سچی باتیں (۲۵؍دسمبر ۱۹۳۱ء۔۔۔ دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب حریق۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

07:14AM Sun 14 May, 2023

 وِمِنَ الناس مَن یُجادِل فِی اللہ بِغَیر علمٍ وَلَا ہُدًی ولا کتَاب منیر ثانی عِطْفِہ لیُضلً عن سبیل اللہ، لہ‘ فی الدنیا خزیٌ ونذیقہ یوم القیامۃ عذاب الحریق۔  (حج رکوع ۱)

انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اللہ کے باب میں، تکبُّر کے ساتھ جھگڑتے رہتے ہیں، درآنحالیکہ نہ علم رکھتے ہیں، نہ ہدایت، اور نہ روشنی دینے والی کتاب، تاکہ اورں کو بھی (اپنی طرح) حق سے بے راہ کردیں۔ ایسے شخصوں کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے، اور قیامت کے دن بھی اُسے جلتی ہوئی آگ کا مزا چکھائیں گے۔

اہلِ تفسیر ، شانِ نزول میں لکھتے ہیں، کہ باہر سے کچھ اشخاص مدینہ آکر مسلمان ہوتے، کلمۂ اسلام پڑھتے، اپنے مُسلِم ہونے کا اعلان کرتے، اُس کے بعد اپنے وطن جاکر اگرآل واولاد میں برکت وفراغت دیکھتے، تو کہتے، یہ بہت اچھا دین ہے، اور اگر اس کے برعکس صورت پیش آتی، تو کہتے، کہ بہت بُراددین ہے۔ ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ یہ تو سُنی ہوئی روایت ہوئی اب آپ کا اپنا مشاہدہ کیاہے؟ ٹھیک وہی ذہنیت ، جو ساڑھے تیرہ سو برس قبل تھی، آج بھی کارفرماہے۔ آج بھی حق تعالیٰ جل شانہ‘ کی ذات وصفات سے متعلق بے تکلف طرح طرح کی خیال آرائیاں اور مضمون آفرینیاں ہورہی ہیں، ہر طرح کی بحث ومجادلہ کا بازار گرم ہے۔ مَن یُجادل فی اللہ۔ اور یہ سب محض اپنی اٹکل ہے، نہ کہ علم حقیقی کے مطابق، یا شریعت کی روشنی میں، یا وحیِ الٰہی کے ماتحت، بغیر علم ولا ہدی ولا کتب منیر۔ محض نخوت، خودبینی اور ڈھٹائی کی بناپر، ثانیِ عِطْفِہ ، جس کا نتیجہ تمام تر یہی، کہ خلقت گمراہ ہو، لوگ بے راہ ہوتے چلے جائیں، لیکن ان کی تجارت کسی طرح چمکتی رہے، لیضلً عن سبیل اللہ۔

آج یہ صورت حال کہاں نہیں؟ یہ منظر کس کی نظروں سے مخفی ہے؟ مدعیانہ وگستاخانہ ، جو کچھ جی میں آتاہے، بے دھڑک مذہب سے متعلق زبان وزبان قلم پر لایاجارہاہے۔ جب نفع مسلمان رہنے میں نظرآتاہے، تو جھٹ پٹ اپنے اسلام کا بھی اعلان کردیاجاتاہے، اور جب گرم بازاری ملحد بننے میں نظرآتی ہے، تو علانیہ یہ کہا جانے لگتاہے، کہ ’’مجھے اپنی ذات سے نفرت ہونے لگتی ہے کہ میں بجائے مسلمان ہونے کے محض انسان کیوں نہ پیداہوا‘‘! مسلمان کا دل یہ دردناک مناظر دیکھ کر مایوسی سے بیٹھنے لگتاہے، کہ صدائے تسکین اُس کے کانوں میں آتی ہے، کہ ایسوں کو آخرت میں تو کیا، دنیا میں بھی مستقل فلاح نصیب نہیں ہوسکتی، نافہموں کی واہ واہ اور چند روزہ جاہ وشہرت انھیں دھوکے میں نہ ڈالے، دنیا میں بھی اُنھیں ذلت وناکامی، محرومی ورسوائی، سے دوچارہوناہے، اور آخرت میں عذاب حریق ہے۔ جس سے آج انکار واستہزاء ہورہاہے۔ لہ‘ فی الدنیا خزیٌ ونذیقہ یوم القیامۃ عذاب الحریق۔

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )