میری علمی و مطالعاتی زندگی ۔ 01 - مولانا سید ابو الحسن ندوی

09:17AM Sat 22 Apr, 2017

  • خاکسار کا خاندان ایک خزاں رسیدہ دینی خانوادہ ہے، جس کے بزرگوں نے کبھی فصل خزاں میں دنیا کو پیامِ بہار سنایا تھا، ہندوستان میں جب دین کی بہار آخر ہوئی تو اس خاندان پر تنزل آیا، ہوش کی آنکھیں کھولیں تو دین داری جوانوں سے زیادہ بوڑھوں میں اور مردوں سے زیادہ عورتوں میں تھی۔
  • میرے والد مرحوم مولانا حکیم سید عبدالحی نے ۱۹۲۳ء کے شروع میں انتقال کیا، میری عمر اس وقت دس سال کی تھی، میرے بڑے بھائی صاحب ڈاکٹر حکیم مولوی سید عبدالعلی صاحب لکھنؤ میں میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور میں اپنے وطن رائے بریلی میں اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ رہتا تھا، اور بھائی صاحب کی ہدایت کے مطابق خاندان کے بعض بزرگوں سے فارسی کتابیں پڑھتا تھا، اور لکھنؤ بھائی صاحب کے پاس آتا جاتا رہتا تھا۔
  • خاندان میں دستور تھا کہ تقریباً روزانہ اور ان دنوں میں خاص طور پر جب کسی حادثہ کی وجہ سے تسکین و مشغلہ کی ضرورت ہوتی، ایک گھر کی تمام بیبیاں ایک جگہ جمع ہوجاتیں اور ہمارے ہی خاندان کے ایک بزرگ (سید عبدالرزاق صاحب کلامی، م ۱۳۳۴ھ/ ۱۹۱۶ء) کی منظوم ’’فتوح الشام‘‘ پڑھی جاتی ۔
  • سید عبدالرزاق صاحب کلامی مرحوم، حضرت سید احمد شہید کے ہمشیرزادہ منشی سید حمید الدین صاحب کے پوتے اور ان کے حقیقی بھائی سید عبدالرحمن صاحب کے نواسے تھے۔ واقدی کی عربی ’’فتوح الشام‘‘ کو کلامی صاحب نے بڑی قادر الکلامی اور جوش و دلی جذبہ کے ساتھ پچیس ہزار شعروں میں اردو میں نظم کیا ہے، چونکہ ان کو اس کا طبعی ذوق تھا، اور جہاد و حرارتِ ایمانی کی چنگاری اسی تنور سے منتقل ہوئی تھی، جس نے ایک وقت میں سارے ہندوستان کو گرمادیا تھا، اس لیے نظم میں جوش و اثر اور کلام میں آمد ہے۔ حضرت خالدؓ سے شاعر کو عشق تھا، اور خواب میں بار بار ان کی زیارتیں ہوئی تھیں، اس لیے خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کرتے ہوئے وہ بے قابو ہو جاتے ہیں، اور اشعار میں خاص روح اور زور پیدا ہوجاتا ہے۔ میری بڑی خالہ سیدہ صالحہ مرحومہ جو قرآن مجید کی بھی حافظہ تھیں، یہ منظوم ’’فتوح الشام‘‘ بڑے پُراثر و دلکش لہجہ میں پڑھتی تھیں، اور پڑھتے پڑھتے کتاب ان کو بہت رواں ہوگئی تھی۔ عموماً عصر کے بعد مجلس ہوتی، بچے بھی کبھی اپنی ماؤں کے پاس کھیلتے کھیلتے یا کسی پیغام کے لیے آجاتے، اور بے ارادہ کچھ دیر ٹھہر کر سنتے، کبھی با ارادہ بیٹھ جاتے اور کبھی مائیں اپنے پاس بٹھا کر سننے کا موقعہ دیتیں، پھرجب اس میں لطف آنے لگتا تو کھیل چھوڑ کر اس مجلس میں شریک ہوتے۔
