میری علمی اور مطالعتی زندگی ۔ قسط 09۔۔۔۔۔ تحریر : مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ
03:00AM Sat 24 Jun, 2017
Share:
میرے معلم و مربی میرے برادر معظم ڈاکٹر سید عبدالعلی مرحوم، جن کی اصابت رائے، خداداد سلامتِ فکر، استقامت اور گہرا علم زندگی کی ہر منزل اور ہر موڑ پر میرا دستگیر رہا، برابر حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات اور حضرت شاہ ولی اللہ کی ’’ازالۃ الخفاء‘‘ کے مطالعہ کی تاکید فرماتے رہے، لیکن نوعمری کی سطحیت کم سنی کی عجلت کی وجہ سے کبھی دو چار صفحے سے زیادہ نپ پڑھ سکا۔ دفتر اول کا پہلا مکتوب جو حضرت نے اپنے مرشد خواجہ باقی باللہ کو لکھا ہے اور جس میں اپنے بہت سے واردات اور راہ سلوک کے تجربات لکھے ہیں، ہمیشہ ہمت شکن ثابت ہوا، اور جس طرح بدشوق بچے ہمیشہ قرآن کی تلاوت میں پہلا پارہ پڑھ کر چھوڑ دیا کرتے ہیں، میں بھی اس مکتوب کے چند صفحات پڑھ کر کتاب ہاتھ سے رکھ دیا تھا، لیکن ایک بار اس کا عزم کرلیا کہ ’’مکتوبات‘‘ کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کروں گا، چاہے بڑا حصہ سمجھ میں نہ آئے، چنانچہ اس کے چاروں [کذا، تینوں] دفتر پڑھے، لفظ بہ لفظ، دل لگا کر اور لطف لے لے کر پڑھے۔ بے استعدادی، قوتِ مطالعہ کی کمی اور علوم عقلیہ و آلیہ کی بے بضاعتی قدم قدم پر عناں گیر رہی، لیکن ایک عامی کے حصہ میں جو کچھ آیا، اس پر اللہ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ
آنچہ ساقی ماریخت عین الطاف است
ایک عرصہ کے بعد حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے مکتوبات کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہوئی، حضرت مجدد اور حضرت مخدوم بہاری کے مکتوبات کے مطالعہ سے علم کا ایک نیا عالم آنکھوں کے سامنے آگیا، وحی و نبوت کی قطعیت، مقامِ نبوت و منصب رسالت کی بلندی و برتری اور خصائصِ نبوت و انبیاء اور نبوت و ولایت کے لوازم و مابہ الامتیاز چیزوں کے متعلق جو نکتے اور حقائق لکھے ہیں ان پر دقت فکر کے لحاظ سے یونان و عجم کا پورا فلسفہ سو ہار قربان، اور وجد آفرینی اور کیف آوری کے لحاظ سے شعراء کے دواوین اور ادب کی بیاضیں ہزار بار نثار۔ مکتوبات مجددی کے تذکرہ کے آخر میں سنت و بدعت کے بارے میں جو مجددانہ کلمات و تحقیقات قلم سے نکلی ہیں، ان سے بڑا شرح صدر اور یقین کا اضافہ ہوا، نیز دور اکبری وجہانگیری میں دین کی نصرت و حمایت کے سلسلہ کے مکتوبات نے دینی حمیت وغیرت کو بیدار کیا، اور افسردہ قلب وجسم میں دین کی حرارت پیدا کی، انسانی تصانیف اور تحریروں میں جن زمانہ گزرچکا ہے، کم چیزوں میں ایسی زندگی اور قلب کی حرارت دیکھی جتنی ان دونوں حضرات کے مکتوبات میں پائی جن پر صدیاں گزر چکیں، مگر وہی زندگی اور تاثیر موجود ہے جو عموماً لکھنے کے وقت ہوتی ہے۔
میرے محترم دوست اور دینی کاموں میں رفیق کار مولانا محمد منظور صاحب نعمانی نے ’’الفرقان‘‘ کا شاہ ولی اللہ نمبر نکالنے کا ارادہ کیا تو اس بے بضاعت سے بھی فرمائش کی کہ اس میں حصہ لے۔ میں نے ’’شاہ ولی اللہ بحیثیت مصنف‘‘ کا عنوان اپنے لیے منتخب کیا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ شاہ صاحب کی تصنیفات پر ایک نظر ڈالی جائے، کچھ پہلے دیکھی تھی، کچھ نہیں دیکھی تھیں۔ اس سلسلہ میں ’’ازالۃ الخفاء‘‘ کے بالاستیعاب پڑھنے کی نوبت آئی، یہ اپنی نکتہ آفرینی کا دوسرا نمونہ تھا۔ انسانی تصنیفات میں کم کتابوں سے اتنا متاثر ہوا ہوں گا جتنا مکتوبات اور ’’ازالۃ الخفاء‘‘ سے علم کا چشمہ ابلتا نظر آتا ہے، آدمی ایک نکتہ کا لطف نہیں لینے پاتا کہ دوسرا نکتہ سامنے آجاتا ہے، اور دوسرے سے فارغ نہیں ہونے پاتا کہ تیسرا نکتہ سامنے آجاتا ہے۔ آیات کی تفسیر و تطبیق میں اور خلافت کے خصائص، نیز دینی انحطاط و تغیر کی تدریجی تاریخ کی تدوین میں جو کچھ لکھا ہے وہ علمی پختگی کے ساتھ کیا لطف و لطافت میں ادب و شاعری سے کم ہے؟
