میری علمی و مطالعتی زندگی - قسط 08- تحریر : مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ

08:01PM Fri 16 Jun, 2017

مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کی تمام تصنیفات نقدِ کاملِ عیار، اور علم و انشاء کے لحاظ سے معیار ہیں، لیکن اس بے بضاعت کو جس چیز نے سب سے زیادہ متأثر کیا وہ ’’خطبات مدراس‘‘ ہے۔ اگر کسی مصنف کے حصہ میں صرف یہی تصنیف آئے تو اس کو زندہ جاوید بنادے،ا ور اگر مقبول ہو (جیسا کہ آثار سے بھی ظاہر ہے) تو مغفرت کے لیے تنہا کافی ہے۔ بار بار مزے لے لے کر پڑھی، حدیث و سیرت کے نئے نئے پہلو سامنے آئے، اور اس عہد انقلاب میں اہل علم اور تعلیم یافتہ غیر مسلموں کے سامنے حدیث و سیرت پیش کرنے کی راہ معلوم ہوئی۔

’’حیاتِ جاوید‘‘ اور ’’وقارِ حیات‘‘ اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے پرانے فائل سے ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ مزاج اور ان کے موجودہ تعلیمی و سیاسی رجحانات کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی، جس کی تکمیل ’’حیات شبلی‘‘ سے ہوئی، مولوی سید طفیل احمد صاحب کی ’’حکومتِ خود اختیاری‘‘ اور ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ سے ہندوستان کی اسلامی، دینی و علمی تاریخ سب سے بڑا خزانہ گھر میں موجود تھا، کبھی خیال نہیں آیا تھا، حیدرآباد سے اشاعت کی تحریک ہوئی تو والد موحوم کی تصنیف اور سرمایہ حیات ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کی آٹھ جلدیں ایک سے زائد بار پڑھیں۔ ان کتابوں سے ہندوستان کی آٹھ سو برس کی جیتی جاگتی تاریخ آنکھوں کے سامنے آگئی، علماء ومشائخ، اہل درس و اہل تصنیف، اہل ذوق و اہل کمال، سلاطین و وزراء،ا مراء و رؤسا کے ایسے حالات اور ہندوستان کی علمی تاریخ کے ایسے قیمتی نوادر و نکات مفت میں مل گئے، جن کے لیے سینکڑوں کتابیں الٹنے اور ہزاروں صفحات کھنگالنے سے بھی کام نہ چلتا۔ یہ ایک بہت بڑی ثقافت اور معلومات کا خزانہ تھا جس کو ہندوستان کا کوئی طالب علم جو علم سے اپنا انتساب کرتا ہو، نظر انداز نہیں کرسکتا، اور جس کے بغیر آدمی اپنے ملک ہی میں اندھیرے میں رہے گا۔ علمی طور پر کسی کتاب کے مواد اور علمی ذخیرہ سے اتنا کام نہیں لیا جتنا ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کی ان ضخیم آٹھ جلدوں کے تاریخی معلومات سے جن کی تلاش کے لئے تاریخ و تصوف کی کتابوں کے ہزاروں صفحات دیکھنے کی نہ توفیق تھی نہ فرصت، اور نہ یہ اندازہ کہ ان کو کہاں تلاش کرنا چاہیے، اور کس جگہ سے وہ دستیاب ہوسکتے ہیں۔ میری محرومی کہ میں اپنی کم سنی کی وجہ سے اپنے والد کوئی استفادہ نہ کرسکا، لیکن اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، وہ ایسا علمی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں کہ ساری عمر اس سے استفادہ کا موقع ہے۔

زندگی کے طویل تر دور میں دماغ پر علامہ اقبال مرحوم کا بڑا غلبہ رہا ہے، اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی معصر شخصیت کے افکار کا اتنا گہرا اثر دماغ پر نہیں پڑتا جتنا علامہ اقبالؒ کے کلام کا، غالباًاس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان خیالات اور تمناؤں کی ترجمانی کرتے ہیں جو روح و جسم میں پیوست ہوچکی ہیں۔ اقبال اور ان کے کلام پر اردو میں اتنی کتابیں شائع ہوئی ہیں جو شاید کسی معاصر شخصیت اور اس کے فکر پر شائع نہیں ہوئی، لیکن ان میں سب سے زیادہ پُر مغز اور روح پرور کتاب ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی ’’روح اقبال‘‘ معلوم ہوئی۔

علامہ مرحوم سے ۱۳۵۶ھ/ ۱۹۳۷ء میں دوسری ملاقات کی اور کئی گھنٹے ان کے التفات و ارشادات سے محفوظ رہا، جس کا خلاصہ پنجاب کے ایک رسالہ میں ’’عارفِ ہندی کی خدمت میں چند گھنٹے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بلاد عربیہ کے مسلمانوں کی بے التفاتی اور ناشناسی پر دل کھول کھول کر رہتا، اور ٹیگور کی قدر افزائی پر غٖصہ آتا۔ علامہ مرحوم کی وفات کے بعد مصر میں پڑھے جانے کے لیے ایک مفصل و طویل مضمون علامہ مرحوم کی زندگی و خصوصیات پر لکھا اور بعد میں عالم عربی میں ان کے تعارف کی سب سے زیادہ کامیاب کوشش کی توفیق ’’روائع اقبال‘‘ کے ذریعہ ہوئی، جس نے بلاد عربیہ کے نوجوانوں میں بڑی مقبولیت حاصل کی۔ ابتدائی استغراق و انہماک کے دور میں تنبیہ ہوئی کہ کسی انسان کے کلام سے اس قدر انہماک اور شیفتگی اچھی نہیں۔ اصل شغف اور انہماک کی چیز اللہ تعالیٰ کا ابدی پیغام اور کلام ہے جو قرآن مجید کی شکل میں محفوظ ہے اور جس کو جو کچھ ملا ہے اسی سے ملا ہے، لیکن اب بھی ان کے اشعار خون میں تموج اور جذبات میں حرکت پیدا کردیتے ہیں، اور عالم اسلام کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے اب بھی اس کو طاقت و خود اعتمادی کا ایک بہت بڑا سرچشمہ سمجھتا ہوں۔

مطالعہ کے سلسلہ میں مولانا عبدالباری صاحب ندوی کی ایک چھوٹی سی کتاب ’’مذہب و عقلیات ‘‘ پر نظر پڑی جو ’’بہ قامت کہتر بقیمت بہتر‘‘

کی صحیح مصداق ہے۔ ذوق و ذہن نے اس کو پورے طور پر اپنا لیا۔ اس رسالہ سے عقل و نقل کے حدود اور تجربہ و علم انسانی کی نارسی اور کوتاہی و ناپائیداری اور انبیاء علیھم السلام کے علم کی قطعیت کا ایک ابتدائی تخیل حاصل ہوا جو مطالعہ میں بہت کام آیا۔ اس کے بعد قدیم و جدید فلسفہ اور اس کی تاریخ پر جو کچھ ہاتھ  آیا پڑھا، مگر ابتدائی تخیل میں ذرا تزلزل واقع نہیں ہوا، بلکہ جس قدر پڑھا: ’’ان ھم إلا یخرصون‘‘ اور ’’بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ ولما یأتیھم تأویلہ‘‘ کی تفسیر و توضیح ہوتی رہی۔ حافظ ابن تیمیہ کی ’’تفسیر سورۂ اخلاص‘‘ اور ’’کتاب النبوات‘‘ کے اشارات سے مزید مدد ملی، لیکن اس نقش کو پختہ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات نے کیا۔