Urdu May Seeratun Nabi ka Index(02)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

12:05PM Fri 20 Sep, 2024

اردو میں سیرت نویسی کا اصل دور جس پر اردو زبان کو ناز ہے، اور جس کی وجہ سے اردو زبان دوسری زبانوں پر فائق ہے، اس کا آغاز  سرسید احمد خان کے خطبات احمدیہ اور سید امیر علی کے اسپرٹ آف اسلام سے ہوتا ہے، یہ دراصل روایتی سیرت نویسی سے ہٹ کر سیرت النبی کی شمولیت اور مستشرقین کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر اعتراضات کے دفاع  کی راہ میں  سنگ میل ہیں، ان دونوں مصنفین کےبہت سے  افکار وخیالات سے اختلاف کے باجود  اس میں شک نہیں کہ انیسویں صدی کے اواخر میں ان دونوں  نے ہمارے سامنے سیرت نگاری کا ایک نیا اسلوب رکھا جو زبان  وبیان کے اعتبار سے سادہ، اسلوب کے اعتبار سے دلنشین، دلائل کے اعتبار سے موثر اور اپنی پیشکش کے اعتبار سے انتہائی عالمانہ اور ادیبانہ تھا۔ یہ اسلوب جب متعارف ہوا، تو پھر شبلی اور سید سلیمان سلمان منصورپوری نے اس اسلوب کو غیر معمولی بلندیوں تک پہنچا دیا۔اور اس سے وہ قدیم اسلوب متروک ہو گیا جس پر لوگ پہلے سیرت  لکھا کرتے تھے۔ جس میں زیادہ بیان معجزات کا اور ان امور کا ہوتا تھا جن کا تعلق روحانیات سیرت سے ہے۔ جس کا سیرت اور تاریخی واقعات سے نسبتا کم تعلق ہوتا تھا۔۔۔۔ برصغیر میں سیرت پر بیسویں صدی میں جن حضرات نے قلم اٹھایا، انہوں نے سیرت پاک کے ایسے ایسے نئے پہلو روشن کئے ہیں جو صرف برصغیر کے اہل علم ہی کا خاصہ تھا۔ دنیائے اسلام کے دوسرے علاقوں میں سیرت پاک کے اتنے عمیق ، گہرے اور وسیع مطالعہ کی مثالیں نہیں ملتیں۔ شاید ابتدائی صدیوں میں برصغیر کے مسلمانوں سے جو تقصیر سر زد ہوئی تھی، اللہ کی مشیت نے اس کی تلافی کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور برصغیر کے لوگوں نے انیسویں صدی میں، اور اس سے کہیں زیادہ بیسویں صدی میں اس تقصیر کی تلافی کی ، اور سیرت پاک کے  ایسے ایسے پہلو قارئین کے سامنے رکھے جن کی طرف گزشتہ تیرہ سو سال میں محققین اور سیرت نگاروں کی توجہ نہیں ہوئی تھی۔دور جدید میں مطالعہ سیرت کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آئے جن کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ دراصل سیرت پر کام کا آغاز تو اب ہوا ہے۔ اور اب تحقیق کی ایک نئی دنیا، تحقیق کا ایک نیا سمندر اور تحقیق کا ایک نیا عالم دریافت ہوا ہے(محاضرات سیرت) ۔۔۔ بیسویں صدی کے اس دور میں عسکریات سیرت پر ، یعنی سیرت النبی کے عسکری پہلو پر، رسول اللہ کی حکمت حربی پر اور مختلف جنگوں میں استعمال کئے گئے طریقوں پر جو وسیع تحقیق ہوئی ہے وہ ماضی میں نہیں ہوئی تھی۔ پھر ایک بڑی خاص بات یہ ہے کہ عسکریات سیرت پر ۔۔۔ جن حضرات نے قلم اٹھایا ہے وہ عسکریات کے میدان کے شہسوار ہیں۔ جن کی پوری زندگیاں اسی میدان میں گزری ہیں۔ اور جس مہارت اور بصیرت کے ساتھ وہ عسکریات سیرت کا اندازہ کر سکتے ہیں، وہ اوروں کے لئے بڑا دشوار ہے۔ اسی طرح سے اداریات سیرت ، یعنی سیرت کے ادارتی اور انتظامی پہلوؤں پر ماضی کے محققین نے یقیناً قابل قدر کام کیا ہے۔