’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں نے مولانا عبیداللہ صاحب سندھی کے تلمیذ رشید اور پنجاب کے مشہور عالم مصلح حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے پڑھی تھی، اور دماغ پر اس کی عقلیت، محکم استدلال اور شاہ صاحب کی باریک بینی کا اثر اسی سے قائم ہوا۔ ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ سے علمی و اصولی مباحث اور متکلمانہ و فلسفہ آإیز دینی کتابوں کے سمجھنے کی استعداد پیدا ہوئی، اور اس حیثیت سے اس نے بڑا احسان کیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پچھلی صدیوں کی کسی شخصیت سے ذہن اتنا متاثر اور اس کی تحقیقات سے اتنا متفق نہیں جتنا شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کی کتابوں سے۔ اگر اپنے فکر ومسلک کے لیے کسی مکتب خیال کا تعین ضروری ہے، تو میں انہیں کا نام لے سکتا ہوں اور درحقیقت ہمارا تعلیمی و فکری نسب وشجرہ انھیں پر ختم ہوتا ہے۔
شاہ صاحب کے نامور پوتے شاہ محمد اسماعیل صاحب شہید کی عقیدت خاندانی ورثہ ہے، لیکن ان کی شہرہ آفاق اور مسلم ذکاوت اور وفور علم کا اندازہ صرف ’’منصب امامت‘‘ سے ہوا، جو اس موضوع پر میرے محدود علم میں اپنی طرز کی منفرد تصنیف ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب کی مختصر تصنیف ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ (جس کو میں شاہ صاحب کی قلمی بیاض کہتا ہوں) کے بعض علمی اشاروں اور مختصر نکتوں نے قرآں مجید کے مطالعہ و تفسیر میں بڑی رہنمائی کی، اور شاہ صاحب کے بعض مختصر جملوں اور تھوڑے لفظوں سے پورے پورے مضامین کے راستے اور مطالعہ قرآن میں ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئیں۔
حضرت سید احمد شہید کے ملفوظات کے مجموعہ ’’صراط مستقیم‘‘ (مرتبہ مولانا اسماعیل شہید، مولانا عبدالحی) کو بہت دیر میں دیکھا، مگر تصوف کے اچھے ذخیرے اور ائمہ تصوف کے ملفوظات، خصوصاً حضارت چشت کے پورے سلسلۂ ملفوظات کے مطالعہ کے بعد دیکھا، اور معلوم ہوا کہ تصوف کے لڑریچر میں یہ بالکل ایک انقلابی کتاب ہے۔ سلوک راۂ نبوت، اورتقرب بالفرائض کے موضوع کے علاوہ جس کے سید صاحب امام تھے اور جو اس عصر کے لیے تزکیۂ نفس اور قرب الی اللہ کی سب سے آسان، بے خطر اور وسیر شاہراہ ہے، طریقت وحقیقت اور سلوک و ترتبیب کے متعلق جو نکتے اور حقائق لکھے ہیں، وہ خدا داد ذکاوت، علومِ نبوت سے فطری مناسبت،ا علیٰ روحانیت اور دقت نظر کی دلیل ہیں، اہلِ ظاہر اور اہلِ معرفت کے مختلف فیہ مسائل میں جو محاکمہ کیا ہے اور جو فیصلہ کن باتیں کہی ہیں وہ ان کی اعلیٰ سلامت طبع، دماغی توازن و اعتدال اور میانہ روی کی شاہد ہیں۔ کاش! اس کتاب کی شایانِ شان خدمت ہتی اور نئے طرز پر مرتب کرکے پیش کی جاتی ۔
ان کتابوں کا ایک فیض یہ تھا کہ علومِ نبوت سے وحشت اور اجنبیت جو وضعی اور صناعی علوم، اور تصنیفات سے پیدا ہوجاتی ہے، دور ہوئی ہے۔ اس کی بری بھلی تمیز پیدا ہوئی کہ علمی اصطلاحات اور زمانہ کی زبان کے بغیر بھی علوم و حقائق ادا کیے جاسکتے ہیں اور کتابوں کے راستہ کے علاوہ کچھ اور بھی راستے ہیں، جن وہ علوم آتے ہیں جو کتابوں کے صفحات میں مقید نہیں کیے جاسکتے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ مغز ہو اور چھلکے نہ ہوں، معانی ہوں اور زیادہ الفاظ نہ ہوں، ،متن ہو اور حواشی نہ ہوں۔
