Shukran Bhatka (03)

تحریر: مولانا نظام الدین ندوی۔ رانچی۔ جھارکنڈ
*جامعہ کے تحت چلنے والے مدارس و مکاتب*
جامعہ کے کئی ذیلی ادارے اور مکاتب بھی ہیں جن کو جامعہ ہی سے فارغ نوجوان چلا رہے ہیں انہوں نے ان مدارس و مکاتب کے لیے خود اپنا نصاب تعلیم بھی تیار کیا ہے ان میں سے بعض مکاتب میں ہائی ٹیک(Hightec) سہولتوں سے آراستہ کلاس روم ہیں، ایک بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ کئی ندوی فضلاء اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ٹیم کی شکل میں مختلف تعلیمی ثقافتی اور دعوتی میدان میں نئے تجربے کر رہے ہیں، ادارہ ادب اطفال ،کہکشاںجیسے ادارے اور مشاریع کے ذریعے قوم کے نو نہالوں کی تعلیم و تربیت نشونما اورکردارسازی کے کاموں میں مصروف ہیں۔
*مولانا ابوالحسن علی ندوی اکیڈمی اور علی پبلک اسکول اور پری یونیورسٹی کورسز *
اللہ تعالی اپنے بعض بندوں سے خوب کام لیتا ہے ایسے لوگ اپنی ذات میں خود انجمن ہوتے ہیں مولانا الیاس بھٹکلی ندوی بھی انہی میں سے ایک ہیں جنہوں نے تن تنہا انجمنوں اور اداروں کا کام کر ڈالا اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اورمستقبل میں تعلیم و صحت کے میدان مزید بہت کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔
انہوں نے اپنے اسکول کے لیے مختلف بورڈز کے متوازی عصری تعلیم کا نصاب تیار کیا ہے جو ملک کے مختلف اسکولوں اور مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں مولانا الیاس ندوی عاشق’’ علی ورابع ‘‘ہیں ہر طرف ان کے ناموں کے بورڈ اور تختیاں ہیں، انہی کی سوچ و فکر اور خوابوںکو زمین پر اتار رہے ہیں اور آگے بڑھارہے ہیں۔
* محکمہ شرعیہ اور قضا کا نظام*
یہاں شرعی محکمہ اور قضاء کا نظام بھی سو سال سے زائد عرصہ سے قائم ہے، جو ’’ جماعت المسلمین بھٹکل ‘‘ کے ماتحت ہے۔ایک بڑے نشیط اور ایکٹیو انتہائی متواضع اور اہل بھٹکل کی محبوب شخصیت مولانا عبدالرب ندوی جو جامعہ کے ایک کامیاب استاد بھی ہیں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہیں، ایک ایسا انسان جن سے ملتے ہی محبت ہو جائے، مہمانوں کی ضیا فت فرض سمجھتے ہیں اور ایک ایک مہمان کی فکر رکھتے ہیں، ان کو اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا بنا کر کھلاتے ہیں ،جن کا مزہ اپنائیت اور خلوص و محبت کی چاشنی سے دوبالا ہو جاتا ہے ،محکمہ شرعیہ انتہائی منظم انداز سے قضا ء و افتاء کے فرائض انجام دے رہا ہے، عائلی قوانین کے متعلق سارے معاملات اور نزاعات یہیں نمٹائے جاتے ہیں اور ان فیصلوں کو لوگ بخوشی قبول کرتے ہیں دوسری عدالت تک جانے کی نوبت ہی نہیں آتی ،نئے اور پرانے فیصلوں کو محفوظ رکھا جا رہا ہے ہم نے گذشتہ صدی کے نکاح ناموں اورفیصلوں کی نقلیں فائلوںمیں دیکھیں اور ان صفحات کو اپنے موبائل کے کیمرہ میں محفوظ کرلیا۔عدالت کا کمرہ (ہال ) اور اسکی سیٹینگ کسی عدالت عالیہ کے جج کے چیمبر کی طرح تھا،جہاں قاضی صاحب اپنے مساعدین کے ساتھ قضایا سنتے اور فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔
*ادارہ تربیت اخوان اور ویلفیئر سوسائٹی*
دینی و اسلامی دعوت و اصلاح اور سماجی خدمات کے میدان میں جذبہ ایمانی سے شرشار تحریک اسلامی سے وابستہ ’’خیر الناس من ینفع الناس ‘‘کو نصب العین بنانے والے وہی ہمارے اورانتہائی قریب رفقاء اس ادارے اور سوسائٹی کے روح و رواں ہیں جن سے میں آج سے تقریبا چالیس بیالیس سال پہلے ملا تھا، 1983ء میں جب میں دعوتی مشن پر دبئی پہنچا تو برادر گرامی محترم صلاح الدین صاحب قادر میراں صاحب ، عبدالقادر بادشاہ صاحب عثمان محتشم( مرحوم ) عبدالقادر بادشاہ صاحب دعوت و فکر اسلامی کے مخلص کارکن میراںسعد(مرحوم ) مختلف دعوتی سرگرمیوں میں مصروف تھے، ہم ایک ہی راہ کے مسافر تھے ساتھ چلے اور زمانہ دراز تک چلتے رہے ، میرے درس قرآن کا سلسلہ انہی حضرات کے ذریعے شروع ہوا۔ ان حضرات کا دبئی سے بھٹکل منتقلی ان کے دعوتی سفر کا اختتام نہیں تھا بلکہ دبی میں جہاں سے سفر ختم ہوا تھا بھٹکل میں وہیں سے آغاز ہوا اور اب یہ سب حضرات مختلف دعوتی محاذوں پر کام کر رہے ہیں اور غیر سودی مالیاتی ادارہ (ویلفیئربنک ) شمس اسکول اور ہائی سکول اور ویلفیئر ہاسپٹل کی شکل میں تعلیمی مالیاتی اور طبی خدمات اسلامی نہج پر انجام دے رہے ہیں اور ان کو معیاری اور مثالی بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اللہ تعالی ان کے مساعی کو قبول فرما ے ۔
*بھٹکل کے مساجد و جوامع*
اہل بھٹکل کی بہت ساری خوبیوں میں ایک بڑی خوبی بلکہ ان کی ظاہری اور معنوی ترقی کا راز ان کا آپسی اتحاد و اتفاق ہے (اللہ اسے نظر بد سے بچائے) ’’ جماعت المسلین بھٹکل ‘‘ کی نگرانی اور سرپرستی اور اس کی مقررکردہ پالیسیوں کی روشنی میں سارے دینی اور اجتماعی کام انجام پا رہے ہیں، فکری تنوع اور اختلاف بھی موجود ہے مگر دوسری جگہوں کی طرح آستینیں نہیں چڑھتی ہیں۔ فقہ شافعی کی ترجیحات کے مطابق ہر ہر مسجد میں جمعہ کا انعقاد نہیں ہوتابلکہ لا تعداد مساجد میں سے صرف آٹھ مساجد ہی میں جمعہ قائم کرنے کا فیصلہ جماعت اور ارباب حل و عقد نے کیا تو کیا مجال کے کوئی الگ سے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر جمعہ قائم کر دے ۔
اس کے لیے پہلے جماعت کی منظوری ضروری ہے ، مساجد الحمدللہ جگہ جگہ ہیں اور سب معمور اور آباد ہیں نماز کے وقت عموما مسلمانوں کی دکانیں بند ہو جاتی ہیں مسجد کی صفائی ستھرائی اور مرافق عامہ کی طہارت و نظافت کا اہتمام ہے، بعض نئی تعمیر شدہ مساجد قابل دید ہیں ہر نماز میں اور خصوصا جمعہ کی نماز میں مسجدوں میں پہلے آنے کا رواج ہے، جمعہ کی نماز کا منظر بڑا روح پرور ہوتا ہے عموما سفید کرتا اور لنگی میں ملبوس لوگوں کے ہنستے مسکراتے چہرے( اہل نوائط کا رنگ عموما صاف ہوتا ہے ) معاشی خوشحالی اور ترقی اور اسلامی تہذیب تمدن سے لگاؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ خدا آباد رکھے اس چمن کو ۔
