میری علمی و مطالعتی زندگی ۔ 03- مولانا سید ابو الحسن ندوی
09:55AM Sat 22 Apr, 2017
اردو مضمون نویسی میں ابتدائی اثر والد مرحوم کی کتاب ’’یادِ ایام ‘‘ کا تھا جو سنجیدہ زبان کا ایک شگفتہ نمونہ ہے، اور جس میں تاریخ کی متانت کے ساتھ، زبان کا بانکپن بھی موجود ہے جو میرے علم میں مصنف ’’گلِ رعنا‘‘ اور نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کی تحریر کا مشترک جوہر ہے، اس طرز پر میرا مضمون جواب دیا آتا ہے ’’اندلس ‘‘ پر تھا۔
عربی تعلیم شروع ہوجانے کے بعد میرے استاد شیخ خلیل (عرب) بن محمد بن شیخ حسین یمنی (محدث بھوپال) نے ہمیشہ کے لیے دل پر توحید کا نقش قائم کردینے کے لیے سورۂ زمر بڑی توجہ اور ذوق و شوق سے پڑھائی۔ عربی ادب اور بالخصوص عربی شعر کا عرب صاحب مرحوم کو اللہ نے ایسا فطری ذوق بخشا تھا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہ اس قوم کے فرد تھے جس کے متعلق زبانِ نبوت نے شہادت دی ہے کہ ایمان اس کے گھر کی دولت ہے (الإیمان یمان) عجم کا ’’حسن طبیعت‘‘ ننھیال سے اور عرب کا ’’سوز دروں‘‘ انہوں نے ددھیال سے پایا تھا۔ قرآن مجید پڑھتے تو خود بھی روتے تھے اور دوسروں کو بھی رلاتے تھے، قصائد پڑھتے تھے تو سوق عکاظ کا نقشہ کھینچ دیتے تھے۔ توحید ان کا ذوقی مضمون تھا، دل کھول کر پڑھایا، اور دل کو توحید کے لئے کھول دیا، وہ دن ہے اور آج کا دن، اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے۔ ’’ألا ﷲ الدین الخالص‘‘ (سورہ زمر) کا نقش قائم ہے، اور اس کے سامنے مانعبدھم إلا لیقربونا إلی اﷲ زلفا (زمر)، (مشرکین کہتے ہیں کہ ہم اپنے معبودوں کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہم کو خدا کے قریب کردیں) کا حیلہ اور دعویٰ، جو ہمیشہ کے نظام شرک اک سب سے بڑا فلسفہ ہے، تارِ عنکبوت معلوم ہوتا ہے۔ ادب میں شیخ خلیل عر ب کا ایک مجتہدانہ نصاب تھا جو ہندوستان میں بالکل نیا تھا، ان کو اپنا ذوق تلامذہ کی طرف منتقل کرنے میں خاص کمال حاصل تھا، انہوں نے مبادیٔ صرف اور تحریر و انشاء کی مشق کے ساتھ مصر وبیروت کے سلسلہ قراء ت (ریڈرس) المطالۃ العربیۃ، الطریقۃ المبتکرۃ (۱۵ !اجزاء)، مدارج القر اءۃ (ایک جزء) کے بعد ابن المقفع کی ’’کلیلہ و دمنہ‘‘، ’’مجموعۃ من النظم والنثر‘‘ حصۂ نثر کا ایک حصہ حفظا اور حصہ نظم، نہج البلاغۃ حصہ کتب، اور نظم میں ’’حماسہ‘‘، اور معری کی ’’سقط الزند‘‘، اور ’’دلائل الاعجاز للجرجانی‘‘ بڑے ذوق و شوق سے، نیز ’’مختصر تاریخ ادب اللغۃ العربیۃ‘‘ پڑھائی، عربی کے قواعد زبان کی مشق میں سب سے بڑا احسان اس گمنام کے نامور ہم نام ابوالحسن علی الضریر کے رسالہ ’’الضریری‘‘ کا ہے جو چند اوراق کی کتاب ہے۔ عرب صاحب نے اس کی عملی مشق کرائی، اور یہی مشق اس وقت تک کام آرہی ہے۔ اس تعلیم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ایک وقت میں مختلف علوم و فنون اور زبانوں کی تعلیم نہ تھی، صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم تھی اور وہی اوڑھنا بچھونا، وہی مقصدِ حیات اور وہی ذوق طبع۔
عرب صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اپنے محبوب و منتخب مصنفین اور ان کی محبوب و منتخب تصنیفات کو اس طرح طلبہ کے سامنے پیش کرتے تھے گویا وہی زبان و ادب اور طرزِ ادا کا واحد نمونہ اور ادب و ذوق کا منبع ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مصنفین طلبہ کے دماغ اور تخیل پر حاوی ہوجاتے تھے اور طالب علم ان کا رنگ اتارنے لگتے تگے۔ ابن المقفع اور جاحظ نثر میں، عبدالقادر جرجانی ذوق، نقدِ ادب اور سخن فہمی میں، متنبی و بحتری شعر میں ان کے منتخب لوگ تھے، اس لیے ان کے طلبہ اپنی بڑی سعادت اور کمال سمجھتے تھے کہ ان کا رنگ اور انداز پیدا ہوجائے۔ راقم الحروف نے ابن المقفع اور صاحب نہج البلاغۃ نیز کبھی کبھی جرجانی کی تقلید میں لکھنے کی کوشش کی، اور اس کا بڑا فائدہ ہوا۔ عرب صاحب کا ایک تعلیمی نکتہ یہ بھی تھا کہ وہ طلبہ کے دماغ پر یہ نقش قائم کردیتے تھے کہ ادب و نثر کا ترکہ صاحب ذوق طلبہ کی میراث ہے، جس کے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں انہیں باک نہیں ہونی چاہیے، چنانچہ ان کی ہمت افزائی سے کبھی کبھی ان صاحب طرز انشاء پردازوں کے بعض بعض جملے اور تعبیریں اپنی تحریر میں نگینہ کی طرح جڑ کر انعام حاصل کیا۔
اس تعلیم کے انتہائی مرحلہ پر مصر کے مشہور صاحب طرز نثار سید مصطفیٰ لطفی المنفلوطی کی کتاب ’’المنتظرات‘‘ عرب صاحب نے دیکھنے کو دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس صدی کا یہ ساحر ادیب دماغ اور تخیل پر چھا گیا اور دل میں سما گیا،ا س کے عنوانوں پر اپنے مضامین لکھے اور تیز رفتار ہوا کے پیچھے دوڑ کر دور تک خاک اڑائی۔