اس عصر کے عارف مولانا محمد الیاس کاندھلوی (م ۱۳۶۳ھ/۱۹۴۴ء) سے ملا، تو ان کی باتیں اور ان کے معارف سمجھنے میں نسبۃً سہولت ہوئی۔ حسن الفاظ اور حسن ادا کا خیال، زمانہ کی زبان اور علمی اصطلاحات کی تلاش مقصود کے سمجھنے میں حجاب نہ بن سکی۔ میں نے ایک موقع پر عرض کیا کہ اگر میں نے حضرت سید احمد شہید کے حالات نہ لکھے ہوتے اور حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات نہ پڑھے ہوتے تو مجھے آپ کی باتوں سے بڑی وحشت ہوتی، مولانا نے اس کو پسند فرمایا اور دوسروں سے نقل کیا۔
میرے قرآن مجید کے مطالعہ میں مولانا احمد علی صاحب کی مجلسِ درس کا فیض اور برکت شامل ہے۔ درسی متداول اور بعض غیر متداول ضخیم تفسیریں، بعض لفظ بہ لفظ دیکھیں، لیکن اصل فائدہ متنِ قرآن کے سادہ اور بار بار کے پڑھنے سے ہوا۔ اس سلسلہ میں اس کا اظہار ضروری ہے کہ قرآن مجید سے اپنا حصہ لینے میں ضروری علمی ولسانی واقفیت کے بعد دو چیزیں سب سے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہیں، ایک علوم نبوت و مزاج نبوت سے مناسبت رکھنے والے اشخاص کی صحبت جن کی معاشرت وزندگی" کان خلقہ القرآن" کا پرتو ہو، اور جنہوں نے انا القرآن الناطق (حضرت علیؓ کا مقولہ) کہنے والے کی قلبی و ذوقی وراثت میں حصہ پایاہو۔ ان حجرات کے علوم کی تازگی وشگفتگی، بے آمیزی اور نکھار اور علم کی وسعت و گہرائی سے قرآن مجید کے الفاظ کی وسعت وعمق کا ایک قیاسی اندازہ ہوتا ہے، کئی الفاظ جو ’’لسان العرب‘‘ اور ’’مفردات غریب القرآن‘‘ سے اور کئی آیات جو زمخشری کی ادبی تفسیر ’’کشاف‘‘، امام رازی کی عقلی تفسیر ’’فتوح الغیب‘‘ اور ابن کثیر کی نقلی تفسیر سے حل نہیں ہوتیں، وہاں باتوں باتوں میں حل ہوجاتی ہیں۔ الفاظ ومعانی میں نئی وسعت اور قوت نظر آتی ہے جو پہلے نظر سے اوجھل تھی۔
دوسری چیز یہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام جن راستوں پر چلے ہیں، ان پر چلنے سے قرآن مجید کھلتا ہے۔ انبیاء علیھم السلام کی جو کیفیات بیان کی گئی ہیںان کا احساس ہوتا ہے۔ قوموں نے اپنے پیغمبروں کو جواب دیے ہیں، کان وہی آوازیں سنتے ہیں، اور آںکھیں وہی منظر دیکھتی ہیں۔ جو اشکالات اور شبہات علم کلام کی کتابوں نے اور کتابی مطالعہ نے فرضی طریقہ پر پیدا کردیے ہیں، وہ وہاں بے حقیقت ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کے سمجھنے کے یہ دو طبعی طریقے ہیں۔
سنا ہے کہ قرآں مجید میں آدمی کا جی لگنے لگتا ہے،تو انسانی تصنیفات سے جی گھبرانے لگتا ہے۔ انسانی کتابیں، انسانی تحریریں،ا نسانی تقریریں پست اور بے مغز معلوم ہونے لگتی ہیں، ادباء اور حکماء اور مفکرین کی باتیں طفلانہ اور عامیانہ نظر آتی ہیں، جن میں کوئی گہرائی اور پختگی نہیں معلوم ہوتی۔ مفید کاغذ پرچھپے ہوئے سیاہ نقش و نگار کاغذی پھول معلوم ہتے ہیں، جن کا رنگ ہے کوشبو نہیں۔ انسان کا علم اتھلا اور خالی معلوم ہونے لگتا ہے، اور اس کا دیر تک پڑھنا ذوق اور روح پر بار ہوتا ہے۔ ہر وہ چیز جو علومِ نبوت کے سرچشمہ سے نہ آئی ہو، مشتبہ اور الفاظ کا طلسم معلوم ہوتی ہے۔ تسکین صرف وحی ونبوت کے راستہ سے آئے ہوئے علم سے ہوتی ہے جس کو رسول ﷺ نے دنیا تک پہنچایا، اور جو وحی کی زبان میں قرآن مجید میں، اور عربی زبان میں حدیث میں محفوظ ہے۔