میری علمی اور مطالعتی زندگی ۔ 02- مولانا سید أبو الحسن ندوی

09:50AM Sat 22 Apr, 2017

انہی دنوں کے کچھ بعد میرے ہاتھ میں مولانا شبلی مرحوم کی ’’الفاروق‘‘ آگئی۔ مطبع نامی کانپور کی چھپی ہوئی، سراپا تصویر، پڑھی اور کئی بار پڑھی۔ عراق کی جنگوں بویب، جمر، قادسیہ وغیرہ کے میدان جنگ کی تصویر مولانا نے جن چھوٹے چھوٹے بے ساختہ و برجستہ جملوں میں کھینچی ہے شاید اس سے زیادہ فردوسی ’’شاہنامہ‘‘ میں مسلسل اعار اور پرشکوہ الفاظ اور مبالغہ سے پیدا نہیں کرسکا۔ ’’الفاروق‘‘ کے جاندار اور گرم جملے اور لفظ شمشیر و سناں کا کام کرتے ہیں۔ مولانا نے نظامِ خلافت پر جو کاوش کی ہے اس کے سمجھنے کی اس وقت صلاحیت نہ تھی، اور اب اس سے کوئی دلچسپی اور علمی تأثر نہیں ہے، لیکن واقعات کے حصہ کا ثر اس وقت بھی تھا اور اب بھی ہے۔

مولانا کی دوسری کتاب جو اس دور میں پڑھی ’’سفر نامہ روم و مصر و شام‘‘ تھی۔ اتفاق سے یہی دو کتابیں ہمارے گاؤں کے محدود ذخیرہ کتب میں تھیں۔ آخر الذکر کتاب سے معلومات میں بڑا اضافہ ہوا، ذہن میں وسعت پیدا ہوئی، اور کیا عجب ہے کہ اوّل اوّل اسی کتاب سے دنیائے اسلام کی سیاحت کا شوق پیدا ہوا ہو جکس کی نوبت برسوں بعد آئی۔ کچھ عرصہ بعد مولانا کی سوانحی تصنیفات ’’الغزالی‘‘، ’’سوانح مولانا روم‘‘ اور ’’المامون‘‘ پڑھیں۔ غالباً اسی وقت سے ذہن منے یہ اثر قبول کیا کہ سوانح حیات اور تذکرہ نگاری کے لیے اس سے بہتر اسلوب اور زبان جدید اردو میں پائی نہیں جاتی، اور غیر ارادی طریقہ پر ان تذکروں اور ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کے سلسلہ میں جو راقم کے قلم سے نکلا اس کو اختیار کیا گیا۔ افسوس ہے کہ ’’شعر العجم‘‘ کے پڑھنے کی نوبت بہت بعد میں آئی جس کو میں اپنے موضوع پر منفرد اور مولانا کا شاہکار سمجھتا ہوں۔ اس تاکیر میں غالباً میری فارسی کی کم لیاقتی کو دخل تھا۔

عم محترم مولانا سید طلحہ صاحب حسنی مرحوم ایم ائے استاد اور مینٹل کالج لاہور، کی صحبت اور مجلسوں میں ’’آب حیات‘‘ سے تعارف ہوا، سنی اور بار بار پڑھی، یہان تک کہ اس کے بہت سے مضامین متحضر ہوگئے۔ اشخاص، شعراء اور ان کا کلام دماغ پر اس طرح نقش ہوگیا جس طرح بچپن کی دیکھی ہوئی چیزیں اور سنی ہوئی باتیں ذہن پر مرتسم ہوجاتی ہیں، اور ان کا دماغ پر کوئی بار نہیں ہوتا۔ ’’گلِ رعنا‘‘ گھر کی کتا تھی، اس کو اتنی بار پڑھا کہ اردو شاعری کی تاریخ اور شعراء کے متعلق اتنی معلومات ہوگئی کہ اس موضوع پر مجلس میں گفتگو کرنے اور گفتگو میں حصہ لینے کی استعداد پیدا ہوگئی۔

میرے حقیقی ماموں زاد بھائی مولوی سید ابوالخیر صاحب برق لکھنؤ کی لکسالی زبان لکھتے اور بولتے تھے۔ لکھنؤ کے محاورات اور صحت و صفائی زبان میں وہ سند کا درجہ رکھتے تھے، سخن شناس بھی تھے اور سخن سنج بھی، ابتداء میں شمس لکھنوی کو کلام دکھاتے تھے، پھر آغا ثاقب قزلباش لکھنوی کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہوگئے اور انھیں کے رنگ کی پیروی کی، ان کی صحبت میں زبان کا ذوق اور اچھے برے کی تمیز پیدا ہوئی۔ ان کے چھوٹے بھائی حافظ سید حبیب الرحمن جامعہ ملیہ میں پڑھتے تھے، ان کو اردو شعر و شاعری کا بڑا شوق تھا۔ ان کا ایک خاص ذوق یہ تھا کہ بچوں سے اساتذہ کے اشعار کا مطلب پوچھتے اور اردو میں تقریر و تحریر کے مقابلے کرواتے۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر مومن، غالب، ذوق اور لکھنؤ کے شعراء میں آتش اور امیر مینائی کے کلام سے ان کو خاص ذوق تھا، چنانچہ ان کے اشعار سننے اور ان کا مطلب بیان کرنے کے سلسلہ میں دماغ پر زور ڈٖالنے اور مشکل اشعار کے سمجھنے کی عادت پڑی۔ اس زمانہ میں اودھ میں شاعروں کا بڑا زور تھا، ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں کئی مشاعرے ہوئے، دیکھا دیکھی میں نے بھی کچھ موزوں کرنے کی کوشش کی، مگر اللہ تعالیٰ بڑے بھائی صاحب کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے بہت سختی سے روک دیا، اور یہ شغل بے حاصل جاری نہ رہ سکا۔

رائے بریلی میں گھر میں بعض عزیزوں کا ذخیرۂ کتب تھا جس میں مولوی محمد حسین آزاد کی ’’نیرگ خیال‘‘ بھی تھی، عمر کے اس ابتدائی دور اور زبان و ادب کے اس ابتدائی ذوق میں آزاد کی نثر کا جو نثر اردو کا ایک مرصع نمونہ ہے بہت اثر پڑا۔ بہت دنوں تک ’’نیرنگ خیال‘‘ اور ’’آب حیات‘‘ کی تقلید میں بہت سے صفحے سیاہ کیے جو اپنی کم سوادی کے باوجود فائدہ سے خالی نہیں رہے۔ یہ زمانہ ہر چھپی ہوئی چیز کے پڑھنے کے مرض کا تھا، ہر قسم کی چیزیں پڑھیں، شرر مرحوم اور رتن ناتھ سرشار کی بھی چند کتابیں پڑھیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی پڑھی ہوئی چیز خواہ بھلا دی جائے بے کار و بے اثر نہیں رہتی، اپنا اچھا برا اثر ضرور کرتی ہے، اس لیے اس کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نقش آنکھوں سے آگے نہیں بڑھنے پائے، لیکن ان کا کوئی خاص اثر یاد نہیں آتا۔