اگست08: اردو کے ممتاز شاعر،ادیب، مترجم اور صحافی کرار نوری کی برسی ہے
04:02PM Mon 7 Aug, 2017
تحریر: ابوالحسن علی بھٹکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرار نوری کا اصل نام سید کرار میرزا تھا۔ وہ غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پر پوتے تھے اور 30 جون 1916ء کو جے پور دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی جہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔
کرار نوری کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس کے علاوہ ان کی نعتوں کا مجموعہ ’’میزان حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرار نوری خیام الہند حضرت حیدر دہلوی کے شاگرد تھے۔
ایک واقعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1958ء میں نواب شاہ میں ایک مشاعرہ تھا جس میں لاہور سے بھی شاعر آۓ ہوۓ تھے جن میں کلیم عثمانی،ظہیر کاشمیری اور قتیل شفائی وغیرہ تھے۔گورنمنٹ کالج کے ھال میں مشاعرہ تھا آغاز مقامی شاعروں کے کلام سے ہوا اور مشاعرہ ابتدا میں ہی اکھڑ گیا۔بہت سے طالب علم جو اس ھال میں موجود تھے خدا جانے کس موڈ میں تھے اپنے پرنسپل کی بات مانی نہ مہمان خصوصی کی ہوٹنگ ایسی کہ خدا کی پناہ ۔اس عالم میں کرار نوری نے معتمد سے کہا مجھے بلاؤ۔شعراء کرام سمجھے ترنگ میں ہیں اور اس جھوک میں اصرار کر رہے ہیں۔جب دو ایک شاعر اسی ہربونگ کا شکار ہو گۓ تو کرار نوری صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا مجھے بلاؤ۔چناچہ انہیں زحمت دی گئی۔اپنی جگہ سے اٹھے ایک دو بار لڑکھراۓ دائس پر پہنچے سامعین نے ان کی قدوقامت کا خیال کۓ بغیر سیٹیاں بجانی اور آوازیں کسنا شروع کر دیں۔یہ لمحہ بھر تک مجمع کو گھورتے رہے پھر مائیکرو فون پر آہستہ سے کہا"پہلے ایک قطعہ سن لیجیۓ" اور ایک لمحہ کا توقف کۓ بغیر پہلا مصرعہ پڑھا،پھر دوسرا اور فوراۤ ہی دوسرے مصرعہ کو دھرا کر پھر پہلا مصرعہ اور اس کے بعد تیسرا مصرعہ۔سامعیں کا شور ہلکی بھنبھناہٹ میں تبدیل ہو چکا تھا۔اب انھوں نے تینوں مصرعوں کو ترتیب سے پڑھا اور اس کے بعد چوتھا مصرعہ۔۔ محسوس ہوا قطعہ نہں پڑھا سامعین پر کوئی منتر پھونک دیا وہ قطعہ یہ تھا۔
یہ غلط ہے شراب کی تعریف
اس کا ذہنوں پہ راج ہوتا ہے
صرف حدت شراب دیتی ہے
باقی اپنا مزاج ہوتا ہے
شاعرانہ اطوار کے ساتھ منفرد انداز خواندگی جو ہوٹنگ کر رہے تھے داد دینے لگے۔اس کے بعد انہوں نے قائد اعظم کی شان میں نظم سنائی جب نظم ختم ہو گئی تو اور اور کے نعرے لگنے شروع ہو گۓ نوری صاحب یہ کہہ کر ڈائس سے ہٹ گۓ کہ اب دوسرے شاعروں کو سنیۓ۔میں دم لے لوں پھر سنانے کے لۓ آ جاؤں گا(کسی کے پاس وہ نظم ہو تو پلیز شئیر کریں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے نادیدہ کوئی چاند اتر آۓ گا
ایک بستر کے ہے خالی مرے بستر کے قریب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے شہر میں کیا کیا سجے سجاۓ گھر ہیں
ہمارے گھر کو بھی کوئی سجانے والا ہو
