Tahzib Kay Badaltay Rang

زیادہ نہیں آج سے چند ہی سال اُدھر،کوئی بے ادب اور گستاخ اگریہ کہہ دیتا کہ آپ فلاں بھانڈ کے طائفہ میں شامل ہیں تو وہ کہنے والا، آپ ہاتھوں پٹنے سے بچ سکتاتھا؟ اس سے بڑھ کر گالی کسی شریف کے لئے ہوکیا سکتی تھی؟ گالی کا جواب آپ گالی سے دیتے، اور اس پر طبیعت بس نہ کرتی، تو زبان کا جواب ہاتھ سے! عزت کے معنی ہی یہ تھے، شرافت کا تقاضا ہی یہ تھا ……لیکن آج؟ کیا آج بھی یہ کوئی گالی ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے، آپ نے دیکھا زمانہ کہاں سے کہاں پہونچ گیا!’’ایکٹر فلم ایکٹر‘‘ آج کون ہیں یہ؟ ’’ایکٹرس اور فلم ایکٹرس‘‘ بننا آج کس سوسائٹی میں کوئی سنگین جرم رہ گیاہے؟ کسی فلم کمپنی میں شرکت اب بھی کوئی معصیت ہے، فلمی رسالے آج کس تعلیم یافتہ کی میز پر نہیں ہوتے؟ صنعت، فلم سازی، پر مضمون نگاری اور مقالہ طرازی، آج کہیں بھی، شرافت کے علم کے، سنجیدگی کے منافی رہ گیاہے۔؟
آنکھوں نے وہ درمیانی دور بھی دیکھاہے، جب کوئی نوجوان، صاحب کے لائے ہوئے اور پھیلائے ہوئے ’’تھیٹر‘‘ میں جاتے بھی تو کس طرح؟ شرمائے ہوئے اور لجائے ہوئے۔ دل الگ چور، منہ الگ چرائے ہوئے۔ گویا …تھیٹر دیکھنے نہیں، کہیں نقب لگانے جارہے ہیں! باپ چچا نے کبھی پوچھ گچھ کی بھی، تو جھوٹ بول دینا قبول لیکن اس کا اقرار کرنا نہیں قبول!۔ مہینے اور سال، منٹوں اور گھنٹوں کی رفتار سے طے ہوکررہے، اور وقت وہ آن لگا، کہ اسی ہندوستان کے اندر بڑ ے بڑے عالی خاندان اور والا دودمان صاحبزادے، اپنے اسکول کے استادوں کے ساتھ، اپنے کالج کے پروفیسروں کے ساتھ، اپنے خاندان کے بڑوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں، ایک ہی ’’پکچر پیلیس‘‘ کو ایک ہی ’’ٹاکی‘‘ کو سرفراز فرمانے لگے! اب بلا کسی شرم اور جھجک کے، باپ، بیٹے سے فرماتے ہیں کہ ’’بیٹا مس فلاں کی اداکاری، تم نے دیکھی‘‘؟ اور صاحبزادہ بے تکلف باپ سے عرض کرتے ہیں، کہ قبلہ، فلاں اسٹار کا آرٹ آپ نے ملاحظہ فرمایا؟
بھانڈ بیچارہ تو اب بھی بدستور حقیر وذلیل ہے، لیکن بھانڈ اب بھانڈ رہاکیا؟ اب وہ ’’ایکٹر‘‘ ہے، ’’آرٹسٹ‘‘ ہے۔ طایفہ، کو آج بھی کون معزز کہتاہے، لیکن آج تو طائفہ ، کمپنی بن چکاہے، اور کمپنی ، پرکسی کی مجال ہے، جو نگاہ ’’تحقیر‘‘ ڈال سکے؟ ’’نوٹنکی‘‘ کا نام تو بھلا کہیں پڑھے لکھوں کی محفل میں لے کر دیکھئے، لیکن زبان پر …اور Stageکی اصطلاحات لے آئے اور پھر کہیں گستاخی کے الفاظ کا تخیل بھی دل میں آسکتاہے؟…بھائیوں اور بیٹوں کو چھوڑئیے بہنوں اور بیٹیوں کی خبر لیجئے۔ کل ان کے سایہ پر بھی غیر محرم کی نظرپڑجاتی تو خون کی ندیاں بہہ جاتیں آج خود شوق کے ساتھ مچلی اور آرزوؤں کے ساتھ نکلی جارہی ہیں، کہ للہ کہیں انھیں بھی، گانے والیوں اور ناچنے والیوں کی صف میں جگہ مل جائے! اپنے اسکولوں اور کالجوں کی ، اپنے زنانہ اسکولوں اور کالجوں کی برکت آپ نے دیکھ لی۔