میری علمی اور مطالعتی زندگی ۔ قسط 07----تحریر : مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ
10:40AM Sat 10 Jun, 2017
Share:
اب اس سے پہلے کہ میں اپنی آخری محسن و موثر کتابوں کا ذکر کروں، تاریخ ادوار کے لحاظ کے بغیر ان کتابوں اور تحریروں کا ذکر کرتا ہوں، جنہوں نے بعض خاص حیثیتوں سے دل و دماغ پر کوئی اثر کیا اور کوئی قابلِ ذکر علمی فائدہ یا ذہنی تغیر پیدا کیا۔
نظام و نصاب تعلیم کے متعلق اصلاحی وتجدیدی خیالات کا تخم شیخ خلیل عرب و شیخ تقی الدین الہلای کی مجالس درس میں دماغ پر پڑا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ماحول اور لٹریچر نے اس کا نشو نما کیا، ندوۃ العلماء کا تخیل، اور دین و دنیا کی بہم آمیزی، اور علماء و اہل دین کی قیادت و اقتدار کی ضرورت و اہمیت کا احساس نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں صاحب شروانی کے اس خطبۂ صدارت سے وضاحت و قوت کے ساتھ ہوا جو موصوف نے ندوۃ العلماء کے اجلاس ۱۹۲۴ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں پڑھا تھا، اور میں نے اس کو غور سے بعد میں چھپا ہوا پڑھا، پھر مزید مطالعہ سے اس پر یقین اور اطمینان بڑھتا رہا، اور یہ دونوں چیزیں میرے علمی عقائد و نظریات کا جز بن گئیں۔
مغربی تہذیب و نظام سے نفرت اصل میں بڑے بھائی صاحب ڈاکٹر حکیم سید عبدالعلی صاحب مرحوم بی .ایس. سی، یم. بی. بی. ایس کی صحبتوں اور مجلسوں میں پیدا ہوئی، جو اس سے براہ راست واقفیت رکھتے تھے، اور اعلیٰ مغربی تعلیم کے باوجود اس کی سخت تنقید اور مذمت کرتے تھے۔ یوں بھی ان کی زندگی اور ان کا سراپا قدیم اسلامی تہذیب و ثقافت کی فتح مندی اور مغربی ماحول کے اثرات کی شکست و ہزیمت کا اعلان کرتا تھا،ا س نفرت کو جو زیادہ تر قلبی تھی، مولانا عبدالماجد صاحب دریابادیؒ کے ’’سچ‘‘ اور ’’صدق‘‘ کے پرچوں نے مستحکم اور دماغی بنادیا۔
مغربی تہذیب کی تاریخ سمجھنے میں اور لادینیت و مادیت کے ارتقاء کی اس منزل کی توجیہ میں ڈریپر کی پرانی کتاب ’’معرکہ مذہب و سائنس‘‘ (مترجمہ مولانا ظفر علی خاں مرحوم) اور لیکی کی ’’تاریخ اخلاق یورپ‘‘ (مترجمہ مولانا عبدالماجد دریادیؒ) نے بڑی مدد دی، اور اس سے بڑا مواد ملا جس سے اپنے مضامین و استدلال میں بہت کام لیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے مضامین ’’ترجمان القرآن‘‘ کے مضامین نے طرزِ استدلال اور طرزِ تحریر پر بھی اثر ڈالا، اور ان کی تحریروں نے ذوق و فکر کو متأثر کیا۔
مغربی تہذیب کے مزاج اور اس کے حقیق نقائص، اسلامی تہذیب سے اس کے بنیادی و اصولی تضاد اور دونوں کے ااتحاد کے عدم امکان کے تعلق سب سے زیادہ واضح اور پُرمغز چیز محمد اسد صاحب کی کتاب Islam at the Crossroads معلوم ہوئی جس کا لفظ لفظ دل نشیں ہوا۔ عرصہ دراز کے بعد ان کی دوسری فکر انگیز، لیکن دلچسپ کتاب Road to Mecca شائع ہوئی، جس کا عربی ترجمہ ’’الطریق إلی مکۃ‘‘ انہوں نے ازراہ عنایت مجھے خود بھیجا، یہ اس اجمال کی تفصیل، اور اس نظریہ کی عملی تطبیق تھی جو انہوں نے اپنی پہلی کتاب میں پیش کیا تھا۔ میں نے ان کی اجازت سے اس کا ترجمہ اور تلکخیص ’’طوفان سے ساحل تک‘‘ کے نام سے شائع کیا، یہ کتاب ہر جویائے حق اور صاحب ذوق کے پڑھنے کی ہے۔
