ایک بے ضرر انسان ۔ مولانا حافظ محمد رمضان ندوی۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

11:56AM Sat 26 Nov, 2022

       ۔ ۱۶/مارچ ۱۹۱۲ء کو  جب جامعہ آباد میں پچاس سالہ تعلیمی کنونشن کے انتظامات مکمل ہورہے تھے ، طنابیں کسی جارہی تھیں ،معزز مہمانانوں کی آمد کا سلسلہ ا بھی شروع ہوگیا تھا اور جامعہ کے سرپرست حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بھی ابھی بہ نفیس تشریف لا چکے تھے کہ  خبر آئی کہ جامعہ کے اولین اساتذہ میں سے ایک استاذ الاساتذہ مولانا حافظ  محمد رمضان ندوی صاحب کو داعی اجل کی جانب سے بلاوا آگیا ، اس وقت ان کی عمر پچھتر کے لگ بھگ تھی۔مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں مولانا رابع صاحب  ۱۹۷۹ء میں پہلی مرتبہ بھٹکل میں قدم رنجہ ہوئے تھے ، لیکن جامعہ میں غائیبانہ طور پر سبھی آپ کے عقیدت مند و گرویدہ تھے ، یہ گرویدگی اور عقیدت مندی پید ا کرنے میں  جامعہ کے جن اساتذہ نے کردا ر ادا کیا ان میں حافظ صاحب کا نام سرفہرست تھا۔آپ سید محمد رابع صاحب  کے ابتدائی شاگردوں میں تھے ، شاید استاد شاگر د کے مابین اسی خلوص و محبت کا  اثر تھا ، جس نے چہیتے استاد کواس طرح اتفاقی طور پر  اپنے  شاگرد رشید کے جنازہ کی امامت کے لئے بھیجدیا ۔

      حافظ صاحب کا جائے پیدائش فیض آباد تھا ، آپ کے والد مزدور پیشہ تھے ، تلاش معاش کے لئے ممبئی آئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے ، حافظ صاحب نے ممبئی میں کچھ ابتدائی تعلیم  حاصل کرکے  ندوۃ العلماء جاکر حفظ قرآن مکمل کیا تھا ، یہاں آپ کے روابط بھٹکل کے حافظ

 محمد اقبال صاحب کے ساتھ قائم ہوئے ، جو برادرانہ تعقات میں بدل گئے ، اقبال صاحب ایک خوش حال اور صاف ستھری طرز  زندگی کے مالک تھے ، حافظ صاحب بھی کھانا پکانے ، والی بال وغیرہ کھیلوںکے شوقین ، ان دونوں کی ندوے میں خوب جمی ،  پھراس محفل میں بھٹکل و اطراف کے ممبران کا اضافہ ہوتا رہا ، جن میں گنگولی کے مولوی محمد تقی(جو فارغ ہوکر انجمن کے استاد بنے )، شیرور کے قافشی احمد بن عبد الرزاق ( جنہوں نے عرصہ تک سلطانی مسجد میں امامت  کے فرائض  انجام دئے اور جامعہ میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی) ،کائیکینی کے گیما محمد اقبال (عرصہ سے کوکن علاقہ میں امامت اور تدریس سے وابستہ ہیں )، منکی کے قاضی محمد فاروق ( سابق مہتمم جامعہ) ، بھٹکل کے ملپا عبد المجید ( انڈین ہائی اسکول دبی کے رٹائرڈ عربک ٹیچر)  شامل ہوگئے ، ندوے میں حافظ رمضان بھٹکلی احباب کی رفاقت میں رہے ۔۱۹۶۲ء میں جب حافظ اقبال  ندوے سے سند فضیلت لے کروطن لوٹے اور جامعہ سے وابستہ ہوگئے  تو آپ نے پہلے سال جامع مسجد میں تراویح پڑھائی ، تو  دوسرے سال حافظ رمضان صاحب کو بھٹکل  بلا لیا،  اس وقت آپ نے جامع مسجد میں اور حافظ اقبال نے سلطانی مسجد میں تراویح کی امامت کی ، اس طرح تراویح میں ختم قرآن کی ایک روایت قائم ہوگئی ، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ مبارک سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔

          ۱۹۶۵ء میں جب جامعہ سوداگر بخار سے جامع مسجد کو منتقل ہوا تو یہاں پر حافظ صاحب کی تقرری ہوئی ،  استاد گرامی مولانا عبدالحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ ( معتمد تعلیم جامعہ)  آپ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں ۔

۔{جناب مولوی حافظ محمد رمضان صاحب ندوی ، فاضل دارالعلوم ندوۃالعلماء جامعہ کے مغتنمات میں سے ہیں ،گو آپ رہنے والے یوپی کے ضلع فیض آباد کے ہیں ،لیکن پونہ اور بمبئی سے آپ کو گہرا اور طویل تعلق رہا ہے  اور اب بھی ہے ،ندوی ہیں ہی،حافظ قرآن ہیں ، فارسی اچھی جانتے ہیں ،اردو تو مادری زبان ہی ہے، نہایت صالح،سلیم الطبع ،نوجوان فاضل ہیں ،گو  سردست آپ  مکتب کے اسباق زیادہ پڑھاتے ہیں ،لیکن در اصل جامعہ کی عربی جماعتوں کے لیٔے آپ کو منتخب کیا گیا ہے ،عند الضرورت مکتب میں کسی لائق شخص کو رکھ کرآپ کو جامعہ میں منتقل کرلیا جائے گا،اس وقت بھی عربی جماعتوںکے بعض اسباق آپ کے حوالہ ہیں}روداد اجلاس اول ۲۱؍۲۲ نومبر ۱۹۶۴ء ۔

           جب حافظ صاحب بھٹکل تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر کوئی  پچیس چھبیس سال کے پیٹھے میں رہی ہوگی ، بھر پور جوانی کا دور ، گٹھا ہوا جسم ، کسرتی اور مضبوط اعضاء ، چوڑی  چکلی چھاتی ، میانہ قد ، رنگت گہری سانولی ،ایسا لگتا جیسے کسی پہلوان نے مولوی کا لباس پہن لیا ہو ، لیکن چال ڈھال میں سنجیدگی ، مزاج میں دھیما پن نمایاں تھے ا،آپے سے باہر ہونا  شایدکاتب تقدیر نے لکھا ہی نہیں تھا ،  جامعہ والوں کو آپ کی شخصیت پسند آئی ،  بھروسہ آگیا کہ ان پر سرمایہ کاری بے کار نہیں جائے گی ،  خرچ کریں گے تو قوم ہی کا اس میں بھلا ہوگا ، تقرری کے ایک سال بعد دورہ حدیث  کے لئے جامعہ کے خرچہ پر  ماہانہ تنخواہ کے اجراء کے  ساتھ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور بھیجدیا ، یہاں آپ نے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ، آپ کی مجالس میں بیٹھے ، لیکن آپ کے دورہ حدیث سے استفادہ کا  موقعہ نہیں  ملا کیونکہ اسی سال حضرت شیخ نے دورہ حدیث سے سبکدوشی لے کر حضرت مولانا محمد یونس صاحب کو اپنا جانشین بنا دیا تھا ،  یہ نئے شیخ الحدیث کی جوانی اور حوصلوں کی بلندی کازمانہ تھا،  ان سے آپ نے خوب استفادہ کیا ، درسی تقاریر کو اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا ،  اس زمانے تک یونس صاحب کے حدیث کی کتاب مشکاۃ  شریف کے  درس کی بڑی دھوم  ہوا کرتی تھی ، آپ نے بڑی محنت سے سال بھر کے درس مشکاۃ شریف اور دوسرے بہت  سارے  علمی ذخیروں کو اپنے ہاتھ سے نقل کیا  ، سال بھر بعد آپ جب بھٹکل لوٹے تو محنتوں کا یہ ثمرہ  ہزاروں صفحات کی شکل میںآپ کی جھولی میں موجود تھا ۔

