Teri Yad Aai Teray janay kay baad . Yaseen Mohtisham

آج مورخہ یکم اگست ۲۰۲۵ء علی الصبح خبر آئی کہ یاسین محتشم صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، انہیں لو شوگر ہوگیا تھا، جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے،اور ٓنا فانا اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کی عمر (۴۳) سال تھی۔ ایک ایسی عمر جس میں انسان ایک منزل پر آکر ٹہر جاتا ہے، اور مستقبل کے نقشوں میں رنگ بھرنے لگتا ہے، وہ اپنے اور اہل وعیال کے روشن مستقبل کے منصوبے بناتا ہے، اور اپنی زندگی کے ایک متعین نصب العین کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ لیکن جب داعی اجل آتا ہے تمام ارادےاور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، نظیر اکبرآبادی نے اس کی کیا خوب منظر کشی کی ہے۔
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گونیں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
مرحوم سے ہمارے زیادہ گہرے روابط نہ ہوسکے، آپس کی عمروں میں ربع صدی کا تفاوت جو تھا، وہ ہمارے ہی محلے میں ٹیویش سنٹر چلاتے تھے،جسے کافی سال قبل ایک مرتبہ دیکھنے کا موقعہ ملا تھا، اور جب سے سیڑھیاں چڑھنے میں پیر کچھ سستی دکھانے لگے تو اس طرف دوبارہ جانا نصیب نہیں ہوا۔ چونکہ ٹیویشن کلاسس کی ہمارے معاشرے میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ،یہ کمزور اور فیل ہونے والے طلبہ کے لئے مخصوص ہوتے ہیں، لہذا تعلیمی نقطہ نظر سے ان پر زیادہ نظر نہیں جاتی، نہ ہی ٹیوٹر کو معاشرے میں کوئی اہم مقام دیا جاتا ہے۔ اسے چلانے والوں کی روزی روٹی ایک ذریعہ سمجھ کر چھوڑدیا جاتا ہے، علاوہ ازیں ہماری نفسیات اداروں میں اہم منصبوں پر فائز شخصیات ہی توجہ اور اہمیت کی مستحق سمجھتی ہیں، ہم جیسے لوگ جو نہ کسی عہدے پر فائز ہیں، نہ ہی اسٹیج کی زینت بنتے ہیں، ان کے سوشل میڈیا پر نہ فوٹو گھومتے ہیں، ان میں کوئی جاذبیت محسوس نہیں کی جاتی۔
لیکن آج جب آپ کی رحلت کی خبر آئی تو دل بہت دکھی ہوا، خاص طور پر اس لئے بھی کہ آئند ہ وطن کے سفر میں مرحوم سے خصوصی ملاقات کی خواہش دل میں پنہاں تھیں، ان کے جو اوصاف حمیدہ ہمارے سامنے آگئے تھے، جنہوں نے آپ کی عزت واحترام دل میں جاگزیں کردیا تھا۔
یہ ہمارے لئے بڑے حیرت کی بات تھی کہ آپ کا ٹیویشن سنٹر صرف فیل ہونے والے اور کمزور طلبہ کو میٹرک اور پی یوسی میں کامیابی دلانے کے نام پر روپئے اینٹھنے کا مرکز نہیں تھا، بلکہ یہ نونہالوں کی ذہن سازی، اوران کے کیریر کو سدھارنے کا بھی مرکز تھا، مرحوم نئی نسل کے تئیں بڑا درد رکھتے تھے، اور ٹیویشن کا یہ پروفیشن آپ نے نونہالان قوم کو مایوسیوں سے بلند ہوکر تعلیم وتربیت کے میدانوں میں کامیابوں کی معراج تک پہنچانے کے لئے اختیار کیا تھا، بے تحاشا ہمیں عثمان حسن جوباپو ہیڈ ماسٹر مرحوم یاد آگئے، جنہوں نے اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے ۱۹۷۷ء میں (۴۸) سال کی عمر میں اپنی جان جان آفرینی کے سپرد کی تھی، وہ بھی نونہالان بھٹکل کی تعلیم کے لئے دل میں بڑا درد رکھتے تھے، اور میٹرک مکمل کروانے کے لئے ان کے بڑے جتن کیا کرتے تھے۔
ایک ایسے سماج میں جہاں اب روپیوں پیسوں کی ریل پیل جاری ہو، اور قوم کے رہنما ان کی توجہات شہرت اور پبلیسٹی کی طرف موڑ رہے ہوں، اور اس کے لئے لاکھوں روپئے ایک رات میں پھونک دئے جارہے ہوں، ایسے ماحول میں کوئی تعلیمی میدانوں میں قوم کے نونہالوں کو آگے بڑھانے کے لئے پس پردہ اور خاموشی سے اپنا خون جلارہا ہو تو اس سے بڑا کون قوم کا ہمدر د اورمحسن ہوسکتا ہے۔ ان کی وفات کی خبر کے بعد مسلسل سننے میں آرہا ہے کہ واقعی انہوں نے قوم کے نونہالوں کا کیریر بنانے اور آئندہ زندگی میں کامیاب بنانے کے لئے کتنی کوششیں کی تھیں۔
خود ہمارے سامنے اس کی ایک مثال موجودہے، اس بچی کو میں جانتا ہوں، وہ اپنی بہن کے ساتھ بچپن سے اسکول جاتی تھی، چونکہ اسے بچپن سے رٹنے کی عادت نہیں تھی، بلکہ وہ اپنی سمجھ بوجھ سے اسباق و آموختہ پڑھتی آئی تھی تو اس کے نمبرات (۶۰) فیصد سے آگے نہیں بڑھ پاتے تھے، نویں جماعت ختم ہونے پراس کے اسکول پرنسپل نے اس سے کہا کہ تمہیں اب یہ اسکول چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ اب ہمارے یہاں کا نصاب تعلیم بدل گیا ہے اور تعلیمی معیار بلند ہوگیا ہے، اس صورت حال میں تمہارا کامیاب ہونا مشکل ہے، اور ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے میٹرک کا رزلٹ سو فیصد سے کم ہو، اس نوخیز عمر میں جس اسکول میں الف باء سے اس نے تعلیم پائی تھی اس طرح نکلنے پر مجبور کیا جائے، اور اسکی سایہ کی طرح رہنے والی بہن کو اس سے جدا کردیا جائے تو اس کا نفسیات پر کیا اثر پڑے گا۔ اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
مروت کے مارے والدین نے مجبور ہوکر اپنی بچی کو اسکول سے نکال کردوسرے اسکول میں داخل کردیا، جب میٹرک کے فائنل امتحان کا وقت آیا تو اس دوسرے اسکول میں بھی کہا گیا کہ آپ کی بچی دوسرے اسکول میں کمزور تھی، تو یہاں بھی اس کے فیل ہونے کی صورت میں خطرہ ہے کہ ہمارے اسکول کا نتیجہ بھی سو فیصد نہ ہو، لہذا بچی کا میٹرک امتحان پرائیوٹ طور پر بھٹکل سے باہر ہناور یا کاروار میں جاکر دینا ہوگا، اس وقت والدین کو معلوم ہوا کہ بھٹکل کے زیادہ تر پرائیوٹ اسکول میٹرک کے سو فیصد نتائج حاصل کرنے کے لئے بچوں پر جبر کرکے کمزور نظر آنے والے بچوں کا نام اسکول سے خارج کرتے ہیں اور دسویں جماعت کے صرف ہوشیار بچوں کا نام ہی اکزامینیشن سنٹر کو بھیجتے ہیں، اور بقیہ کو پرائیوٹ امتحان کے چکر میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ اس اسکول کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا، اور بچی نے میٹرک میں ساٹھ سے زیادہ نمبر ات سے کامیابی حاصل کی، اور پھر پی یوسی اورکالج میں اس کے نمبرات میں مسلسل ترقی ہوتی رہی، اللہ تعالی نے اس میں مطالعہ کے ذوق کو فروغ دیا، اور جہاں اس عمر کی بچیاں رومانوی ناولوں اور موبائل پر اپنے زیادہ تر لمحات گذارتی ہیں، اس نے شعر وادب اور تنقید ونفسیات کے سنجیدہ مطالعہ میں گہری دلچسپی لی، اور ایک صبح اچانک معلوم ہوا کہ اس کی ڈائری سے اس لکھی ہوئی انگریزی نظمیں جھانک رہی ہیں۔ اور منظر عام پر آنے کے لئے تڑپ رہی ہیں۔
بچی کےوالد آج جب مرحوم کا جسد خاکی قبر میں اتارا جارہا تو ہمیں بتا رہے تھے کہ زندگی کے حساس ترین موڑ پر جن افراد نے ہمت دلائی اور صحیح رہنمائی کی ان میں مرحوم یسین محتشم سر فہرست تھے، وہ مسلسل انہیں دلا سا دیتے رہے اور کہتے رہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں، جو ہوا اس پر نہ سوچیں، بچی کے آئندہ کے لئے غور کریں، اس بچی کا مستقبل روشن ہے۔
مرحوم کے دل میں قوم کے نونہالوں کے لئے بہت درد تھا، وہ ان کی تعلیمی ضرورتوں کو ہر ممکن طور پر پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے، ان کی آمدنی تو محدود تھی،اس کے لئے وہ اہل خیر کو متوجہ کرتے تھے۔
ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر کئی ایک مقامی اداروں نے انہیں اپنی انتظامیہ میں شامل کرنے اور انہیں کچھ ذمہ داریاں سونپنے کی کوششیں کیں، لیکن انہوں نے اداروں کی سیاست میں پڑنے کے بجائے بچوں کی تعلیم ہی میں مصروف رہنے کے لئے خود کو فارغ کرنے کو فوقیت دی۔ آخری دنوں میں وہ قومی ادارے انجمن حامی مسلمین بھٹکل سے مکمل طور پر منسلک ہوگئے تھے۔ اور طلبہ ان سے بہت مانوس ہوگئے تھے۔
مرحوم نے اپنے پیچھے تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں، جس طرح انہوں نے قوم کی نسلوں کے بہتر مستقبل کی فکر کی تھی،اللہ تعالی ان کے روشن مستقبل کے لئے بھی اسباب فراہم کرے، ممکن ہے ایسے افراد اور بھی ہماری قوم میں موجود ہوں، لیکن اس وقت ہمارے سامنے جو ہیرا تھا وہ ٹوٹ چکا ہے، قوم کو ایسے کئی سارے شہرت سے بلند ہوکر مخلصانہ اور پروفیشنل تعلیمی وتربیتی خدمات انجام دینے والوں کی ضرورت ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