹر سبھاش چندرن نے کہا کہ اس قانون کی سمجھ پیدا کرنے کے لئے جنوری کی 27/اور 28تاریخ کو سرسی کے سامراٹ ہوٹل میں ایک دو روزہ کارگاہ کا انعقاد کیا گیا ہے ، انہوں نے کہا کہ بہت سی مضر بیماریوں کی دوا مغربی گھاٹ میں ملنے والی جری بوٹیوں سے تیار کی جاتی ہے مگر یہ تمام دوائیں چوری سے تیار کی جاتی ہیں ، لہذا ان جڑی بوٹیوں کی حفاظت کے لئے 21/جنوری 2014کو قومی حیاتی اختلاف اتھارٹی نے حصول اور نفع کی تقسیم کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ،اس نوٹیفیکیشن کے تحت کسی بھی حیاتی اختلاف کے استعمال کے لئے قانونی اجازت کی ضرورت ہے اور اس سے ہونے والے فائدے کو مقامی لوگوں سے باٹ لینا ضروری ہے ، انہوں نے کہا کہ اس مجوزہ کار گاہ کے ذریعہ قدرتی تحفظ میں شہریوں کے حقوق کی پہچان کرائی جائیں گی ، انہوں نے کہا کہ ہندوستان دنیا کے 12حیاتی اختلاف رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے ،لہذا ہمیں حیاتی اختلاف کا تحفظ کرنا چاہیئے ،حیاتی اختلاف میں ملنے والی کئی اشیاء بین الاقوامی سطح پر مشہور برانڈ والی چیز یں بن گئی ہیں ، قومی حیاتی اختلاف کی کو ئی پینٹنٹ بنانا چاہتا ہے تو اسے اس کے لئے اجازت لینی پڑتی ہے اور جو لوگ قانون شکنی کرنا چاہتے ہیں انہیں دس ہزار روپئے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے ،انہوں نے بتا یا کہ حیاتی اختلاف کی چیزوں کا استعمال کیا جائے تو اسکی قیمت خرید کاایک سے تین فیصد اسکو اگانے والا کو دیا جانا چاہیئے اور اس دوا کو تیار کرنے والے کو 3تا پانچ فیصد دیا جانا چاہیئے ،اس سے حیاتی اختلاف حفاظت کرنے والوں کی حیاتی امداد ہو گی ،حیاتی اختلاف سے تیار شدہ اشیاء کی فروخت میں ہونے والے نفع کا0.1فیصد 0.2فیصد رقم کو دیہات کی ترقی کے لئے استعمال کیا جانا چاہیئے ،اخباری کانفرنس میں ڈاکٹڑ سبھاش چندرن کے ساتھ کاروار سائنس سنٹڑ کے سکریٹری ڈاکٹر وی این نائک موجود تھے ۔
ع۔ح۔خ