میری علمی و مطالعتی زندگی ۔قسط 06 -----تحریر : مولانا سید ابو الحسن ندوی

02:24PM Fri 2 Jun, 2017

میری مدرسی تعلیم کا اختتام ہوچکا تھا اور آزاد مطالعہ کا آغاز، حافظ ابن قیمؒ کی ’’زاد المعاد‘‘ میرا کتب خانہ، میری رفیق سفر اور میری گویا اتالیق و معلم تھی۔ دینیات کے کتب خانہ کی اتنی بہترین نمائندگی ایک کتاب میں ملنا مشکل ہے۔ اگر مجھے کبھی پورے ذخیرۂ علمی سے محروم کردیا جائے اور صرف دو کتابوں کی اجازت دی جائے تو میں کتاب اللہ اور ’’زاد المعاد‘‘ اپنے ساتھ رکھوں گا، اس نے مجھے نماز سکھائی، دعائیں اور اذکار یاد کرائے، سفر کے آداب بتائے، روزمرہ زندگی کے مسنون قواعد و احکام سکھائے، اور سنت کا ضروری علم بخشا۔

ابتدائے شباب میں جو کتابیں فرشتۂ رحمت بن کر سامنے آئیں، ان میں زیادہ مؤثر اور محسن کتاب محمد بن نصر المروزی کی کتاب ’’قیام اللیل‘‘ ہے۔ اس کتاب کا خاص کام یہ ہے کہ عقلی اور استدلالی طریق سے نہیں، بلکہ قلبی اور ذوقی طور پر دلچسپی اور شوق کا رخ بدل دیتی ہے، اور سارا کھیل دلچسپی اور انس ہی کا ہے، اس کتاب میں شب بیدار نوجوانوں کے ایسے مؤثر واقعات لکھے ہیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کی اتنی پُر اثر تفسیر، اور قیامِ لیل کے فضائل جمع کیے ہیں جو اگر کسی خوش قسمت نوجوان کو آغاز شباب میں مل جائیں اور اپنا اثر کرجائیں تو ایک شیخ کامل کی بیعت سے کم نہیں ۔

امام ابن تیمیہؒ کی تفسیر سورۃ النور نے بھی اس پُرآشوب زمانہ میں دستگیری کی، یہ اور حافظ ابن قیم کی ’’الجواب الکافی‘‘ نوجوانی میں بہترین نگران اور اتالیق، اور اخلاقی محتسب و ناصح ہیں، زمانہ تعلیم کے بے شعور دور میں جس کتاب نے تعلیم سے اور معلمین سے نفع اٹھانے اور ان کے احترام اور طالب علمی کے آداب کا لحاظ کرنے کا خیال پیدا کیا، وہ صاحب ہدایہ کے ایک شاگرد کی چھوٹی سی کتاب ’’تعلیم المتعلم‘‘ ہے۔ اسی طرح تحصیل علم میں علوئے ہمت، عزیمت اور ذوق علم پیدا کرنے میں نوابِ صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی کی کتاب ’’علمائے سلف‘‘ نے مہمیز کا کام دیا، اور دل و دماغ پر علمائے سلف کی عظمت و عزیمت کا نقش ثبت ہوگیا۔ میرے نزدیک ہر سچے طالب وعلم کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کو حرزِ جان بناکر رکھنا چاہیے۔

والد مرحوم مولانا حکیم سید عبدالحی صاحب سابق ناظم ندوۃ العلماء کی تصنیفات کو الٹتے پلٹتے، ان کا ایک مسودہ ’’ارمغان احباب‘‘ کے نام سے ہاتھ آگیا، جو انہوں نے اپنی ۲۶ سال کی عمر میں لکھا ہے، اور ۱۳۱۲ھ کے طالب علمانہ سفروں کا روزنامچہ ہے، نہایت سادہ اور بے تکلف، لیکن اس نے میرے دل پر بڑا اثر کیا، مردان خدا کی محبت اور دین کی چاشنی محسوس ہوئی، حضرت سید احمد شہیدؒ سے اصل قلبی تعلق اسی رسالہ سے پیدا ہوا، جہاں والد مرحوم حضرت سیدنا لکھتے ہیں، وہاں دل جھوم جاتا ہے تھا اور دل ایک خاص کیف محسوس کرتا تھا۔