        اللہ نے آپ کو پاکیزہ ذوق اور ہنر مندی سے نوازا تھا ،  کھانے کا ذوق اچھا تھا ، طالب علمی کے زمانے سے ذائقہ دار کھانے پکانے میں مہارت  حاصل کرلی تھی ، جس کی وجہ سے  وطن سے  ہزاروں میل کی دوری  عذاب جان نہیں بن سکی ، کھیل اور ورزش  کے شوق نے دوست احباب اور ہم جولی  پیدا کئے ،  شاعری کرتے کبھی نہیں دیکھا ، لیکن شعر و سخن کا بڑا پاکیزہ مذاق رکھتے تھے ، جامعہ میں بیت بازی کی ابتدا کا کریڈٹ غالبا آپ ہی کو جاتا ہے ، بڑے خوش خط تھے ، تکیوں وغیرہ کے غلافوںپر بڑے ہی خوبصورت اشعار اپنے ہاتھوں سے کشیدہ کرتے تھے ۔

          کھیل اور ورزش کے تذکرے پر اس زمانے میں جامعہ آنے والے استاد مولانا اکبر علی ندوی مرحوم یا د آئے ، ۔۱۹۶۶ء میں جب پہلی مرتبہ آئے تھے تو ابھی تئیس چوبیس سال کی عمر رہی ہوگی ، بانکے نوجوان، اکھاڑے کے ماہر ، لکڑیوں کے کرتب بچوں کو سکھاتے ، ۱۹۶۷ء کے اجلاس کو کامیاب کرنے میں بڑا کردا ر ادا کیا ،اور جب خوش خطی او ر اور شعر سخن کی بات چلی تو اس زمانے کے جامعہ کے ایک اور استاد یاد آتے ہیں، جناب عبد الرحمن خان نشتر مرحوم ،۱۹۶۶ء میں مدرس بنے ، بڑے اخلاص محنت  اور  رعب داب سے بچوں کی تعلیم وتربیت کا فرض نبھایا ، ماہر فن خطاط اور شاعر، آواز بلا کی پائی تھی ،  پختہ راگ جانتے تھے  ، آپ کے  برادر خورد  عبد الحمید خان اور فرزند محمد ظفر اللہ خان نے بھی جامعہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنا خون خشک کیا اور قوت لایموت پر زندگی گذاردی ،  بڑے خان مدبر اور سنجیدہ انسان تھے ، وہ جذباتیت پسند نہیں کرتے تھے ،  عزت نفس کا خیال رکھتے  ، بڑے بڑے  نام انہیں مرعوب نہیں کرتے تھے ، ہم نے ان سے پڑھا تو نہیں ، لیکن جب ساتھ پڑھانے کا موقعہ ملا تو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا ، ان کی باتیں اب بھی یاد آتی ہیں ، ہمارا معاشرہ بھی کتنا طوطا چشم واقع ہوا ہے ، قوم کے نونہالوں کی اٹھان کے لئے  اپنا  خون جلانے والے اساتذہ کو  ہم کس آسانی سے بھول جاتے ہیں ؟۔

            حافظ رمضان صاحب نے کوئی دو عشرہ تسلسل کے ساتھ جامعہ میں تدریس کے فرائض انجام دئے ، جب جامع مسجد میں تعلیمی  درجات رہے تو فاروقی مسجد کے پاس ایک ٹیلے پر کرایہ کے مکان میں رہے،  پھر جب مدرسہ{ جوکاکو مینشن ۔ چوراہے} پر منتقل ہوتو آپ نے  شرالی میں الوے کوڑی کے پاس ایک مسجد میں جامعہ کی تدریس کے ساتھ امامت کی زمہ داریاں بھی سنبھا ل لیں اور روزانہ چھ سات کلومیٹر کا ٹیلوں ویرانوں اور جھاڑیوں بھرا  راستہ  پید ل طے کر کے جامعہ آباد آنے لگے ،  اسطرح ایک عشرہ آپ نے گذار دیا ، آج کے زمانے میں جبکہ ہر کسی کے پاس اسکوٹر اور  بائیک موجود ہے، اساتذہ کی  وقت پر نہ پہنچنے کی شکایت عام ہے ، لیکن کیا مجال کہ حافظ صاحب کی پابندی وقت میں کوئی حرف آیا ہو۔

