Sicily Say Dar

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:52PM Sun 1 Sep, 2024

دار المصنفین کے ایک رفیق نے حال میں ایک ضخیم کتاب’’تاریخِ صقلیہ‘‘ (سسلی) پر لکھی ہے۔کچھ تو ریویوکی ضرورت، اور کچھ اپنے شوق سے بھی، اسے پڑھ رہاتھا۔ ایک جگہ یہ عبارت نظر سے گزری، اور نظروہیں جم کر رہ گئی:-

’’جب فوج تیار ہوگئی، توا س کی سپہ سالاری کے انتخاب کا مسئلہ آیا۔ اوراس اہم خدمت کے لئے زیادۃ اللہ (بادشاہ) کی نظر انتخاب قاضی القضاۃ ابو عبد اللہ اسد بن فرات بن سنان پرپڑی،کیونکہ مجلس شورٰی میں دراصل انھیں کی آخری رائے سے صقلیہ کا حملہ طے پایاتھا، اس لئے اس کی کامیابی میں انھیں جو انہماک ہوتا، وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ تھا۔ قاضی اسد بن فرات افریقہ کے نہایت ممتاز اہل علم اور امام مالک ، قاضی ابو یوسف اور امام محمد جیسے مشاہیر محدثین وفقہاء کے ارشد تلامذہ میں تھے……اور اُس وقت افریقہ کے عہدۂ قاضی القضاۃ پرفائز تھے۔ جب (انھیں) اپنے عہدۂ امارت صقلیہ کی خبرملی، توانھیں اس کے قبول کرنے میں کسی قدر پس وپیش ہوا۔ کیونکہ انھوں نے مسند قضاء وافتاء کو چھوڑکر ملک کی ولایت اور فوج کی امارت کو پسند نہیں کیا، اس لئے زیادۃ اللہ کو مخاطب کرکے عرض کیا کہ مجھے منصبِ قضا جیسے دینی منصب سے الگ کرکے فوج کی امارت سپردکی جاتی ہے؟ زیادۃ اللہ نے جواب دیا کہ تم عہدۂ قضا پر بھی فائز ہو ، اور لشکر کی امارت بھی تمہارے سپرد کی جاتی ہے‘‘۔

یہ عہد صحابہ نہ تھا، تیسری صد ی ہجری کا ابتدائی زمانہ تھا، اللہ اللہ!اُس وقت بھی فقیہ اور محدّث اور قاضی ، دفعتہ امیر لشکر، اور مجاہدوں کا سالارِ اعظم بن سکتاتھا، اور علم وافتاء کی مجلس معًا اس آسانی کے ساتھ میدان کارزار میں تبدیل ہوسکتی تھی!آج یہ واقعہ، افسانہ معلوم ہوتاہے، اور اس تاریخ کو تاریخ سمجھنے پر دل مشکل ہی سے آمادہ ہوتاہے۔ آج ہندوستان میں اہل علم کے جو نمونے آپ کے سامنے ہیں، اُنھیں معرکۂ جہاد، چہ جائیکہ اس کی سردای، سے کوئی مناسبت ہے؟ افریقہ سے کشتیوں اور جہازوں پر چڑھ کر ایک بالکل اجنبی ملک صقلیہ (سسلی)پر چڑھائی کرنے کی عظیم الشان دشواریاں الگ رہیں، آج کسی مولوی صاحب کو چھوٹی سے چھوٹی مہم کی سرداری تو ذرا دے کر دیکھئے!’’جمعیۃ العلماء‘‘ کے کتنے ارکان ایسے ہیں، جنھوں نے عمر بھر ایک بار بھی تلوار چلائی، یا پستول فیر کیاہے؟ ندوہ، دیوبند، فرنگی محل، لکھنؤ،دہلی، بریلی، رامپور، سہارنپور، بہار اور دکن کے کتنے علماء کرام ایسے نکلیں گے ، جو کسی پرچڑھائی کرنا الگ رہا،خود اُن پر اگر کوئی حملہ نہ کردے، تو اپنی مدافعت بھی کرسکیں گے؟……جہاد سے اس بے تعلقی اور بیگانگی پر دعوائے نیابت رسول کاہے! پیروی صحابۂ کرام کا ہے!

ریویو کی ضرورت سے کبھی کبھی دوسری کتابیں بھی اُسی موضوع پر پڑھنی ہوتی ہیں، خصوصًا جبکہ ریویو نگار کے معلومات اس موضوع سے متعلق، مبتدیوں سے بھی کمترہوں۔ گبنؔ کی انگریزی’’تاریخ زوالِ سلطنتِ رومہ‘‘ میں بھی سسلیؔ کے انقلاباتِ حکومت، ومحاربات کا ذِکر تفصیل کے ساتھ ہے۔ اس وقت ایک ایسی ہی جنگ کے سلسلہ میں یہ عبارت پیش نظرہے:-

’’اگر مسلمان متحد ہوگئے ہوتے، تو اٹلیؔ اِس وقت بہت آسانی کے ساتھ اُن کے قبضہ میں آسکتاتھا، لیکن خلفائے بغداد کا تسلط؛ اِس وقت مغرب سے اُٹھ چکاتھا، اغالبہ ؔوفاطمیہؔ نے افریقی علاقوں پر قبضہ جمارکھاتھا، سسلیؔ کے امراء اسلام الگ اپنی خودمختاری کے درپے تھے، اور ملک گیری کی کوششیں قزاقانہ دستبرد کی سطح پر اُتر آئی تھیں‘‘۔

یعنی اس فرنگی مؤرخ کے نزدیک ، جس شے نے مسلمانوں کو ناکام رکھا، اٹلیؔ جیسے بڑے علاقہ سے انھیں عین وقت پر محروم کردیا، وہ ان کی بُزدلی نہیں، مفلسی نہیں، بے تعلیمی نہیں، بلکہ محض اندرونی نااتفاقی اور باہمی آویزش تھی، یہ اقتباس، پہلے اقتباس کے برعکس، کس قدر صحیح ، کس قدر حسب حال، کس قدر دل کو لگتا ہواہے!!، صدیاں گزرگئیں، پرہماری اس وضعداری میں فرق نہ آناتھا، نہ آیا!