سوچنے کی بات

Bhatkallys

Published in - Other

04:05PM Fri 6 Mar, 2015
از: سیف آکرمی بھٹکل درد کہیں رشتوں میں بٹ جاتاہے۔کبھی ماں کے دل میں سما جاتا ہے بچون کے لئے پیار کا’’ لاوا‘‘ بن کر،کبھی باپ کے شفقت بنکر بچوں کے خون میں گردش کرتا ہے جس کے اُس کا بچپن ،جوانی تک سیراب ہوتی ہے۔مزید اُس کی پرورش اور نشوؤنما کے لئے اندھا بنکر غلط کام تک کر بٹیھتا ہے۔اپنی پدرانہ شفقت کے بھنور میں کھو جاتاہے۔حالانکہ اُسے ایسا نہیں کرناچاہیے مگرپھر بھی وہ کر جاتاہے۔درد محبت کا ترجمان ہے جو آنکھوں سے دل میں اُتر کر دل میں گھر کرنے لگتا ہے اور وہاں سے پرورش پاکراشعار کی شکل میں لوگوں کے دل میں بسے درد کی ترجمانی کرتاہے پھر اپنے درد کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔جس کی مثالیں آج کے دور میں بھی ملتی ہیں،مثلاً اسلام طرز وفکرکے شعراء حفیظ میرٹھی،علامہ اقبال،سیماب،حالی وغیرہ یہ سارے ملت کے اساس اور انمول د ردکے حوالے ہیں۔اصل درد، دردانسانیت کا ہے جو نبی کریمﷺ نے ہمیں دیا ہے ۔ یہی درد آج کی سُلگتی انسانیت کوبچانے اورپھر اُسے اخلاقی سانچے میں ڈھال کرسنوارنے کا ہے بھٹکے ہوئے آہوں کو واپس گھر لانے کا ہے جو آدم علیہ سلام کے بعد سے بھولے ہوئے ہیں۔جن کو راہ راست دکھانے کے لئے کی انبیاء آئے ور پھر آخر میں نبی کریمﷺ نے اپنی رسالت کے ذریعے لوگوں کی ایک تحریک دی فی الحقیقت یہی درد کی اصل پہچان ہے۔’درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو‘۔ہمارا نصب العین وہی ہے جو محمدﷺ کا ہے۔دنیانے مختلف لوگوں نے جو تحریکیں اپنائیں وہ اُس کی با زیابی کے لئے سر دھڑ کے نذرانے پیش کئے مگر وہ سب اُن کے ساتھ ہی فنا ہوگئی یا کچھ دنوں کے زندہ رہیں اور پھر دم توڑ گئی۔ہماری تحریک قیامت تک کے لئے ہے۔یہ آنحضرت ﷺ کا مشن ہے یعنی اُمت کی تحریک ہے نہ دبنے والی ہے نہ مٹنے والی یہ زندہ تحریک ہے تا قیامت زندہ رہے گی۔پھر اُمت مسلمہ میں خلفشار کیوں ہے؟تنگ دامانی کیوں ہے؟ جہاں سے علم کے دھارے اُبلنے چاہیئے تھے وہیں سے انتشار اختلاف،بد گمانیاں،الزام تراشیاں کیوں ظاہر ہو رہی ہیں۔ بنیان مرصوص کا درس مٹتا جارہا ہے۔ہم خود اپنے حال پر نظر کیوں نہیں کرتے؟ دوسروں پر جابجا تنقیدیں کیوں کر رہے ہیں ہمیں کسی کے ٹوپی نہ پہنے پر اعتراض ہے۔کسی کے لباس پر ناراضی ہے۔اللہ کے نبی ﷺ نے کوئی یونیفارم نہیں بنایا ہے۔ یہ سنت ہے لازم یہی پہینو! تو پھر آپ کو کیا اعتراض وہ سکتا ہے؟جو سنّتیں اللہ کے رسول سے ملی ہیں ہم اُس پر عمل پیرا ہوتے تو آج ذلیل وخوار نہیں ہوتے۔ہم فروعی اسباب کو اہمیت دے رہے ہیں اورجزوی اسباب کو اختیار کئے ہوئے ہیں جن چیزوں کے نہ کرنے سے گناہ و ثواب کا کوئی معاملہ نہیں اُن پر کیوں اُلجھنا!یہی بات خود سمجھ کردوسروں کو سمجھانا ہے تاکہ دین حنیف کی خدمت میں سب ہم دوش ساتھ ساتھ چلیں۔ہم وقتی طورپر ہی سہی اس روش پر چل کر تو دیکھیں تو احساس ہوگا کہ ہم کیا ہیں اور کس حد تک ہم اپنی ملت کو مضبوط پلیٹ فارم فراہم کر سکتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کس طرح سے ایسے مضر اثرات سے ملت کا تحفظ کیا جاے۔اکابرین کو خاص کر ملت کے نوجوانوں کوایسی سچی تربیت دینی ہوگی اُن کے ذہو ں کوتبدیل کرنا ہوگا۔کبھی ایسے حالت پیدا ہی نہ ہوں کے اندرون ملت یا سماج میں تعمیری کام کے بجائے تخریب کا باعث بنے۔ایسی سوچ کو تبلیغ کی ضرورت ہے۔