Urdu May seeratun Nabi ka Index (01)
نام کتاب: جامع اردو کتابیات سیرت
مرتب: ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
ناشر: ایوان سیرت
زوار اکیڈمی پبلیکیشنز ۔ اے۔ ۱۸/۴، ناظم آباد نمبر ۴، کراچی ۔ ۳۶۰۰ ۷ فون : ۳۶۶۸۴۷۹۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر کے ایک چوٹی کے محقق ودانشور نے اردو میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ " عرب ممالک میں سیرت النبی پر یقینا بہت قابل ذکر کام ہوا ہے۔ درجنوں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ لیکن یہ بات میں پھر دہراؤں گا کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے وہ کام کم از کم میری ناچیز رائے میں برصغیر میں ہونے والے کام کے برابر نہیں ہے۔ جتنی جدت اور تنوع یہاں کے کام میں ہے اتنی جدت اور تنوع وہاں نہیں ہے۔(ڈاکٹر محمود احمد غازی، محاضرات سیرت ص: ۶۸۶)
ڈاکٹر غازی مرحوم کی یہ رائے حقیقت اور گہرے مشاہدے پر مبنی ہے۔ لیکن یہ بات کتنے تعجب کی ہے کہ برصغیر میں اسلام کو داخل ہوئے چودہ سو سال کا عرصہ گذرگیا ،لیکن یہاں پر خاص طور پر شمالی ہند میں سیرت النبی ﷺ پر پہلی کتاب اسلام کی آمد کے ایک ہزار سال بعد یعنی آج سے کوئی ساڑھے تین سو سال قبل فارسی زبان میں لکھی گئی۔
جب ہم بر صغیر کی اسلامی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو اسے علمی اور فکری اعتبار سے دور جدید کو نکالنے کے بعد، تین حصوں یا ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ یہ تین حصے وہ ہیں جن میں سے پہلا حصہ دور سندھ کو قرار دیا جا سکتا ہے جب مسلمانوں نے سندھ میں دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ پھر محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ کا بڑا حصہ فتح ہوا اور موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی ۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں کے مسلمانوں کے علمی روابط دنیائے عرب کے بڑے بڑے علمی مراکز ، مکہ مکرمہ، مدینه منوره ، بغداد، دمشق ، کوفہ اور بصرہ سے قائم تھے۔ یہاں کے اہل علم وہاں جاتے تھے اور وہاں کے اہل علم یہاں آتے تھے۔ عربی زبان بر صغیر یعنی سندھ اور موجودہ پنجاب، صوبہ سرحد اور بلوچستان کی علمی زبان تھی۔ یہاں جو لوگ لکھ رہے تھے وہ عربی میں لکھ رہے تھے ۔ کچھ کام فارسی میں ہو رہا تھا۔ اس دور میں یہاں کے سیرت نگاروں میں کئی نام نمایاں طور پر سامنے آئے جن میں سے ایک نام ابو معشر نجیح السندی کا ہے جو سندھ کے رہنے والے تھے۔ ان میں ایک دوسرا نام امام اہل الشام عبد الرحمن الاوزاعی کا ہے ، جن کا سیرت کے اس شعبہ یا علم کے باب میں نمایاں کام تھا جس کا تعلق جنگ اور مغازی سے تھا۔
جب سندھ کا دور ختم ہو گیا اور محمود غزنوی کے حملوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے سیاسی اور انتظامی روابط افغانستان اور وسط ایشیا سے قائم ہو گئے تو برصغیر کی علمی اور فکری تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوا۔ اس دور میں یہاں کے مسلمانوں اور حکمرانوں کے سیاسی روابط عرب دنیا سے پہلے کمزور ہوئے اور پھر ہوتے ہوتے بالکل ہی کٹ گئے ۔۔۔اس کے باجود سندھ کے بعض علاقوں اور خاص طور پر ٹھٹہ میں اور ہندوستان کے مغربی صوبہ گجرات میں عرب دنیا میں جا کر کسب فیض کرنے کی روایت قائم رہی۔۔۔لیکن ان علمی کاموں سے پورا ہندوستان ناواقف رہا، کیونکہ ابو معشر نجیح سندی، اور امام اوزاعی کے علمی کام برصغیر سے باہر عرب دنیا میں معروف ہوئے، ٹھٹھہ اور سندھ کے علماء کی کتابیں بھی حرمین شریف اور عرب دنیا میں متعارف رہیں، کیونکہ ہندوستان کے دیگر علاقوں سے انکا ربط نہ ہونے کے برابر تھا۔
اس کے بعد قطب الدین ایبک نے دہلی میں ایک خود مختار حکومت قائم کی ۔ وہاں ایک نیا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سامنے آیا ۔ یہ نظام اور نصاب افغانستان اور وسطی ایشیا کی روایات سے مستفید تھا۔ اس نصاب کی جو تفصیلات ملتی ہیں ان میں یہ بات بڑی حیرت انگیز اور افسوس ناک ہے کہ اس نصاب میں نہ صرف سیرت پر کوئی کتاب شامل نہیں تھی بلکہ علم حدیث اور علوم نبوت کا حصہ بھی اس میں بہت کم بلکہ برائے نام تھا۔ تفسیر قرآن کا حصہ بھی بہت کم تھا اور علوم نبوت کا حصہ بھی بہت کم ۔ حدیث پر ایک آدھ اور جزوی کتاب کے علاوہ جو علم حدیث کے ذخائر میں قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی تھی ،علم حدیث کا مطالعہ براہ راست اور علوم حدیث میں تخصص اس نصاب کا حصہ نہیں تھا۔(محاضرات سیرت ۵۹۲ )
شمالی ہند میں پہلی بار علم حدیث اور علم سیرت کو متعارف کرنے کا سہرا گیارہویں صدی ہجری کے شیخ عبد الحق محدث دہلوی (وفات ۱۰۵۲ھ/۱۶۴۲م) کو جاتا ہے، آپ نے شمالی ہندوستان میں پہلی بار علم حدیث اور علم سیرت کو متعارف کرایا اور اس طرح متعارف کرایا کہ اگر ان کو ہندوستان میں علم سیرت کا جد امجد قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ حضرت شیخ عبد الحق برصغیر اور شمالی ہندوستان کے پہلے سیرت نگار ہیں۔
مغلیہ دور کے آخری دنوں میں جب بول چال میں اردو کا رواج ہونے لگا، تو پھر دوسری زبانوں کی طرح اس میں پہلے شعری ادب اور نظمیں تخلیق پاتی رہیں،جس میں میلاد کا لٹریچر شامل ہے، لیکن ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے دنوں میں ہمارے بعض علماء کو خیال آیا کہ میلاد کے لٹریچر کے علاوہ اردو نثر میں بھی سیرت پر کتابیں آنی چاہئیں۔ اور س سلسلے میں اردو نثر میں سیرت النبی ﷺ کی جو پہلی کتاب منظر عام پر آئی وہ قاضی بد الدولۃ مولانا محمد صبغۃ اللہ مدراسی نائطی کی فوائد بدریہ تھی، مطبعہ نجیبیہ مدراس سے ۱۲۶۳ھ/ ۱۸۴۶ء میں (۳۷۹) صفحات پر یہ کتاب شائع ہوئی، مصنف کا تعلق جنوبی ہند کے قدیم ترین نوائط علمی گھرانے سے تھا جس میں (۲۲)پشتوں سے منصب قضاء چل رہا تھا، اور یہ خانوادہ ارض حرمین سے قلمی کتابوں کے ذخیروں کی خریداری اور درآمد میں ممتاز تھا، اور جس کا شمار برصغیر کے سب سے بڑے علمی ذخیروں میں ہوتا تھا۔ قاضی بدرالدوله خود بہت بڑے فقیہ تھے۔ ریاست کرناٹک کے قاضی القضاۃ تھے ۔ مستند ترین مصادر سے کام لے کر انہوں نے کتاب لکھی ہے۔اس زمانے میں زاد المعاد، فتح الباری، عیون الاثر اور المواہب اللہ نیہ جیسی بڑی کتابیں ان کے سامنے تھیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان میں لکھی گئی یہ کتاب سب سے پہلی مستند کتاب سیرت ہے۔ فارسی میں برصغیر میں سیرت پر پہلی کتاب شیخ عبد الحق نے لکھی تھی۔ اردو میں قاضی بدر الدولہ نے لکھی۔۔۔
قاضی بدرالدولہ کی اس کتاب کے علاوہ جو کتاب عین 1857 ء اور 1858ء کے معرکہ میں شریک عالم مجاہد کے قلم سے ۱۸۵۸ اور ۱۸۵۹ کے سالوں میں لکھی گئی وہ ایک مشہور مجاہد ، فقیہ اور عالم مفتی عنایت اله کا کوروی کی لکھی ہوئی تھی۔ مفتی عنایت احمد کا کوروی شمالی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کاکوری کے باشندے تھے ۔ مفتی عنایت احمد 1857 کی جنگ آزادی میں شریک تھے۔ پہلی مرتبہ جہاد کے وجوب کا فتوی جن لوگوں نے دیا ان میں مفتی عنایت احمد کا کوروی بھی شامل ہیں اور جہاد کے اس تاریخی فتوی پر ان کے دستخط بھی ہیں ۔ انہوں نے فتوی بھی دیا۔ رائے عامہ کو بھی ہموار کیا اور عملاً جہاد میں حصہ بھی لیا۔ چنانچہ جب انگریزوں کو کامیابی ہوئی اور مجاہدین کو شکست ہوئی تو بہت سے لوگوں کو سزائے موت دی گئی۔ کچھ لوگوں کو کالا پانی جزائر انڈیمان بھیج دیا گیا۔ مفتی عنایت احمد کا کوردی بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کو جزائر انڈیمان بھیج دیا گیا تھا۔ مفتی عنایت احمد کا کوروی بڑے عالم فاضل انسان تھے۔ لیکن جزائر انڈیمان میں قید با مشقت کے دوران جو کام ان کے سپرد کیا گیا وہ یہ تھا کہ جزائر میں جتنی گندگی لوگوں کے گھروں میں جمع ہو اس کو اٹھا کر آبادی سے باہر پھینکا کریں۔ اُس زمانے میں غسل خانوں وغیرہ کا ایسا نظام نہیں تھا۔ مفتی صاحب لوگوں کے گھروں میں جا کر گندگی صاف کرتے اور اس کو ایک بڑے ٹوکرے میں ڈال کر کندھے پر اٹھاتے اور آبادی سے باہر پھینک آتے ،ظاہر ہے اس زمانے میں ان کے پاس نہ وقت ہوتا تھا نہ مطالعہ کے مواقع اور نہ ہی مصادر اور مآخذ کی کتا ہیں۔ اس کے باوجود اس تکلیف دہ اسیری میں انہوں نے تین کتابیں لکھیں۔ ان میں سے ایک کتاب سیرت پر ہے۔ یہ کتاب تواریخ حبیب الہ کے تاریخی نام سے معروف ہے۔ یہ ساری کتاب انہوں نے جزائر انڈیمان میں بیٹھ کر محض یادداشت کی بنیاد پر لکھی تھی ۔ انہوں نے سوچا کہ جب تک ان معلومات کو دوبارہ چیک نہ کیا جائے اس کتاب کو شائع کرنا ٹھیک نہیں۔ اس لئے مسودہ اپنے پاس رکھ چھوڑا۔ اتفاق کی بات کہ ان کی ملاقات کسی شریف انگریز سے ہو گئی۔ یہ انگریز ان کے علم وفضل سے بہت متاثر ہوا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ مولانا سابق قاضی اور جج رہے ہیں اور یہاں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں تو اس نے سفارش کر کے مفتی صاحب کو رہائی دلائی۔ مفتی صاحب تینوں مسودے لے کر ہندوستان واپس آئے۔ یہاں انہوں نے تو اریخ حبیب الہ کے مندرجات کو مصادر و ماخذ سے چیک کیا اور کہیں ایک حوالہ بھی غلط نہیں پایا تو اس کو شائع کر دیا۔تواریخ حبیب الہ ، مطبع نامہ منشی نول کشور لکھنو سے سنہ ۱۸۷۱ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ ( جاری)