ڈاکٹر محمود غازی کے بقول سیرت نگاری میں بیسویں صدی  کا نصف آخر  ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا زمانہ ہے، جو اس دور کے مجدد علوم سیرت کہے جاسکتے ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ علم سیرت کا جب آغاز ہوا تو جلد ہی اس کے تین حصے یا شعبے ہو گئے ۔ ایک حصہ خاص سیرت کے واقعات یا  حوادث پر مبنی تھا۔ دوسرا حصہ غزوات کی تحقیق پر ، اور تیسرا حصہ اسلام کے بین الاقوامی قانون پر مبنی تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ان تینوں موضوعات پر بہت تفصیل سے نہایت محققانہ انداز میں لکھا ہے اور ان تینوں  موضوعات پر ان کی کتابیں بڑی خاصے کی چیزیں ہیں۔ ۔۔۔

یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ اردو میں مستند سیرت نویسی کا آغاز  قاضی بدر الدولۃ مدراسی نائطی سے ہوا، اور اس میداں میں بیسویں صدی کا اختتام آپ کے پوتے ڈاکٹر محمد حمید اللہ پر ہوا۔

۱۸۴۶ء میں جب اردو میں سیرت کی پہلی کتاب چھپی تھی، تواس پر اب پاونے دو سوسال گذر رہے ہیں، یہ عرصہ زبانوں کی تاریخ میں کوئی اتنا بڑا عرصہ شمار  نہیں ہوتا، اگر عربی و فارسی زبان سمیت آپ دوسری زبانوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے اردو زبان سیرت نگاری میں دنیا کی تمام زبانوں سے آگے ہے، جو اس کے بولنے والوں کے  لئے  بڑے شرف کی بات ہے، اس عرصے میں جن بزرگوں نے اس زبان کو علم وادب کی دنیا میں اتنی بلندی تک لے جانے کے لئے اپنی عمریں صرف کیں ۔تو سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا عمومی انداز سے ان کے کاموں پر صرف  چند جملوں میں فخریہ کلمات کہنا  کیوں کر کافی ہوگا؟۔ اور دوچار کتابوں کا تذکرہ کرنے سے ان کا حق کیسے  ادا ہوگا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب نے ان سیرت نگاروں سےاحسان مندی کے ثبوت میں برسوں کی محنت سے اردو میں کتابیات سیرت کا جامع ترین اشاریہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے، جس پر وہ تمام اردو داں اہل قلم و قارئین کے شکرئیے کےمستحق ہیں۔

اردو میں اشاریہ سازی کوئی نئی  بات نہیں ہے، اس روایت کا آغاز سر عبد القادر کے مجلے مخزن سے ۱۹۰۶ء میں آغاز ہوا تھا، پھر زمانہ کانپور ، الہلال کلکتہ اور معارف اعظم گڑھ سے ہوتے ہوئے یہ روایت اردو میں بہت مستحکم ہوگئی، لاہور سے جناب محمد شاہد حنیف کا (۵۴) مجلات کا اشاریہ جو ایک لاکھ پندرہ ہزار تراسی(۱۱۵۸۳) عناوین پر مشتمل ہے اس صنف کا نقطہ عروج ہے۔

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب کا تیار کردہ اشاریہ اردو دنیا میں کوئی نیا کام نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی ایک اشارئیے اس نوعیت کے شائع ہوکر اہل علم سے دادو تحسین لے چکے ہیں۔ لیکن ان ضخیم سے ضخیم اشاریوں میں اندراجات کبھی تین ساڑھے تین ہزار سے زائد کتب سے آگے نہ بڑھ سکے۔اب  جو اشاریہ اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ ان اشاریوں سے کئی گنا بڑا ہے، اس کی دو جلدوں میں دس ہزار پیتالیس (۱۰۰۴۵) کتابوں کا اندراج ہے، جو گذشتہ تیار شدہ اشاریوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

مرتب  نے اپنے اس اشارئے میں صرف مطبوع کتابوں ہی کا احاطہ کیا ہے،اتنی محنت اور جفاکشی کے باوجود مرتب کا کہنا ہے کہ " پاکستان سے باہر دنیائے اردو کے کام سے ہماری کم واقفیت اور نارسائی ہے ، اس لیے اس قدر اہتمام کے باوجود ہم گزارش کریں گے کہ اس فہرست کے نام ” جامع اردو کتابیات سیرت " میں "جامع" کو محض اسم تصور کیجیے" ۔

اس اشارئے کی تیاری میں مرتب نے پاکستان کے نو(۹) اہم کتب خانے اور لائبریریاں چھان ماری ہیں، اور سیرت کے موضوع پرسترہ(۱۷) اشاریوں کا ورق در ورق کھولا ہے۔

مرتب نے براہ راست  سیرت کے موضوع سے تعلق رکھنے والے مواد کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل مواد کو بھی  اس اشارئیے میں شامل کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

۔ اہل بیت اطہار کے حوالے سے موجود کتب کے نام جس قدر بھی فہرستوں میں موجود تھے، انہیں شامل کیا گیا ہے کیوںکہ آل و اولاد سیرت کا ایک اہم عنوان ہے۔

۔ سیرت نگاری کے حوالے سے تحریر ہونے والی کتب بھی اس فہرست کا حصہ بنی ہیں۔ ان میں کتب سیرت کی مطبوع فہرستیں بھی شامل ہیں۔ نیز ان میں شخصی حوالے سے جائزے بھی شامل ہیں، یعنی کسی ایک شخصیت کی سیرتی خدمات کا جائزہ۔

۔ حرمین کے سفر نامے بھی اس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں اور انہیں سیرت ہی کا ایک موضوع تصور کیا گیاہے۔ لیکن اس کے تحت عازمین حج کی رہ نمائی کے لیے تحریر ہونے والی کتب اور کتا بچے شامل نہیں ہیں۔

۔کہنا چاہئے کہ اس اشارئیے نےاردو داں  اہل علم اور محبان رسول اکرم کی ذمہ داریاں بہت بڑھا دی ہیں۔  یہ مصنف کے لئے بڑی خوش بختی کی بات ہے کہ آپ خود  سیرت النبی کے موضوع پر ایک جامع اور نادر کتب خانہ رکھتے ہیں،ان شاء اللہ  اگر جد وجہد کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر آپ کا کتب خانہ اپنے موضوع پر سیرت النبی سے مختص عظیم ترین کتب خانوں میں سے ایک ہوگا ، اس کے ساتھ یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ اگر کتابیں دستیاب نہ ہوں تو پھر اشاریہ کتابوں کے ناموں کی صرف ایک فہرست بن کر رہ جاتا ے، لیکن اس کے ساتھ کتابیں بھی فراہم ہوجائیں تو پھر ہمہ خرما ہمہ ثواب کی مانند ہے، اس سے اشاریہ کی افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ چند سال قبل تک شاید یہ کام مشکل  محسوس ہورہا تھا ، لیکن آج کے ڈیجیٹل دور میں ایسا کوئی کتب خانہ بنانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے، جس میں اردو میں سیرت پر لکھی گئی  اسکین شدہ کتابیں محفوظ کی جائیں، اس کے بعد ایک اہم کام باقی رہتا ہے الف بائی ترتیب پران کتابوں کا  موضوعاتی اشاریہ،  اگر اس کی نیو  ابھی سے ڈالی جائے، اور اس کے لئے اسکالرز کو مشغول کیا جائے، تو اس سے اتنا تو فائدہ ہوگا کہ کسی متعینہ مقصد وہدف کے ساتھ کتابیں ان کے مطالعے میں آجائیں گی، ورنہ بلاکسی ہدف کے کتابوں کا مطالعہ زیادہ فائدہ مند نہیں  ہوا کرتا۔ ہمیں امید ہے کہ اس اشارئے کے بعد ان دو اہم منصوبوں کے بارے میں بھی  سوچا جاسکے گا۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ بابرکت کام پورا ہونے کے لئے صرف ارادے اور ایک علمی منصوبے کی دیر ہے،اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان منصوبوں کی تکمیل پر کتنے سال لگتے ہیں، منصوبہ پورا کرنے کے لئے ایک سے زیادہ نسلوں کو کام کرنا  بھی پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ زوار اکیڈمی کی اس انمول پیش کش پر دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔

2024-08-16