دوسری چیز جس نے حضرات اہل اللہ کی محبت و عقیدت پیدا کی اور دین کا ایک خاص مزہ معلوم ہوا، جس کو الفاظ میں ادا کرنا مشکل ہے، حضرت مولانا محمد علی بانی ندوۃ العلماء کا چھوٹا سا رسالہ ’’ارشاد رحمانی‘‘ ہے جس میں شیخ وقت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی کے کچھ حالات، حکایات و ملفوظات اور سلوک و طریقت کے کچھ نکات ہیں۔ حضرت مولانا گنج مراد آبادی میرے والد مرحوم کے شیخ تھے، اور بچپن سے گھر میں آپ کا ذکرِ خیر سنا تھا، اس روحانی تعلق اور ذہنی رط سے کتاب ذوق و شوق سے پڑھی، محبت کے اشعار اور عاشقانہ کلمات دل میں چبھ گئے، اور تیر ونشتر کی طرح دل میں اتر گئے۔ اس سے کچھ بیشتر یا بعد والد مرحوم کا ایک مختصر سا رسالہ یا مقالہ جو ’’استفادہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، بار بار پڑھا تھا، اس میں انہوں نے اپنے گنج مرادآباد کی حاضری کے حالات اور وہاں کے مشاہدات، اور مولانا کے الطاف و عنایات کے واقعات قلم بند کیے تھے، اس نے مولانا کی محبت و عقیدت اور اہل اللہ سے ملاقات اور استفادہ کے شوق میں اور اضافہ کیا۔

مشائخ و بزرگان دین کے ملفوظات کے مجموعے بھی نظر سے گزرے۔ ان مجموعوں میں حضرات چشتیہ کے ملفوظات میں سے زیادہ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات ’’فوائد الفواد‘‘ اور حضرات نقشبندیہ کے ملفوظات میں ہجرت شاہ غلام علی کے ملفوظات ’’دارالمعارف‘‘ کا قلب پر اثر پڑا۔ اگرچہ ذہن نے حدیث کے اثر اور ایک خاص ذہنی تربیت و مطالعہ کی وجہ سے بعض باتوں کے قبول کرنے سے ادب کے ساتھ معافی چاہی، لیکن قلب نے واقعات اور بے ساختہ گفتگو اور خلوص کی گرمی و نرمی محسوس کی۔

فلسفۂ تصوف اور فلسفۂ اخلاق کے نکات و مباحث نے جو متأخرین صوفیہ کی کتابوں میں بہ کثرت ملتے ہیں، کبھی متأخر نہیں کیا، البتہ درد و محبت اور سوز گداز کی باتیں بے اثر نہیں رہتی تھیں، اور یہ تیر کم خطا جاتے تھے، درد و محبت میں ڈوبے ہوئے اشعار اور فقرے دل پر نقش اور حافظہ میں محفوظ ہوجاتے تھے۔

ہم نے اپنے آشیانہ کے لیے

جو چبھے دل میں وہی تنکے لیے

بزرگوں کی مجالس و ملفوظات کے سلسلہ میں تاریخی ترتیب کا لحاظ کیے بغیر یہ کہے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتا کہ عرصہ کے بعد جب مولانا شاہ یعقوب صاحب مجددی بھوپالی کی مجالس میں حاضری کا شرف حاصل ہوا اور ان کی التفات و عنایات سے سرفراز ہوا تو ان کی زبان سے دینی حقائق و نکات اور سلوک و تصوف کی نادر تحقیقات سن کر عالم حیرت میں پڑ گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ملفوظات و مجالس کے قلم بند کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ اپنے علم و فہم کے مطابق یہ کہنے میں ذرا مبالغہ معلوم نہیں ہوتا کہ عرصۂ دراز سے تزکیہ و احسان اور دینی حقائق کے سلسلہ میں ایسے بیش قیمت ملفوظات اور ایسے گہرے علوم و مضامین سننے میں نہیں آئے۔ والغیب عنداللہ [اور] وفوق کل ذي علم علیم۔

طالب علمی کے باقاعدہ اختتام کے قریب ضلع رائے بریلی کے ایک مردم خیز قصبہ سلوان جانے کا اتفاق ہوا، اور وہ کتب خانے دیکھے ، ایک زندہ و متکلم، ایک جامد و خاموش۔ زندہ کتب خانہ مولانا شاہ حلیم عطا صاحب، اور جامد کتب خانہ ان کا قیمتی علمی ذخیرہ۔ شاہ صاحب کے واسطہ سے حافظ ابن جوزی، حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، حافظ ابن رجب اور ابن عبدالہادی وغیرہ کی بعض کتابیں دیکھیں، پھر وطن واپس جاکر ’’احیاء العلوم مع تخریج عراقی‘‘، ’’فضل علم السلف علی الخلف‘‘، ’’وفائن کنوز‘‘، ’’تلبیس ابلیس‘‘، ’’مختصر منہاج القاصدین‘‘ وغیرہ منگوائیں۔ ’’تلبیس ابلیس‘‘ کے مطالعہ سے ناقدانہ ذہنیت پیدا ہوئی۔