۳۹۔ ۱۹۳۸ء میں مصر کے فاضل مؤلف ڈاکٹر احمد امین کی ’’فجر الاسلام‘‘ (جلد۔۱) اور ’’ضحیٰ الاسلام‘‘ (جلد ۔۳) کے مطالعہ کا موقعہ ملا، یہ عہد نبوی اور عہد اموی و عباسی کی فکری، ادبی، اخلاقی، سیاسی و علمی تاریخ ہے جس میں واقعات سے نتائج اخذ کیے ہیں، جزئیات سے کلیات قائم کیے ہیں اور ہر دور اور حیات انسانی کے ان مختلف شعبوں پر مجموعی نگاہ ڈالی ہے۔ کتاب مصنف کی قوت ملاحظہ اور حسن استنتاج کا اچھا نمونہ ہے،ا ور اگرچہ موجودہ عصری و مغربی تأثرات سے کلیۃً پاک نہیں، اور اس کے مطالعہ سے ذخیرۂ حدیث پر اعتماد کسی حد تک متزلزل ہوجاتا ہے، اور اس کی بعض بنیادی شخصیتوں کے بارے میں وہ عظمت و عقیدت قائم نہیں رہتی جو ایک مسلمان کے دل میں قائم رہنی چاہئے، مگر میری سادہ لوحی کہیے، یا ناقدانہ نظر کی کمی کہ مجھے مصنف کی اس کمزوری کا پورا احساس اس وقت نہیں ہونے پایا، اس کا صحیح احساس و علم اور اس سے اذیت اس وقت ہوئی جب میں نے ڈاکٹر الشیخ مصطفی السباعی کی فاضلانہ کتاب ’’السنۃ ومکانتھا في التشریع الاسلامي‘‘ پڑھی جس کے مطالعہ کی سفارش فن حدیث کے ہر طلب علم سے ہے۔ اس کے باجود ڈاکٹر احمد امین سے خیالات میں بڑا تو ارد معلوم ہوا، کئی جگہ حواشی پر اختلاف یا اظہار خیال کیا، یا مصنف کو بے اختیار داد دی، لیکن سب سے زیادہ فائدہ جو ان کتابوں کے مطالعہ سے حاصل ہوا، وہ شگفتہ، شیریں اور علمی طرزِ تحریر کا ہے جس میں احمد امین اپنے معاصرین میں خاص امتیاز رکھتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام کے ’’تذکرہ‘‘ سے امام احمد بن حنبل اور محدثین کی عمومی عظمت دل و دماغ پر قائم ہوئی، ’’تذکرہ‘‘ اور ’’الہلال‘‘ کے ادبی سحر حلال نے مسحور کیا۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی دوسری جلد سے تفسیر اور فہم قرآن کے بعض نئے گوشے سامنے آئے، اور فکر میں وسعت پیدا ہوئی۔ سورۂ یوسف جو کچھ انہوں نے لکھا ہے، وہ نہ صرف قرآنی نکتہ شناسی کی ایک مثال، بلکہ ادب عالی کا ایک زندہ جاوید نمونہ ہے۔
جب ترجمۂ قرآن اور تفسیر کی تدریس کی خدمت دارالعلوم میں سپرد ہوئی تو مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کے حواشی کی قدر آئی، جن میں انہوں نے مفسرین کے اقوال کا عطر اور ان کی تحقیق کا وہ حصہ نقل کردیا ہے جس کو اس زمانہ کا سلیم ذہن آسانی کے ساتھ قبول کرلیتا ہے۔ اس میں مولانا کی سلامت فکر، حسن انتخاب اور تحریر کی شگفتگی بخوبی عیاں ہے۔ میں نے دیوبند کی ایک ملاقات میں مولانا سے اپنا یہ تأثر ظاہر کیا، مولانا کو بڑی مسرت ہوئی، اور بعض صاحبوں سے اس کو نقل کیا۔
جدید معلومات و تحقیقات نے تفسیر کے سلسلہ میں جو نئے سوالات پیدا کردیے ہیں ان کا حل تلاش کرنے میں اور قرآنی اعجاز کے بہت سے گوشوں کو بے نقاب کرنے میں ’’تفسیر ماجدی‘‘ اور اس کے مصنف مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے تفسیری مضامین و تحقیقات سے بڑی مدد ملی، اور اپنے مطالعہ و معلومات میں تحقیقی اضافہ ہوا۔