Tabligh kay liay Qurbani
افریقہ، تپتی ہوئی زمین اور جلجلاتے ہوئے آسمان کے لئے مشہور، اپنی آب وہوا، اور تمدن ومعاشرت کے لحاظ سے، یورپ کی ضد ہے۔ جنوبی افریقہ اُس کا یورپ سے بعید ترین حصہ ہے۔ اس علاقہ کے لق ودق ریگستان میں ایک مقام سیلاؔ ہے۔ تہذیب وتمدن سے منزلوں دور، شہر کی آبادیوں کا نہ نام نہ نشان۔ ریل اور تار کیامعنی، بس آٹھویں دن ایک موٹر لاری قریب سے گزرتے دکھائی دیتی ہے، وہی ڈاک لاتی اور لے جاتی ہے۔ بیرونی دنیا سے تعلق قائم رکھنے کا وہی ایک ذریعہ۔ اور یہ لاری بھی اب کچھ روز سے چلی ہے، پہلے مہینوں کے مہینے دنیا سے لاعلمی رہتی تھی۔ افریقہ کی گرمی مشہور ہی ہے۔ اسی مقام پر دوپہر کے وقت گرمی کا پارہ ایک سوبیس درجہ پر !عین اس ویرانہ کے وسط میں……آپ یقین کریں……ایک پختہ عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ یہ کیتھولک مشن کا گرجاہے۔ ایک بوڑھے پادری ، فرانس کے باشندے، یہاں سالہا سال سے مقیم۔ ان کی ماتحتی میں کئی بوڑھی اور ایک جوان، راہب عورتیں۔ ایک مدرسہ۔ جس میں ’’غیر مہذب‘‘ افریقی لڑکوں ’’مہذب‘‘ بن رہے ہیں۔ اور یہ مشن بھی بالکل تنہا اور اکل کھُرانہیں، بیس شاخیں اِرد گِرد قائم !مسیحیت کا بپتسمہ لینے والوں کی تعداد اب تک نوہزار تک پہونچ چکی ہے!
آپ کہیں گے، یہ ممکن کیونکر ہوا؟ ممکن یوں ہوا، کہ فرانس کے رہنے والے، ایک کیتھولک پادری یسمنؔ نے آج سے پچاس سال قبل اس سرزمین پر قدم رکھا۔ ۲۴سال کی عمر۔ امنگوں کے دن۔ لیکن نفس کو مارکر وہیں قیام کا تہیّہ کرلیا۔ کُل چار رفیق ساتھ تھے۔ آہستہ آہستہ سب چلے گئے۔ ایک دیوانہ بھی ہوگیا۔ اب پادری سیمینؔ اس لق ودق ویرانہ میں بالکل تن تنہا پورا ایک سال اس حال میں گزرا، کہ کسی وقت کھانا تو کسی وقت فاقہ! لے دے کے صرف بندوق کا سہارا۔ شکارمل گیا، تو پیٹ میں ڈال لیا، نہیں تو سنّاٹا۔ ذرا اس ہمت اور استقلال کو تو دیکھئے!سال بھر کے بعد کامیابی کی جھلک دُور سے دکھائی دی۔ ایک دوسرے پادری دولفؔ آکر شریک کار ہوئے اور اب ایک سے دو ہوئے۔ گرجا کی عمارت بنانی شروع کی، دونوں آدمی خود ہی معمار، خود ہی مزدور، خود ہی بھشتی، خود ہی مستری۔ کچھ فاصلہ پر ندّی تھی۔ پانی بس وہیں مل سکتاتھا۔اپنے ہاتھ سے اینٹیں پکائیں۔ ۲لاکھ اینٹوں کی ضرورت ہوئی، جس گاڑی پر اینٹیں لاد کر لاتے تھے، اُس پر کُل چارسو اینٹیں ایک وقت میں لد سکتی تھیں۔ پانچ سو چکّر اُس گاڑی کے ہوئے!چونے کے ساڑھے تین سو بورے سوسو میل کے فاصلے سے لانے پڑے! دن اور رات ایک کرکے سات برس کی مدت میں عمارت تیارہوئی!
یہ محض خلاصہ ہے، تفصیل ۱۰؍جون ۳۳ء کے نٹال ایڈورٹائزر(ڈربن) میں شائع ہوئی ہے۔ ہمارے علماء اور مشائخ ، ہمارے واعظین اور مبلّغین ، خبر کو سُن رہے ہیں؟ سنیں گے بھی، تو یقین کتنے کریں گے؟ صحابہؓ نے حق کی تبلیغ کی راہ میں اس سے کہیں بڑھ بڑھ کر مشقتیں اُٹھائیں ، حق کا پھیلا گئے۔ صوفیوں کے سرتاج معین الدین چشتی ؒ نے جان سے ہاتھ دھو ، پُرقوت دشمنوں کے ملک میں آکر قیام کرلیا، جب دنیا سے اُٹھے، تو دارُ الکفر کو کہنا چاہئے کہ دارُ الاسلام بنا چکے تھے۔ آج صحابہ کے جانشینوں اور تصوف کا نام لینے والوں کا، کیا حال ہے؟ پھر اگر نتائج بھی اسی کے مطابق نکل رہے ہوں، تو کسی کو حیرت کیوں ہو؟