وہ کس امید پہ گھر میں رہے کہ جس گھر میں
نہ آنے والا ہو کوئی نہ جانے والا ہو
ہر ایک صبح دل میں یہی ہوک اٹھتی ہے
ہمیں بھی ناز سے کوئی جگانے والا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہی لہجے میں بولاہے گھر کا سناٹا
کچھ اس قدر در و دیوار سے کلام کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1972۔73 میں انہوں نے شادی کر لی شادی کے ایک دو برس بعد انہوں نے ایک شعر کہا جو دوستوں کو سناتے تھے اور شعر سے پہلے تھوڑی تمھید باندھتے تھے کہ میں ایک لاابالی۔آزاد رو شخص۔اب ہر بات پہ روک ٹوک۔قدم قدم پہ نصحیت۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے چاہا تھا کہ مل جاۓ شریک زندگی
واۓ قسمت لیکن گھر میں شیخ سعدی آ گۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوری صاحب نے ایک اور محنت طلب کام کیا۔۔۔اخبارات میں ایک کالم شروع کیا جو ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتا ہوا۔اس کالم کا عنوان تھا۔"آج کے دن" عیسوی اور ہجری دن کے حساب سے اہم واقعات اور شخصیات کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جاتی تھیں۔
جب انہوں نے غزلوں کا مجموعہ "میری غزل" کے نام سے شائع کیا تو انہوں نے وہ مجموعہ تقریباۤ ہر صاحب ذوق کو اس کی فرمائش کے ساتھ بھیجا کے جو اشعار یا غزل پسند آۓ اس کی نشاندہی کردیں۔میری غزل کی تقریب اجراء مکمل ہونے تک جتنی آراء موصول ہوئیں وہ سب ایک مجلے کی صورت میں شائع کی گئیں۔اتنا ضغیم مجلہ کسی کتاب کی تقریب اجراء پر آج تک شائع نہیں ہوا۔غالب کی زمیں پر تقریباۤ ہر شاعر نے طبع آزمائی کی ہے لیکن نوری صاحب
کا یہ شعر غالب کے اشعار کی طرح ہمیشہ زندہ رہے گا
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا ،میرے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرار نوری صاحب دوستوں کے دوست تھے۔دوسروں کے کام آتے تھے۔اپنے لۓ کسی کو زحمت نہیں دینا چاہتے تھے۔چناچہ 8 اگست 1990ء کو جب ان کا انتقال ہوا۔کراچی میں شدید بارش ہوئی تھی۔ان کے بہت سے دوستوں کو
اس وقت اس سانحہ کا علم ہوا جب ان کی تدفین ہو چکی تھی۔
مانا کہ ہم اس دور کا حاصل تو نہیں تھے
ناقدریء دنیا کے بھی قابل تو نہیں تھے
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں اگر دار و رسن صبح منور کے عوض
پھر تو خورشید ہی ابھرے گا مرے سر کے عوض
ہم کو بھی سر کوئی درکار ہے اب سر کے عوض
پتھر اک ہم بھی چلا دیتے ہیں پتھر کے عوض
فرق کیا پڑتا ہے ہو جاۓ اگر داد رسی
اک نظر دیکھ ہی لو وعدہء محشر کے عوض
ہم نے چاہا تھا کہ پتھر ہی سے ٹھوکر کھائیں
سر بھی اک ہم کو ملا راہ میں پتھر کے عوض
پاسبانان چمن رہ گۓ بیرون چمن
نرگس خفتہ ملی سرو و صنوبر کے عوض
اب کہاں پہلا سا ساقی کے کرم کا دستور
آبرو بیچنی پڑ جاتی ہے ساغر کے عوض
کیا خبر وہ ہی چلے آئیں سجا لوں گھر کو
موج گل آنے لگی آج تو صر صر کے عوض
ان کے وعدہ کی جو تصدیق بھی چاہی نوریؔ
صاف انکار تھا تائید مکرر کے عوض