سماجی سیاسی اور معاشرتی مسائل سے نمٹنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لئے ’’ ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم‘‘ قائم ہے ، جو قومی اور ملی مسائل میں حکمت و دانائی سے قوم کی رہنمائی کرتا ہے ۔ مستورات کی تعلیم کے لئے ’’ جامعۃ الصالحات‘‘ جیسا ادارہ بھی ہے جس کا اثر معاشرہ میں نمایاں ہے۔
میں پہلی بار بھٹکل گیا تھا، وہاں جا کر لوگوں سے مل کر وہاں کے دینی تعلیمی اداروں کو دیکھ کر صاف نظر آیاکہ وہاں بسنے والے مسلمان خاص طور پر قوم نوائط کے لوگ (اس کے بزرگ اور نوجوان) اپنی ذاتی زندگی کو خوشنما اور بہتر بنانے، اورمعاشی خوشحالی کی راہ میں کامیابی کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی اور رفاہی کاموں میں بھی دلچسپی لیتے ہیں اور ان میں تن من دھن سے شریک ہیں قومی اور ملی بیداری اور شعور صاف نظر آتا ہے۔
میں نے پایا کہ وہاں۔۔۔۔۔۔
٭ عامۃ الناس میں عمومی دینداری پائی جاتی ہے، دینی اور ملی قیادت پر بھروسہ اور جماعت کے ساتھ چلنے کی خو نظر آئی۔
٭ علماء اور فضلائے ندوہ و جامعہ معاشرہ میں لیڈ نگ رول میں نظر آئے۔
٭ علماء اور دانشوران قوم، جدید اور عصری تعلیم یافتہ نوجوان،اور اہل ثروت و تجارت کے درمیان دینی وملی مسائل میں یکجہتی اتحاد اور آپسی تعاون کی غیر معمولی فضا دیکھنے کو ملی۔
٭ نوجوان فضلائے ند وہ وجامعہ میں دینی تعلیمی اور دعوتی میدان میں کچھ نیا کرنے کا جذبہ اور اسکی فکر نظر آئی۔
٭ بھٹکل کیدینی تعلیمی اورملی اداروںاور جماعتوں نے تمام اہالیان بھٹکل کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے، مختلف الخیال اور فکر کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کوملی فیصلے کرتے ہیں، جو شایدہندوستانی مسلمانوں کے کسی بھی دوسرے علاقے میں موجود نہیں۔
٭ علماء کا احترام ہے، اورانکی صلاحیتوں سے خوب فائدہ اٹھا یا جارہا ہے، اب علماء کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیشہ یسرو سہولت کی راہ اپنائیں (بیجا مداھنت نہیں) یسرواولا تعسروا پر عمل پیرا ہوں، تنطع اور شدت پسندی سے دور رہیں اور یاد رکھیں۔لن یشاد الدین أحد إلا غلبہ،
الغرض اس مسلم معاشرہ میں ایک فلاحی ریاست بننے کے سارے گن (مقومات) موجود ہیں، ہم اہل بھٹکل سے عموما اور وہاں کے علماء دانشوران أعیان اور ارباب حل و عقد سے خصوصا درخواست کرنا چاہیں گے کہ ابھی یہیں پر نہ رکیں بلکہ آگے قدم بڑھاتے رہیں، اور شہر بھٹکل کو ہر اعتبار سے ایک معیاری اور مثالی اسلامی معاشرہ بنائیں، قومی سطح پر نقطہ اتفاق زیادہ اور غالب ہے، فکری تنوع اور اختلاف رائے فطری ہے۔ وہاں بھی ہے مگر بہت گہرا نہیں ھے دوریاں مٹائی جا سکتی ہیں، مٹائیے اور وتعاونوعلی البر والتقوی پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کا حلیف بنئے حریف نہیں۔