          جامعہ کے اساتذہ کا ابتدا سے یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ سیاسی ، تاریخی جغرافیائی اور عام معلومات کا وافر ذخیرہ ان کے یہاں پایا جاتارہا ہے ، حافظ صاحب بھی انہی میں  سے تھے ، طلبہ کو دلچسپ معلومات پہنچانے کا انہیں ہنر معلوم تھا، ۱۹۶۷ء کی جنگ فلسطین کے بعد لیلی خالد ، یاسر عرفات  وغیرہ کے کارناموں کا ذکر آپ ہی کی زبانی ہم نے سنا تھا۔

           حافظ صاحب نے جامعہ کا نرم و گرم دور دیکھا ، آپ کے سامنے یہاں پر بڑے بڑے بحران اٹھے ، مولانا عبد الحمید ندوی  اور آپکے بعد یکے بعد دیگرے مولانا یعقوب بیگ ندوی ، ابو الحسن قاضیا ماسٹر ، مولانا سید ارشاد علی ندوی ، مولانا شہباز اصلاحی وغیرہ  کے سبھی دور دیکھے  ،لیکن اس دوران ہمیشہ آپ نے خود کو تعلیم و تعلم سے وابستہ رکھا ، سیاست اور اختلافات کی چھینٹیں  اپنے دامن پر پڑنے نہیں دیں  ، ۱۹۷۹ء میں مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اساتذہ کی خواہش و ایماء پر قائم مقام مہتمم کی ذمہ داری سونپی ،  یہ ذمہ داری آپ نے تین سال کے عرصہ تک نبھائی یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن رحمانی جامعہ کے اہتمام پر فائز ہوگئے ۔

           کچھ عرصہ بعد آپ گھریلوں مجبوریوں کے تحت ابوظبی کے ایک اسکول میں تدریس  سے وابستہ ہوئے ، اس اسکول میں انگریزی درجات کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کا ایک کامیاب تجربہ کیا گیا تھا ، جہاں ایک عشرہ گزار کر   شوگر کی بیماری کی وجہ سے آپ دوبارہ بھٹکل واپس آگئے ، یہاں آپ کو ندوے کے قدیم ساتھی اور جامعہ کے سابق استاد قافشجی احمد عبد الرزاق نے بھٹکل سے کچھ فاصلے پر واقع گاؤں کیسر کوڈی شیرور میں ایک مدرسہ کی ذمہ داری پر مامور کیا ۔  یہاں آپ روزانہ صبح کو جاتے اور شام کو واپس آتے ،  اس دوران آپ پر شوگر کی بیماری کا زبردست حملہ ہوا  اور ایک وقت ایسا آیا کہ آنکھوں کی بنیائی جاتی رہی ، جسم پر بھی فالج کا اثر ہوگیا اور ایک طویل عرصہ تک ان بیماریوں کی مار سہتے ، لشتم پشتم زندگی گزادی ، وفات سے دوچار ماہ قبل حاضری ہوئی تھی ، زبان بولنے سے معذور ہوگئی تھی ، پتہ نہیں کیا بولنا چاہتے تھے ، بات ہمارے کچھ پلے نہیں پڑی ، ہمیں وہ زمانہ یاد آگیا جب پہلے پہل آپ بھٹکل وارد ہوئے تھے ، اس وقت جسم کے رویں رویں  میں قوت و توانائی کوند رہی تھی ، اب دیکھا تو ایک لاشہ سامنے پڑا تھا، شوگر کی بیماری کے معالج کو خود اسی بیماری نے لاچار کردیا تھا ، یہ بھی عجیب قدرت خدا واندی ہے۔حافظ صاحب اب ہم سے بہت دور جا چکے ہیں ، دنیا شاہد ہے کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی ، ان کے ذریعہ فائدہ ہی پہنچا ، ان سے فیض اٹھانے والی کئی نسلیں گزر گئیں ، کیا مغفرت کے لئے یہ کافی نہیں  ؟۔

۱۴؍۱؍۲۰۱۳ء

     ۔ ۱۶؍مارچ ۲۰۱۲ء کو  جب جامعہ آباد میں پچاس سالہ تعلیمی کنونشن کے انتظامات مکمل ہورہے تھے ، طنابیں کسی جارہی تھیں ،معزز مہمانانوں کی آمد کا سلسلہ ا بھی شروع ہوگیا تھا اور جامعہ کے سرپرست حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بھی ابھی بہ نفیس تشریف لا چکے تھے کہ  خبر آئی کہ جامعہ کے اولین اساتذہ میں سے ایک استاذ الاساتذہ مولانا حافظ  محمد رمضان ندوی صاحب کو داعی اجل کی جانب سے بلاوا آگیا ، اس وقت ان کی عمر پچھتر کے لگ بھگ تھی۔مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میںمولانا رابع صاحب  ۱۹۷۹؁ء میں پہلی مرتبہ بھٹکل میں قدم رنجہ ہوئے تھے ، لیکن جامعہ میں غائیبانہ طور پر سبھی آپ کے عقیدت مند و گرویدہ تھے ، یہ گرویدگی اور عقیدت مندی پید ا کرنے میں  جامعہ کے جن اساتذہ نے کردا ر ادا کیا ان میں حافظ صاحب کا نام سرفہرست تھا۔آپ سید محمد رابع صاحب  کے ابتدائی شاگردوں میں تھے ، شاید استاد شاگر د کے مابین اسی خلوص و محبت کا  اثر تھا ، جس نے چہیتے استاد کواس طرح اتفاقی طور پر  اپنے  شاگرد رشید کے جنازہ کی امامت کے لئے بھیجدیا ۔

      حافظ صاحب کا جائے پیدائش فیض آباد تھا ، آپ کے والد مزدور پیشہ تھے ، تلاش معاش کے لئے ممبئی آئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے ، حافظ صاحب نے ممبئی میںکچھ ابتدائی تعلیم  حاصل کرکے  ندوۃ العلماء جاکر حفظ قرآن مکمل کیا تھا ، یہاں آپ کے روابط بھٹکل کے حافظ

 محمد اقبال صاحب کے ساتھ قائم ہوئے ، جو برادرانہ تعقات میں بدل گئے ، اقبال صاحب ایک خوش حال اور صاف ستھری طرز  زندگی کے مالک تھے ، حافظ صاحب بھی کھانا پکانے ، والی بال وغیرہ کھیلوںکے شوقین ، ان دونوں کی ندوے میں خوب جمی ،  پھراس محفل میں بھٹکل و اطراف کے ممبران کا اضافہ ہوتا رہا ، جن میں گنگولی کے مولوی محمد تقی(جو فارغ ہوکر انجمن کے استاد بنے )، شیرور کے قافشی احمد بن عبد الرزاق ( جنہوں نے عرصہ تک سلطانی مسجد میں امامت  کے فرائض  انجام دئے اور جامعہ میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی) ،کائیکینی کے گیما محمد اقبال (عرصہ سے کوکن علاقہ میں امامت اور تدریس سے وابستہ ہیں )، منکی کے قاضی محمد فاروق ( سابق مہتمم جامعہ) ، بھٹکل کے ملپا عبد المجید ( انڈین ہائی اسکول دبی کے رٹائرڈ عربک ٹیچر)  شامل ہوگئے ، ندوے میں حافظ رمضان بھٹکلی احباب کی رفاقت میں رہے ۔۱۹۶۲ء میں جب حافظ اقبال  ندوے سے سند فضیلت لے کروطن لوٹے اور جامعہ سے وابستہ ہوگئے  تو آپ نے پہلے سال جامع مسجد میں تراویح پڑھائی ، تو  دوسرے سال حافظ رمضان صاحب کو بھٹکل  بلا لیا،  اس وقت آپ نے جامع مسجد میں اور حافظ اقبال نے سلطانی مسجد میں تراویح کی امامت کی ، اس طرح تراویح میں ختم قرآن کی ایک روایت قائم ہوگئی ، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ مبارک سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔

          ۱۹۶۵ میں جب جامعہ سوداگر بخار سے جامع مسجد کو منتقل ہوا تو یہاں پر حافظ صاحب کی تقرری ہوئی ،  استاد گرامی مولانا.۔۔ عبدالحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ ( معتمد تعلیم جامعہ)  آپ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں ۔

 ــــــ          {جناب مولوی حافظ محمد رمضان صاحب ندوی ، فاضل دارالعلوم ندوۃالعلماء جامعہ کے مغتنمات میں سے ہیں ،گو آپ رہنے والے یوپی کے ضلع فیض آباد کے ہیں ،لیکن پونہ اور بمبئی سے آپ کو گہرا اور طویل تعلق رہا ہے  اور اب بھی ہے ،ندوی ہیں ہی،حافظ قرآن ہیں ، فارسی اچھی جانتے ہیں ،اردو تو مادری زبان ہی ہے، نہایت صالح،سلیم الطبع ،نوجوان فاضل ہیں ،گو  سردست آپ  مکتب کے اسباق زیادہ پڑھاتے ہیں ،لیکن در اصل جامعہ کی عربی جماعتوں کے لیٔے آپ کو منتخب کیا گیا ہے ،عند الضرورت مکتب میں کسی لائق شخص کو رکھ کرآپ کو جامعہ میں منتقل کرلیا جائے گا،اس وقت بھی عربی جماعتوںکے بعض اسباق آپ کے حوالہ ہیں}روداد اجلاس اول ۲۱؍۲۲ نومبر ۱۹۶۴ء ۔

           جب حافظ صاحب بھٹکل تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر کوئی  پچیس چھبیس سال کے پیٹھے میں رہی ہوگی ، بھر پور جوانی کا دور ، گٹھا ہوا جسم ، کسرتی اور مضبوط اعضاء ، چوڑی  چکلی چھاتی ، میانہ قد ، رنگت گہری سانولی ،ایسا لگتا جیسے کسی پہلوان نے مولوی کا لباس پہن لیا ہو ، لیکن چال ڈھال میں سنجیدگی ، مزاج میں دھیما پن نمایاں تھے ا،آپے سے باہر ہونا  شایدکاتب تقدیر نے لکھا ہی نہیں تھا ،  جامعہ والوں کو آپ کی شخصیت پسند آئی ،  بھروسہ آگیا کہ ان پر سرمایہ کاری بے کار نہیں جائے گی ،  خرچ کریں گے تو قوم ہی کا اس میں بھلا ہوگا ، تقرری کے ایک سال بعد دورہ حدیث  کے لئے جامعہ کے خرچہ پر  ماہانہ تنخواہ کے اجراء کے  ساتھ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور بھیجدیا ، یہاں آپ نے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ، آپ کی مجالس میں بیٹھے ، لیکن آپ کے دورہ حدیث سے استفادہ کا  موقعہ نہیں  ملا کیونکہ اسی سال حضرت شیخ نے دورہ حدیث سے سبکدوشی لے کر حضرت مولانا محمد یونس صاحب کو اپنا جانشین بنا دیا تھا ،  یہ نئے شیخ الحدیث کی جوانی اور حوصلوں کی بلندی کازمانہ تھا،  ان سے آپ نے خوب استفادہ کیا ، درسی تقاریر کو اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا ،  اس زمانے تک یونس صاحب کے حدیث کی کتاب مشکاۃ  شریف کے  درس کی بڑی دھوم  ہوا کرتی تھی ، آپ نے بڑی محنت سے سال بھر کے درس مشکاۃ شریف اور دوسرے بہت  سارے  علمی ذخیروں کو اپنے ہاتھ سے نقل کیا  ، سال بھر بعد آپ جب بھٹکل لوٹے تو محنتوں کا یہ ثمرہ  ہزاروں صفحات کی شکل میںآپ کی جھولی میں موجود تھا ۔

        اللہ نے آپ کو پاکیزہ ذوق اور ہنر مندی سے نوازا تھا ،  کھانے کا ذوق اچھا تھا ، طالب علمی کے زمانے سے ذائقہ دار کھانے پکانے میں مہارت  حاصل کرلی تھی ، جس کی وجہ سے  وطن سے  ہزاروں میل کی دوری  عذاب جان نہیں بن سکی ، کھیل اور ورزش  کے شوق نے دوست احباب اور ہم جولی  پیدا کئے ،  شاعری کرتے کبھی نہیں دیکھا ، لیکن شعر و سخن کا بڑا پاکیزہ مذاق رکھتے تھے ، جامعہ میں بیت بازی کی ابتدا کا کریڈٹ غالبا آپ ہی کو جاتا ہے ، بڑے خوش خط تھے ، تکیوں وغیرہ کے غلافوںپر بڑے ہی خوبصورت اشعار اپنے ہاتھوں سے کشیدہ کرتے تھے ۔

          کھیل اور ورزش کے تذکرے پر اس زمانے میں جامعہ آنے والے استاد مولانا اکبر علی ندوی مرحوم یا د آئے ، ۱۹۶۶ء میں جب پہلی مرتبہ آئے تھے تو ابھی تئیس چوبیس سال کی عمر رہی ہوگی ، بانکے نوجوان، اکھاڑے کے ماہر ، لکڑیوں کے کرتب بچوں کو سکھاتے ، ۱۹۶۷ء کے اجلاس کو کامیاب کرنے میں بڑا کردا ر ادا کیا ،اور جب خوش خطی او ر اور شعر سخن کی بات چلی تو اس زمانے کے جامعہ کے ایک اور استاد یاد آتے ہیں، جناب عبد الرحمن خان نشتر مرحوم ،۱۹۶۶ء میں مدرس بنے ، بڑے اخلاص محنت  اور  رعب داب سے بچوں کی تعلیم وتربیت کا فرض نبھایا ، ماہر فن خطاط اور شاعر، آواز بلا کی پائی تھی ،  پختہ راگ جانتے تھے  ، آپ کے  برادر خورد  عبد الحمید خان اور فرزند محمد ظفر اللہ خان نے بھی جامعہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنا خون خشک کیا اور قوت لایموت پر زندگی گذاردی ،  بڑے خان مدبر اور سنجیدہ انسان تھے ، وہ جذباتیت پسند نہیں کرتے تھے ،  عزت نفس کا خیال رکھتے  ، بڑے بڑے  نام انہیں مرعوب نہیں کرتے تھے ، ہم نے ان سے پڑھا تو نہیں ، لیکن جب ساتھ پڑھانے کا موقعہ ملا تو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا ، ان کی باتیں اب بھی یاد آتی ہیں ، ہمارا معاشرہ بھی کتنا طوطا چشم واقع ہوا ہے ، قوم کے نونہالوں کی اٹھان کے لئے  اپنا  خون جلانے والے اساتذہ کو  ہم کس آسانی سے بھول جاتے ہیں ؟۔

            حافظ رمضان صاحب نے کوئی دو عشرہ تسلسل کے ساتھ جامعہ میں تدریس کے فرائض انجام دئے ، جب جامع مسجد میں تعلیمی  درجات رہے تو فاروقی مسجد کے پاس ایک ٹیلے پر کرایہ کے مکان میں رہے،  پھر جب مدرسہ{ جوکاکو مینشن ۔ چوراہے} پر منتقل ہوتو آپ نے  شرالی میں الوے کوڑی کے پاس ایک مسجد میں جامعہ کی تدریس کے ساتھ امامت کی زمہ داریاں بھی سنبھا ل لیں اور روزانہ چھ سات کلومیٹر کا ٹیلوں ویرانوں اور جھاڑیوں بھرا  راستہ  پید ل طے کر کے جامعہ آباد آنے لگے ،  اسطرح ایک عشرہ آپ نے گذار دیا ، آج کے زمانے میں جبکہ ہر کسی کے پاس اسکوٹر اور  بائیک موجود ہے، اساتذہ کی  وقت پر نہ پہنچنے کی شکایت عام ہے ، لیکن کیا مجال کہ حافظ صاحب کی پابندی وقت میں کوئی حرف آیا ہو۔

          جامعہ کے اساتذہ کا ابتدا سے یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ سیاسی ، تاریخی جغرافیائی اور عام معلومات کا وافر ذخیرہ ان کے یہاں پایا جاتارہا ہے ، حافظ صاحب بھی انہی میں  سے تھے ، طلبہ کو دلچسپ معلومات پہنچانے کا انہیں ہنر معلوم تھا، ۱۹۶۷ء کی جنگ فلسطین کے بعد لیلی خالد ، یاسر عرفات  وغیرہ کے کارناموں کا ذکر آپ ہی کی زبانی ہم نے سنا تھا۔

           حافظ صاحب نے جامعہ کا نرم و گرم دور دیکھا ، آپ کے سامنے یہاں پر بڑے بڑے بحران اٹھے ، مولانا عبد الحمید ندوی  اور آپکے بعد یکے بعد دیگرے مولانا یعقوب بیگ ندوی ، ابو الحسن قاضیا ماسٹر ، مولانا سید ارشاد علی ندوی ، مولانا شہباز اصلاحی وغیرہ  کے سبھی دور دیکھے  ،لیکن اس دوران ہمیشہ آپ نے خود کو تعلیم و تعلم سے وابستہ رکھا ، سیاست اور اختلافات کی چھینٹیں  اپنے دامن پر پڑنے نہیں دیں  ، ۱۹۷۹؁ء میں مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اساتذہ کی خواہش و ایماء پر قائم مقام مہتمم کی ذمہ داری سونپی ،  یہ ذمہ داری آپ نے تین سال کے عرصہ تک نبھائی یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن رحمانی جامعہ کے اہتمام پر فائز ہوگئے ۔

           کچھ عرصہ بعد آپ گھریلوں مجبوریوں کے تحت ابوظبی کے ایک اسکول میں تدریس  سے وابستہ ہوئے ، اس اسکول میں انگریزی درجات کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کا ایک کامیاب تجربہ کیا گیا تھا ، جہاں ایک عشرہ گزار کر   شوگر کی بیماری کی وجہ سے آپ دوبارہ بھٹکل واپس آگئے ، یہاں آپ کو ندوے کے قدیم ساتھی اور جامعہ کے سابق استاد قافشجی احمد عبد الرزاق نے بھٹکل سے کچھ فاصلے پر واقع گاؤں کیسر کوڈی شیرور میں ایک مدرسہ کی ذمہ داری پر مامور کیا ۔  یہاں آپ روزانہ صبح کو جاتے اور شام کو واپس آتے ،  اس دوران آپ پر شوگر کی بیماری کا زبردست حملہ ہوا  اور ایک وقت ایسا آیا کہ آنکھوں کی بنیائی جاتی رہی ، جسم پر بھی فالج کا اثر ہوگیا اور ایک طویل عرصہ تک ان بیماریوں کی مار سہتے ، لشتم پشتم زندگی گزادی ، وفات سے دوچار ماہ قبل حاضری ہوئی تھی ، زبان بولنے سے معذور ہوگئی تھی ، پتہ نہیں کیا بولنا چاہتے تھے ، بات ہمارے کچھ پلے نہیں پڑی ، ہمیں وہ زمانہ یاد آگیا جب پہلے پہل آپ بھٹکل وارد ہوئے تھے ، اس وقت جسم کے رویں رویں  میں قوت و توانائی کوند رہی تھی ، اب دیکھا تو ایک لاشہ سامنے پڑا تھا، شوگر کی بیماری کے معالج کو خود اسی بیماری نے لاچار کردیا تھا ، یہ بھی عجیب قدرت خدا واندی ہے۔حافظ صاحب اب ہم سے بہت دور جا چکے ہیں ، دنیا شاہد ہے کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی ، ان کے ذریعہ فائدہ ہی پہنچا ، ان سے فیض اٹھانے والی کئی نسلیں گزر گئیں ، کیا مغفرت کے لئے یہ کافی نہیں  ؟۔

 14-02-2013