اگست 20:-: معروف شاعر سعید احمد اختر کی برسی ہے

10:15AM Sun 20 Aug, 2017

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳ مارچ ۱۹۳۳ء کو عید کے دن پشین میں پیدا ہونے والے سعید احمد اختر کا نام بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا کہ سعید مبارک کو کہتے ہیں اور اختر پشتو میں عید کو ۔ ان کے والد محکمہ تعلیم میں ملازم تھے اور بنیادی طور پر تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کُلاچی سے تھا۔ سعید صاحب کے والد اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے اور علامہ اقبال سے نہ صرف عقیدت رکھتے تھے بلکہ ان کے خطبات سننے بھی جایا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی رحلت کی خبر پڑھ کرسعید صاحب کے والد غم سے غش کھا کر گرپڑے تھے اورپھر جنازے میں شرکت کے لیے کُلاچی سے سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے ۔ والد کے حوالے سے پس منظر بتانے کا مقصد یہ حقیقت واضح کرنا تھاکہ سعید صاحب کو شعر و علم سے محبت در حقیقت ورثے میں ملی تھی ۔ عِلم سے محبت وہ پہلا سبق تھا جو سعیدصاحب کو ان کے والد نے سکھایااور پھر سعید صاحب کی ساری زندگی اسی درس سے عبارت رہی ۔سعید صاحب ابھی کم سِن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ اس زمانے تک کُلاچی میں بجلی بھی نہیں تھی اور سعید صاحب کو گھر سے کئی میل دُور شہر جانے والی سڑک پر لگے ایک کھمبے کی بتی کے نیچے جا جا کر پڑھنا پڑا تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور انتہائی مشکل حالات کے باوجود تعلیم جاری رکھی اورپھر اُردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ انگریزی ادب کے پروفیسر کے طور پر پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ ۱۹۶۸ء میں سی ایس ایس کرنے کے بعد مغربی پاکستان سِول سروس میں آئے اور صوبہ سرحد( اب خیبر پختونخواہ) کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور مختلف ڈویژنز میں ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں بحیثیت ایڈیشنل کمشنر افغان مہاجرین خیبر پختونخواہ پری میچور ریٹائرمنٹ لے کر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش اختیار کی۔ملازمت کے دوران اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی شاعری کے مجموعے وقفے وقفے سے شائع ہوتے رہے۔ عید کے دن پیدا ہونے والے سعید احمد اختر گزشتہ سا ل عید ہی کے دن طویل علالت کے باعث کومہ میں چلے گئے اور کچھ روز بعدیعنی ۲۰ اگست ۲۰۱۳ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال کر گئے اور وہیں مدفون ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کاہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی ہر صبح سُلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا اپنا تو نہیں تھا میں کبھی، اورغموں نے مارا مجھے ایسا رہا تیرا نہ خدا کا پھیلے ہوئے ہر سمت جہاںحرص و ہوس ہوں پھولے گا پھلے گا وہاں کیا پیڑ وفا کا ہاتھوں کی لکیریںتجھے کیا سمت دکھائیں سُن وقت کی آواز کو ، رُخ دیکھ ہوا کا لُقمان و مسیحا نے بھی کوشش تو بہت کی ہوتا ہے اثر اس پہ دعا کا نہ دوا کا اس بار جو نغمہ تِری یادوںسے اُٹھا ہے مشکل ہے کہ پابند ہو الفاظ و صدا کا اتنی تِرے انصاف کی دیکھی ہیں مثالیں لگتا ہی نہیں مُلک ترا مُلک خدا کا سمجھا تھا وہ اندر کہیں پیوست ہے مُجھ میں دیکھا تو مِرے ہاتھ میں آنچل تھا صبا کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حادثہ بھی تو کچھ کم نہ تھا صبا کے لیے گلوں نے کس لیے بوسے قبا کے لیے وہاں زمین پر ان کا قدم نہیں پڑتا یہاں ترستے ہیں ہم نقش پا کے لیے تم اپنی زلف بکھیرو کہ آسماں کو بھی بہانہ چاہیۓ محشر کے التوا کے لیے یہ کس نے پیار کی شمعوں کو بددعا دی ہے اجاڑ راہوں میں جلتی رہیں سدا کے لیے ابھی تو آگ سے صحرا پڑے ہیں رستے میں یہ ٹھنڈکیں ہیں فسانے کی ابتدا کے لیے سلگ رہا ہے چمن میں بہار کا موسم کسی حسین کو آواز دو خدا کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بُت کیا ہیں ، بشر کیا ہے؟ یہ سب سلسلہ کیا ہے پھر میں ہوں مرا دل ہےمِری غارِ حرا ہے جو آنکھوں کے آگے ہے یقیں ہے کہ گماں ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے خلا ہے کہ خدا ہے تارے مری قسمت ہیں کہ جلتے ہوئے پتھر دنیا مری جنت ہے کہ شیطاں کی سزا ہے دل دشمنِ جاں ہے تو خِرد قاتلِ ایماں یہ کیسی بلاؤں کو مجھے سونپ دیا ہے سُنتے رہیں آرام سے ہر جُھوٹ تو خوش ہیں اور ٹوک دیں بُھولے سے تو کہتے ہیں بُرا ہے شیطان بھی رہتا ہے مِرے دل میں خدا بھی اب آپ کہیں دل کی صدا کس کی صدا ہے اختر نہ کرو اُن سے گِلہ جَور و جفا کا اپنی بھی خدا جانے ہوس ہے کہ وفا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں وہ بھی باقی نہیں رہی اس دور کے انسانوں میں وقت کا سیل بہا لے گیا سب کچھ ورنہ پیار کے ڈھیر لگے تھے مرے گلدانوں میں شاخ سے کٹنے کا غم ان کو بہت تھا لیکن پھول مجبور تھے ہنستے رہے گل دونوں میں ان کی پہچان کی قیمت تو ادا کرنی تھی جانتا ہے کوئی اپنوں میں نہ بیگانوں میں سر ہی ہم پھوڑنے جائیں تو کہاں جائیں گے کھوکھلے کانچ کے بت ہیں ترے بت خانوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