  • میری خالہ مرحومہ جب سادہ و بے تکلف، لیکن پُر اثر لہجہ میں یہ اشعار پڑھتیں، تو جہاد کا ایک سماں بندھ جاتا، دل امنڈ آتے، حضرت خالدؓ، حضرت ضرارؓ اور ان کی بہن حضرت خولہؓ بنت الازور اور دوسرے صحابہ کرام و مجاہدین شام کی جاں بازی اور شجاعت کا ذکر آتا تو مجلس پر ایک کیف و سرور اور نشہ طاری ہوجاتا، کسی سخت معرکہ میں مسلمانوں کے گھر جانے اور کسی بہادر کے شہید ہونے کا تذکرہ ہوتا تو آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتیں، آنسوؤں کے یہ طوفان اٹھتے اور برستے تو ان کا چھینٹا ہمارے معصوم دلوں پر بھی پڑجاتا، اور اس نرم مٹی کو تر کر جاتا۔ ’’فتوح الشام‘‘ کی ان زندہ مجلسوں نے دل پر یہ اثر چھوڑا کہ مجاہدین کی محبت و عظمت اور اللہ کی راہ میں جان دینے کی قیمت کو کوئی نئی علمی تحقیق، اور جہاد کو مدافعانہ ثابت کرنے کی کوئی کوشش کم نہیں کرسکی۔ خون کے نقش کو سیاہی کے وہ نقوش کبھی نہیں مٹاسکے جو لیٹے لیٹے یا آرام سے بیٹھے بیٹھے کاغذ پر ثبت کیے جائیں، پھر وہ نقش جس کو بچپن کے پاک آنسوؤں نے پائیداری بخشی ہو۔
  • اتانی ھواھا قبل ان اعرف الھویٰ
  • فصادف قلباً خالیاً فتمکنا
  • دوسرا اثر یہ ہوا کہ اس قوم و مذہب (عیسائیوں) کے خلاف جس کے مقدر میں قیامت تک کے لیے اسلام کا عالم گیر حریف و مدمقابل بننا لکھ دیا گیا ہے، اور جس کی قائم مقامی اور وراثت موجودہ یورپ کے حصہ میں آئی ہے، ایک حریفانہ جذبہ اور عناد پیدا ہوگیا جس پر کسی ملک کے مقامی مسائل و حالات کبھی غالب نہیں آسکے۔
  • اس وقت شرفاء کے خاندانوں میں ’’مسدس حالی‘‘ کا عام رواج تھا۔ اس کے اشعار لوگوں کے نوکِ زبان تھے، تقریروں اور مواعظ میں جابجا اس کے اشعار سے کام لیا جاتا، مضامین میں نقل کیے جاتے۔ میں نے بھی ’’مسدس‘‘ کو بڑے جوش و لطف سے باربار پڑھا، اس کے اشعار اپنی تقریروں جو بچوں کے جلسوں میں پڑھے جاتے اور ان انعامی مضامین میں جو مقابلہ کے لیے لکھے جاتے، بار بار نقل کیے۔ اس کا بہت سا حصہ زبانی یاد تھا۔ دل و دماغ پر ’’مسدس‘‘ کا اچھا خاصا اثر رہ چکا ہے، عام استعداد  اور معلومات میں اضافہ کے علاوہ اس کا ایک احسان یہ تھا کہ برسوں بعد مغربی مؤرخین و مصنفین کی یہ کوشش بالکل بے اثر رہی کہ جاہلیت عرب کی اتنی مدح سرائی کی جائے اور اس میں اگر خوبی کے کچھ ذرات تھے تو ان کو خوردبین سے دیکھ کر پہاڑ بناکر اس طرح پیش کیا جائے کہ معلوم ہو کہ عربوں میں اخلاقی انقلاب کی پوری تیاری تھی، اور کوہِ آتش فشاں پھٹنے کو تھا کہ موقع شناسی سے بروقت اس کو چنگاری دکھادی گئی۔ اسلامی انقلاب کی پیغمبرانہ عظمت اور رسول اللہ ﷺ کے معجزہ کی اہمیت کو گھٹانے کی یہ علمی سازش مولانا حالی کے ان پُر اثر اورسادے چند بندوں پر غالب نہ آسکی  جن میں انہوں نے جاہلیت کا نقشہ اور اس کی اخلاقی پستی کا تصویر کھینچی ہے، نہ بعض قوم پرست عربوں کے مضامین اور تالیفات متأثر کرسکیں جو اپنی قومیت کے جوش میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔
  • میرے گھر کا ماحول دادا صاحب (مولوی سید فخر الدین صاحب خیالی) اور والد صاحب کی وجہ سے جو جید عالم اور عربی کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے ادیب و نقاد بھی تھے، دینی کے ساتھ ادبی بھی تھا۔ بہت بچپن ہی سے اردو نثر و نظم کی درسی و غیر درسی کتابیں ہم بھائی بہنوں کے مطالعہ میں رہتی تھیں، مولانا حالی، ڈپٹی نذیر احمد، راشد الخیری کی بہت سی کتابیں اس زمانہ میں پڑھ لیں، اس زمانہ میں عام طور پر مولوی اسماعیل صاحب میرٹھی کا اردو نصاب ’’کمک اردو‘‘ اور ’’سوادِ اردو‘‘ اور ’’سفینۂ اردو‘‘ رائج تھا۔ ہندوستان کا سر رشتہ تعلیم ان کتابوں سے بہتر کتابیں مرتب نہیں کرواسکا، ان میں ’’سفینۂ اردو‘‘ کا اثر آج تک دل و دماغ پر باقی ہے۔ تقریباً نصف صدی گزرجانے کے بعد اور ذہنی بلوغ و ارتقاء کی بہت سی منازل طے کرلینے کے باوجود اب بھی اگر وہ کتاب ہاتھ آجائے (جو افسوس ہے کہ اب بالکل نایاب ہے) تو شاید سب کام چھوڑ کر اُسی کو پڑھنے لگوں، اور بچپن کی یاد تازہ کروں، اور کم سے کم اپنی چند پسندیدہ نظمیں اور مضامین، مولوی ظفر علی خاں بی.اے علیگ کی نظم ’’راجہ دسرت کی کہانی‘‘ اور حیدر آباد کے طوفان پر ان کی نظم ’’او نامراد ندی‘‘، سید سجاد حید یلدرم کا مضمون ’’مجھ کو میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘ کو ایک بار پڑھے بغیرکتاب  ہاتھ سے رکھنی مشکل ہوجائے۔ اس غیر شعوری مطالعہ کا یہ فائدہ ہوا کہ زبان کا لطف اور ذوق زندگی کے ہر دور میں ساتھ رہا، اور تحریر و انشاء میں کبھی مولویانہ خشکی پیدا نہ ہونے پائی۔ میرے خیال میں ابتدائے عمر میں سلیس و شگفتہ زبان اور اچھے مصنفین کی کتابوں کا پڑھنا جو سلیس و شیریں زبان میں اپنے خیالات ادا کرنے کے عادی ہیں، بہت مفید اور ایک حد تک ضروری ہے، ورنہ نئی نسل اور نئے عہد سے رشتہ منقطع ہوجاتا ہے اور دعوت و تلقین کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔
  • اردو کے ابتدائی مطالعہ اور طالب علمی کے اس ابتدائی دور میں جس کتاب کو اپنے شوق سے پڑھا اور جس نے سب سے زیادہ متأثر کیا وہ قاضی سلیمان صاحب منصور پوری مرحوم کی سیرت ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا پہلا حصہ ہے، مجھے یہ کبھی نہیں بھولے گا کہ جب اس کی دونوں جلدوں کا بعض دوسری کتابوں کے ساتھ دی - پی رائے بریلی آیا ہے اور اس کے چھڑانے کے لیے اس وقت روپیہ نہ تھا، تو میں نے بے اختیار رونا شروع کیا، یہاں تک کہ کسی نہ کسی طرح اس کا انتظام کیا گیا اور قابو میں نہ رکھ سکا۔ بعض خاص مقامات کا ہمیشہ خاص اثر پڑتا تھا، اسلام کے ابتدائی مبلغین کے واقعات حضرت مصعبؓ بن عمیر کی مکی و مدنی زندگی کا مقابلہ، ان کی والہانہ کیفیت، آں حضرت ﷺ کی مدینہ طیبہ میں تشریف آوری اور حضرات انصار کی مسرت، استقبال اور جان نثاری، انصار کا ایثار اور مہاجرین کے ساتھ ان کی دینی حمیت، آں حضرت ﷺ کی وفات کے واقعات و حالات کا دل پر خاص اثر پڑتا تھا، ٹہل ٹہل کر ان کو پڑھتا تھا، لوگوں کو سناتا تھا اور اسی زندگی کی تمنائیں دل میں پیدا ہوتی تھیں۔ قاضی سلیمان صاحب کے درجات اللہ بلند فرمائے، اس عالم میں ہوتے تو کہتا کہ آپ کی کتاب کا مجھ پر بڑا احسان ہے، اس نے سب سے پہلے سرور کائنات ﷺ کی محبت کے اس مزہ سے آشنا کیا جس کے بغیر زندگی اور عالم خس و خاشاک ہے۔
  • در خرمن کائنات کوؤردیم نگاہ
  • یک دانہ محبت است باقی ہمہ گاہ