Syed Hasan Saqqaf by Abdul Mateen Muniri

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

01:26AM Sun 26 May, 2024

 

ید حسن سقاف۔ بھٹکل کی ایک دانشور اور با اصول شخصیت*

*تحریر: عبد المتین منیری  ( بھٹکل)*

 

 

ابھی عمر عزیز کی ایک صدی پورے ہونے میں  چار سال ہی باقی رہ گئے تھے، باوجود اس کے  آپ با ہوش وحواس ، ہشاش و بشاش نظر آتے تھے، یاد داشت ابھی تک آپ کا ساتھ  دے رہی تھی، اسی ماہ مئی کی گیارہ اور تیرہ تاریخ کوانجمن حامی مسلمین کی مجلس انتظامیہ  کے  اجلاس میں شریک ہوکر اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا تھا، انسان جو امیدیں باندھتا ہے وہ ہمیشہ پوری نہیں ہوتیں،  آج شام مورخہ 23 مئی خبر آئی کہ سید حسن سقاف صاحب اب ہم میں نہیں رہے،اور دنیا کی اس سرائے میں مقرر ہ مدت گذار کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مرحوم بھٹکل کی ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے تھے، جسے بجا طور پر تاریخی کہا جاسکتا ہے، اب اس نسل کے دو چار ہی افراد رہ گئے ہیں، اور جو رہ گئے ہیں ضروری نہیں کہ ان کا سماجی تعلیمی اور اجتماعی شعور اورشرکت  ایسی ہو جیسی مرحوم کی تھی، آپ کی رحلت کے ساتھ بھٹکل کی تعلیمی، سماجی تاریخ کا ایک اہم باب اختتام کو پہنچا، آپ جس تہذیب، تمدن وثقافت اور نسل کی نمائندگی کررہے تھے اب وہ ماضی کا حصہ بن گیا ہے، مرحوم نے ایک اصول پسند زندگی بسر کی،اور تا دم واپسیں اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو خود نبھایا، پیرانہ سالی کے باوجود کسی پر بوجھ بن کر نہیں رہے،  آخر وقت تک اپنا کام خود کرتے رہے، ذاتی کاموں میں کسی کے محتاج نہیں بنے۔،

آپ نے بھٹکل کے ایک معزز خاندان سادات کی شاخ سید محی الدینا (یس۔یم ) میں سنہ 1928ء میں آنکھیں کھولیں تھیں، آپ کے والد ماجد سید عبد الرحمن سقاف کی اولاد کے لئے لقب سقاف ایک مستقل شناخت بن گیا ہے،  حضرمی سادات سے منسوب سقاف خاندان سے اس کا تعلق نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ  جب آپ کے والد ماجد کی جب ولادت ہوئی تھی تو اس زمانے میں بھٹکل میں  حضرمی سادات خاندان سے منسوب ایک بزرگ سید عبد الرحمن سقاف (پیدائش ۱۸۷۰ء  )، کرناٹک کے ایک تاریخی قصبے بانگل سے یہاں کے معززین شہر  کی دعوت پر تشریف لائے تھے، آپ ایک بڑے پائے بزرگ تھے، صوفیانہ اورارد واذکار سے خاص شغف تھا، اور قصبہ کے مسلمان کی بڑی تعداد آپ کی عقیدت مند تھی،  سنہ 1910ء میں بھٹکل میں مدرسہ ستارہ حسنات کے  نام سے پہلے باقاعدہ مدرسے کی جب بنیاد پڑی تھی تو اس وقت کے عمائدین وذمہ داران بھٹکل نے آپ کو اس کی صدارت کے لئے منتخب کیا تھا۔

بھٹکل کے نوائط میں یہ عام رواج رہا ہے کہ جن بزرگان دین سے  ان کی عقیدت ہے، خاص طور پر یمنی نسبت رکھنے والے بزرگان سے تو ان کے خاندانی القاب کو بطور تبرک اپنے بچوں کو رکھا کرتے تھے، اس کی مثال میں آپ کوژیکوڈ میں آسودہ خاک یمنی بزرگ شیخ بن محمد العلوی الجفری علیہ الرحمۃ کا نام لے سکتے ہیں،

بھٹکل میں آپ کی خاندانی نسبت علوی اور جفری بطور نام رائج ہے، اور اس نام کی کئی ساری شخصیات بھٹکل میں پائی جاتی رہی ہیں۔ سید حسن سقاف مرحوم کے والد سید عبد الرحمن سقاف ایک تاجر تھے، اور آپ کی تجارت 1956ء کے آس پاس تک چنئی میں پائی جاتی تھی۔ آپ کے نانا سید علی بن سید فقیہ یس یم  قوم کے ایک دردمند اور بھٹکل میں دینی تعلیم کی ایک محرک شخصیت تھے، 1919ء میں آپ نے مدرسہ اسلامیہ  کے نام سے ایک خالص دینی مدرسہ قائم کیا تھا،آج کے دور میں  آپ کے فرزند محترم سید خلیل الرحمن یس یم اپنی ملی ،تعلیمی وسماجی خدمات کے لئے بڑی عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان حضرات کی قرابت داری معززین شہر اور تاجر خاندانوں یس یم مولانا ، اور شابندری سے رہی  ہے۔ سید حسن مرحوم اسی پس منظر میں پلے بڑھے اور دین سے محبت ان کے رگ وپے میں بس گئی، اور اپنے وقت میں بھٹکل کے اعلی ترین جدید تعلیم یافتہ شخصیت ہونے کے باوجود یہ ان کی شناخت بن گئی۔

آپ نے مکتب کے ابتدائی تین سال گورنمنٹ بورڈ پرائمری اسکول میں گذارے، اس زمانے میں یس یم سید شبیر حسین ماسٹ (مشہور استاد )ر، محمود محمد حبیبا خلفو، عبد القادر معلم  (قوم کے ایک مخلص قائد )، اور شابو ماسٹر یہاں پر تدریس سے وابستہ تھے۔ یہاں سے آپ چنئی منتقل ہوگئے، جہاں آپ کی ثانوی تعلیم مشہور زمانہ گورنمنٹ محمدن اسکول میں مکمل ہوئی، جب جنگ عظیم دوم چھڑگئی، اور چنئی میں زندگی بند ہوگئی، اس دوران آپ نے چند ماہ قاضی محلہ بھٹکل کے مدرسہ صالحہ میں مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمی ( دھاکلو بھاؤ خلفو) کے پاس مکتبی دینی تعلیم پائی۔

یہاں یہ ذکر شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ اسکول میں داخلہ سے پہلے آپ کی والدہ ماجدہ بھٹکل کے مشہور استاد قرآن محمدسکری اکرمی مرحوم  ( محمد سکری خلفو)کے پاس قرآن پڑھنے جایا کرتی تھیں ، یہاں اپنے بچپن کی عمر  میں بھٹکل   سے ازہر شریف سے فراغت کا شرف پانے والے اکلوتے عالم دین شیخ محمد حسین چامنڈی مرحوم آپ کے ساتھ قرآن کے درس میں شریک ہوتے تھے۔

آپ نے مدراس کرسچن کالج تامبرم سے گریجویشن کیا ، اور پھر گورنمنٹ لاء کالج مدراس سے وکالت اور قانون کی  ڈگری  حاصل کی، لیکن وکالت سے آپ کی وابستگی قسمت میں نہیں لکھی تھی، ایک حادثہ کی وجہ سے آپ کو وکالت کے پیشے کو ترک کرنا پڑا، 1964ء میں آپ برطانوی نوآبادی  ہانگ کانگ کے ایک کالج سے  وابستہ ہوئے، یہاں سے آپ نے مکاؤ اور چین کے دس شہروں میں قائم کالجوں اور یونیورسٹیوں کی پروفیسری میں  عمر بڑی عزت سے گذاردی۔ ۲۰۰۵ء تک تقریبا چالیس سال آپ مسلسل اس منصب پر فائز رہے۔ آپ کے برادر نسبتی جناب عبد الرحیم جفری شابندری صاحب جب انگلینڈ سے انجینیرنگ میں ماسٹر ڈگری  ME  

آئے تو آپ نے انہیں ہانگ کانگ بلایا اور انہیں وہاں کی یونیورسٹی میں پروفیسری دلائی، عبد الرحیم صاحب بھٹکل کے پہلے سند یافتہ انجینیر تھے،  آپ کی کتابیں ان مشرق بعید اور دوسرے ملکوں کی باوقار یونیورسٹیوں کے تعلیمی کورس میں شامل تھیں۔

سنا ہے کہ اپنی جوانی میں آپ بڑے پرجوش اور جذباتی ہوا کرتے تھے، ابتدا میں آپ کی اجتماعی اور سماجی زندگی سے زیادہ وابستگی نہیں تھی، لیکن 1955ءء کے بعد جب بھٹکل میں جماعتی اختلافات عروج کو پہنچے، تو حادثاتی طور پر آپ مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین کے توسط سے اجتماعی اور سماجی زندگی میں شامل ہوگئے۔ پھر اپنی قانونی سوجھ بوجھ اور تجربات سے اس جماعت کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں، اور ایک طویل عرصہ تک آپ اس جماعت کے صدر  منتخب ہوتے رہے، پھر اس کے سرپرست بھی رہے،  اس کے بعد اجتماعی زندگی میں اس وقت نظر آئے جب  1968ء میں قومی ادارہ مجلس اصلاح وتنظیم بحران کا شکار ہوا، اور الحاج محی الدین منیری مرحوم کو اس کے احیاء اور نشات ثانیہ کے لئے کنوینر منتخب کیا گیا ، تو منیری صاحب کے زیر سرپرستی اس وقت کے نوجوان پروفیشنلز اور ماہر ین محمد صلاح الدین کوبٹے، سعید حسین دامودی ، محی الدین سعدی مرحوم اور عبد الرحمن محتشم جان کی رفاقت میں حسابات کی جانچ کرنے والی کمیٹی میں آپ بھی شامل ہوگئے، اور اس دوران آپ جب بھی وطن میں رہے تنظیم سے وابستہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں شریک رہے۔مجلس انتظامیہ کی ایک میعاد کے لئے آپ مجلس انتظامیہ کے رکن منتخب ہوئے، مرحوم ایک اصول پسند انسان تھے، اجتماعی زندگی کی اخلاقیات اور اصولوں سے خوب واقف تھے، آپ نے کبھی میز پر ہونے والے اختلاف کو ذاتی اختلاف بننے نہیں دیا ، جب مولانا عبد الباری فکردے مرحوم  نے جامع مسجد بھٹکل کے ممبر ومحراب کو مزین کیا تو آپ جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی اور مولانا کے خطبات کو سننے کے لئے بڑے ذوق وشوق سے آتے رہے، آپ کو مولانا سے دلی محبت تھی، جس کا اظہار وہ بغیر تحفظات کے ہمیشہ کرتے رہے۔

بھٹکل کے اداروں میں انہیں انجمن حامی مسلمین بھٹکل سے خاص لگاؤ تھا، اس ادارے کے معزز سرپرستان کی فہرست میں آپ کا بھی نام شامل تھا، آپ نے انجمن کے بانیاں  محمد میراں صدیق، اور اسماعیل حسن صدیق مرحوم کو دیکھا تھا، چنئی کی تعلیمی اور سماجی شخصیات مولانا عبد الوہاب بخاری، اور ڈاکٹر عبد الحق کرنولی سے ان کی شناسائی تھی۔ سابق ہیڈماسٹر عثمان حسن مرحوم کے زمانے میں آپ کی عادت تھی کہ جب بھی تعطیلات میں وطن آتے تو انجمن اسلامیہ ہائی اسکول میں چپ کے سے  جاکر اساتذہ کی کارکردگی دیکھتے، اور اس کی رپورٹ ہیڈ ماسٹر کو دیتے،  انجمن پاٹینم جوبلی کی تقریبات اور اس کے دستاویزی مجلہ کی تیاری میں بھی وہ شانہ بہ شانہ رہے۔ انہیں لکھنے کا بھی شوق تھا، جب تک ان کی آنکھ کا آپریشن نہیں ہوا تھا، وہ نقوش نقاش کے عنوان سے پابندی سے پندرہ روزہ نقش نوائط میں  کالم نگاری کرتے رہے، جس میں بڑی قیمتی معلومات ہوا کرتی تھیں۔ وہ اپنے چھوٹوں کی ہمت افزائی کرنا بھی خوب جانتے تھے۔ کبھی کوئی آپ سے ملاقات کے لئے جاتا تو خوب خاطر داری کرتے، لیکن انہیں خود نمائی پسند نہیں تھی، لہذا آپ نے اپنی زندگی کی طویل یادوں کو محفوظ کرنے کی اجازت نہیں دی۔

مرحوم اس دنیا میں ایک طبعی عمر  گذار کر اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹ گئے، ہر ایک کو اسی طرح وہاں لوٹ کر جانا ہے، ایک انسان اس دنیا میں کیوں کر غلطیوں اور خامیوں سے بچ سکتا ہے، لیکن پیدا کرنے والی ذات غفور و رحیم ہے، اس کی ذات سے امید ہے کہ اپنے اس بندے کے درجات بلند کرے گا، اور آپ کی مغفرت کے درجے کھلے رہیں گے، اللھم اغفر لہ وارحمہ۔

2024-05-25