بھٹکل کے سفر کا ایک بڑا مقصد اپنے ان پرانے رفقاء اور احباب سے ملنا بھی تھا جن کے درمیان تقریبا 45 سال دبئی میں رہنے کا موقع ملا، ان میں بہت سے اب مستقل بھٹکل شفٹ ہو چکے ہیں ان میں سب سے مقدم میرے محسن محتشم عبدالباری صاحب جنہوں نے اپنی علالت کے باوجود کئی بار ملنے اور زیارت کا موقع دیا ،بلکہ قیام گاہ پر خود آکر ملنے کی زحمت کی، اپنی کوٹھی میں کھانے پر بلایا اور اپنی محبتیں نچھاور کرتے رہے ان سب کے لیے میںان کا شکر گذار ہوں، ان کے صاحبزادہ اور میرے شاگرد ضیاء عبدالباری کا بھی جنہوں نے بڑی خدمت کی، ان کی سعادت مندی اور اپنے والد کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینا ہر ضعیف اور بیمار والدین کی اولاد کے لیے ایک اعلی مثال ہے۔
محترم و مکرم جناب عبدالرحمن کھروری صاحب میرے دبی کے کرم فرماؤں میں سے ہیں۔ وہ اب بھٹکل منتقل ہو چکے ہیں۔جب سے ہماری آمد کی اطلاع ملی تھی آنکھیں فرش راہ کیے بیٹھے تھے، ان کی عنایتوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ برادرم اسلم شیخ کی محبت و خلوص اور مہمان نوازی کے شکریہ کے لیے الفاظ کم ہیں۔ وہ ہمیں اپنے آبائی گاؤں بھی لے گئے۔ جہاں جنگل میں منگل کا سماں ہے۔ سیرت کا جلسہ بھی اتفاق سے ہو رہا تھا مجھے مختصر خطاب کا موقع دیا گیا، بار بار ملتے رہے اور خلوص و اپنائیت کی چادر اٹھاتے رہے جز اہ اللہ خیراً۔
بھٹکل کے لوگ میرے لیے اجنبی نہ تھے ، میں جہاں بھی گیا جس ادارے میں پہنچا جس مسجد میں نماز پڑھی دوست و احباب، تعلق والے تفسیر کے درس میں بیٹھنے والے ساتھی ملے، ہمیں بھٹکل میں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا، وقت کی کمی آڑ ے آئی کہ ان سب سے ملاقات ادھوری اور تشنہ رہی اور بقیہ آئندہ ملنے اور’’ ایتا ‘‘کہنے پر اکتفا کیا۔
برادر گرامی اور عزیز دوست آفاق منظر ندوی اور مجھے بھٹکل کی زیارت کا موقع دینے والے بلکہ اس سفر کے اصل محرک مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے ہم انتہائی شکر گزار ہیں کہ ان کی معیت رفاقت اور قیادت میں اتنا طویل سفرمکمل ہوا ، بھٹکل پہونچے تو اپنا ذاتی مہمان بنا کر اپنے گھر میں ٹھہرایا اور اپنے اہل و عیال کو بھی خدمت میں لگا دیا، صاحبزادگان عزیزم عثمان ندوی اور عبدالرحمن ندوی نے تو ہر طرح کی راحت کا خیال رکھا ہی، عثمان کے صاحبزادہ ابان ابن عثمان نے بھی خوب سعادت مندی دکھائی اور پھر مولانا کی ایک چھوٹی سی گڑیا پوتی حسنی (کمانڈو انچیف) بھی کسی سے کم نہ تھی، اللہ اس گھر کو شاد و آباد رکھے۔
مولانا نے ہر ہر موقع پر ہم سب کی راحت اور آرام کا خیال رکھا بلکہ فی معنی الکلمہ سایہ کی طرح ساتھ لگے رہے،کبھی آزادی کی خواہش بھی ہوئی اورقفس ذھبی کو توڑ کر اڑنے اور چہچہانے کو جی بھی چاہا کہ
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے