Shukran Bhatkal (01)

Nizamuddin Nadwi

Published in - Yadaun Kay Chiragh

02:38PM Sun 28 Sep, 2025

 تحریر: مولانا نظام الدین ندوی۔ رانچی۔ جھارکنڈ 

          اپریل کے دوسرے ہفتے میں دبی سے وطن واپسی لکھنو کے راستے ہوئی، حسن اتفاق ان ہی دنوں میرے دیرینہ رفیق و ہمدم آفاق منظر ندوی رانچوی مہاجر گیاوی کا بھی لکھنؤ آمد کا پروگرام بن گیا ان ہی دنوں ہم سب کے محبوب عمیر بھائی یعنی عمیر الصدیق دریا بادی ندوی رفیق دارالمصنفین کئی مؤقر اداروں اور انجمنوں کے ممبروعہدیدار،علمی و ادبی جرائد و مجلات کے ایڈیٹر اور کالم نگار بھی تشریف فرما ہوئے،  ایک عرصہ بعد چند ایام ان ـــــــ’’بزرگ ‘‘ دوستوں اور یاروں کی صحبت میں گزارنے کا موقع ملا، ندوہ میں گزرے ہوئے  طالب علمی کے دنوں کی یاد تازہ ہوئی مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء کے حجرہ شریفہ میں مجلس جمی اور کھانا پینا ہوا، مولانا کا دسترخوان کم وکیفیت دونوں اعتبار سے وسیع اور کشادہ ہوتا ہے اور اس سے زیادہ کشادہ دلی سے وہ اپنے مہمانوں خصوصا بے تکلف رفقاء اور مریدین کو ٹھونس ٹھونس کر کھلا تے ہیں۔

          ان دو چار دنوں کے قیام کے دوران کسی وقت بھٹکل کا ذکر چھڑا، میں نے تقریبا 50سال (ندوہ میں مجھے وہی کمرہ ملا تھا جس میں بھٹکلی اکثریت میں تھے) اہل بھٹکل کے درمیان گزارا ہے مگر اب تک سرزمین بھٹکل کی زیارت سے محروم تھا میرے دوست آفاق منظر ندوی نے بھی سفر پر آمادگی ظاہر کی تو پروگرام بنا لیا گیا اور طے پایا کہ مولانا عبدالعزیز صاحب کے ساتھ ششماہی چھٹیوں میں بھٹکل کا سفر کیا جائے، مولانا کے ایک شاگرد اور مساعد سفیان بھٹکلی ندوی کو ٹکٹ بنوانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی جو انہوں نے کاؤنٹر کھلتے ہی بنوا لیے اور یوں تقریبا تین ماہ پہلے سفربھٹکل کی تیاری مکمل ہو گئی۔

              پروگرام کچھ یوں بنا کہ پہلے ہم گیا سے اپنے دوست آفاق منظر کو لے کر لکھنو جائیں پھر وہاں سے مولانا عبدالعزیز صاحب کے ساتھ ان کی قیادت میں بھٹکل کا سفرہوگا، اسی کے مطابق یکم ستمبر 2025ء کو ہم اپنے چھوٹے بھائی مولوی  عبداللہ ندوی مہتمم کلیۃ البنات پرھے پاٹ رانچی کے ہمراہ آفاق کے پاس گیا کے لیے جو اب ’’گیا جی‘‘ بن گیا ہے روانہ ہوئے، گیا میں دن بھر قیام تھا،’’بودھ گیا‘‘  قریب ہی ہے بچپن میں ایک بار مدرسہ کے ساتھیوں کے ساتھ گھومنے گئے تھے مگر اس کی یادیں دھندلی ہو چکی تھیں، چنانچہ ایک بار پھر جا کر دیکھنے کی خواہش عبداللہ نے ظاہر کی تو ہم بھی چل دیئے۔

          بودھ گیا  ہندو اور بودھ مت کے پیرو کاروں کی مقدس سر زمین ہے۔ ایک بہت بڑے علاقے میں چھوٹے بڑے مندروں اور مورتیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ بددھ زائرین بڑی تعداد میں اپنی پوجا اور دھیان میں مشغول نظر آئے، اس درخت کو بھی دیکھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کے ’’پرنس سدھارتھ گو تم‘‘ نے589 قبل مسیح اس کے سایہ میں تپسیا اور دھیان کرتے ہوئے حق کو پایا تھا، اس درخت کی عمر اب اس لحاظ سے ڈھائی ہزار سال سے زیادہ ہے اسکی بعض شاخیں بوڑھی اور خستہ ہو چکی ہیں جن کو بیساکھیوں کے ذریعہ گرنے سے بچالیا گیا ہے مگر درخت اب بھی زندہ ہے،  اوپر کی بعض شاخیں اب بھی ہری ہیں ان سے پتیاں جب گرتی ہیں تو زائرین کے لئے تبرک کا سامان بنتی ہیں، زائرین میں ایک بڑی تعداد جنوبی ھند سے آنے والے لوگوں کی تھی جو سفید کپڑوں میں ملبوس(جیسے کہ حج و عمرہ کا احرام ہوتا ہے) تھے، جب کہ اس مذہب کے ماننے والے عموما زرداور جامنی رنگ کے کپڑے پہنتے  ہیں، لگتا ہے اس موقع کے لئے یہ سفیدلباس انہوں نے خاص کر لیا ہے۔

          2 ستمبر2025ء شام 7 بجے ہم (آفاق عبد اللہ اور میں) لکھنؤ کے لئے روانہ ہوئے، اور دیر رات تقریباً تین بجے ٹرین چار باغ ریلوے اسٹیشن پہونچی، اسٹیشن سے ندوہ گئے جہاں مولانا عبد العزیز صاحب نے ہمارے قیام کا انتظام کر رکھا تھا، ندوۃ  میں  زیادہ  قیام  کا  نہ ارادہ  تھا  اور نہ موقع بس تھوڑی دیر کے لئے دارالعلوم میں مولانا عبد العزیز صاحب کے دفتر میں حاضری دی، اپنے  دیرینہ رفیق و عزیزبرادر مکرم و محترم مولانا علاؤالدین ندوی  (عمید کلیۃ اللغۃ العربیۃ) سے کھڑے کھڑے ملاقات کی اور واپس قیام آگئے۔

          لکھنؤ سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بھٹکل کا سفر شروع ہوا، ہمیں لکھنؤ سے جھانسی اور جھانسی سے ممبئی اور ممبئی سے بھٹکل جانا تھا۔ یہاں ہمارے کا رواںمیں مزید دو کا اضافہ ہوا اور پانچ آدمیوں کا قافلہ مولانا عبد العزیزبھٹکلی صاحب کی قیادت میں سوئے بھٹکل روانہ ہوا، مولانا کے چاہنے والے عقیدت مند اور شاگرد ہر جگہ ہیں،جو مختلف اسٹیشنوں پر زاد راہ اور لذت کام و دہن کا سامان لئے ان کے استقبال کو تیار رھتے ہیں، اسی آؤبھگت کو دیکھ کر ندوہ کے کسی استاذ نے فرمایا تھا کہ عبد العزیز صاحب کے ساتھ سفر میں قصر جائز نہیں کیونکہ ان کے ساتھ سفر میں بھی اقامت کے مزے ہیں۔ ہم بھی اس خوشگوار تجربہ سے گذرے،جھانسی اسٹیشن پر مولانا کے شاگردوں نے خاطر تو اضع کی، ممبئی کے شاگرد کہاں پیچھے رہنے والے تھے، دوسری ٹرین تین ساڑھے تین گھنٹے کے بعد تھی چنانچہ ان کے ایک شاگرد نے جواب ممبئی میں اچھے کاروباری ہیں اور اصلا اکبر پور فیض آباد یوپی کے رہنے والے ہیں اپنے گھرلے گئے جو ڈونگری میں واقع ہے۔White Rose نامی ٹاور کے سولہویں فلور پران کافلیٹ ہے، ان کے  گھر میں کچھ وقتی پریشانی تھی اسکے باوجود انہوں نے مکمل ضیافت کی اور وقت مقرہ پر اسٹیشن پہونچا یا جہاں سے ہم لوگ Matsegangaکے ذریعہ بھٹکل روانہ ہوئے۔

          ممبئی سے بھٹکل کا سفر دو پہر کے بعد شروع ہوا، اور ہم کو کن علاقہ سے گذرے ،یہ علاقہ بھی بہت خوبصورت ہے، کبھی ہلکی تو کبھی تیز بارش ہوتی رہی، اور پھر جب شام  ڈھلی اور رات کی چادر تنی تو سب کچھ اندھیروں میں گم ہو گیا، اور ہم بھی رات کا کھانا کھا کر اور نماز سے فارغ ہوکرسونے کی تیاری میں لگ گئے ،راستے کے خوبصورت مناظر، وادیوں پہاڑوں،جھیلوں اور سر نگوں کا تذکرہ اپنے میر کارواں مولانا عبد العزیز صاحب کی زبانی سن کر خوش ہولئے، اوراپنی آنکھوں سے ان خوبصورت  نظاروں کی دید سے محروم رہے۔ فجر کے بعد دن کا اجالا پھیلا تو ہم ’’گوا ‘‘  سے آگے نکل چکے تھے، اور بھٹکل کے مضافاتی اضلاع اور علاقے شروع ہو چکے تھے۔ ناریل سپاری اور کا جو کے باغات،گھنے جنگلات اور سبزہ زاروں سے ڈھکے ہوئے اونچے پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ، پورا علاقہ  قدرتی حسن و جمال کا شاہکار ہے، ان ہی سبززاروں سے گذر کر ہماری  ٹرین تقریباً صبح 7:30 بھٹکل اسٹیشن پر اترے، یہ اسٹیشن  چھوٹامگر صاف ستھرا ہے، بھٹکل کے مسلمانوں کے سماجی کاموں کے اثرات یہاں پلیٹ فارم پربھی نظر آئے جہاں ایک کتبہ کی شکل میں محترم یونس قاضیاً کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