Shuhrat aur Maqbuliat Ka miyar
’’عمومی اور اکثری حیثیت سے تو یونان کی تاریخ، باعصمت خواتین کے ناموں سے، کہنا چاہئے کہ خالی ہی ہے……جن عورتوں کو شہرت ومقبولیت نصیب تھی، وہ تمامتر عصمت فروش طبقہ ہی سے تعلق رکھتی تھیں‘‘۔ (لیکیؔ، ہسٹری آف یوروپین مارلس‘‘ جلد 2، ص: 122)
یہ خلاصۂ تحقیق ہے قدیم یورپ ، یعنی یونان ورومہ کے مؤرخ ِ اخلاق ومعاشرت کا۔ آگے چل کر صراحتیں ہیں، کہ مقدس مندروں اور معبدوں کے اندر جو دیویوں کے بُت رکھے جاتے تھے، اُن کے لئے نمونہ (ماڈل) کا کام اسی طبقہ کی عورتیں دیتی تھیں۔ بڑے بڑے شاعر مدح میں نظمیں اُنھیں کی لکھتے تھے۔بڑے بڑے نقاش اور صنّاع، حسن وجمال کا نمونہ اُنھیں کو قرار دیتے تھے، اور حد یہ ہے کہ بڑے بڑے
’’خشک فلسفی ان کی زیارت کو جایاکرتے تھے، اور ان کے نام ہرہر شہر میں مشہور ومعروف تھے‘‘۔ (ص: 123)
گویا عزت وناموری ، پاکبازی وپارسائی کی نہیں، بے حیائی اور بے شرمی کی تھی۔ اور حکومت وسربلندی تقویٰ واحتیاط کی نہیں ، فسق وفجور کی تھی۔
آج زمانہ پھر ’’ترقی‘‘ کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہونچ گیاہے؟ آج خودآپ کے ہاں عزت کا شہرت کا، نام آوری کا، معیار کیا قرار پارہاہے، اور کیا قرار پا گیاہے؟ پرسش اُن کی ہے، جو بیچاریاں بردہ میں بیٹھنے والیاں، نظریں نیچی رکھنے والیاں، چہرہ کو اوراپنی رعنائیوں کو نقاب سے، گھونگٹ سے ، برقع سے، چادر سے چھپانے والیاں ، اپنی آواز تک کو نامحرموں کے کانوں سے بچانے والیاں ہیں؟ یا اُن کی جو کھُلے بندوں، ’’آزادی‘‘ سے نظر کو نظر سے، جسم کو جسم سے ملانے والیاں، اسٹیج پر ناچنے والیاں، جسم کے زیادہ سے زیادہ حصہ کو برہنہ رکھنے والیاں، فِلم کے لئے ’’کام‘‘ کرنے والیاں، ریڈیو پر گانے والیاں، میوزک کالجوں اور ناچ گھروں کوآباد کرنے والیاں ہیں؟……رسالوں پر رسالے، ہفتہ وار بھی اور ماہوار بھی، اس طبقہ کی حمایت میں نکلتے پر نکلتے چلے آرہے ہیں، انگریزی میں، اُردو میں،ہندی میں، بنگالی میں، مرہٹی میں، براعظم ہند کی بڑی چھوٹی ہر بولی میں، ہرزبان میں ،ہر رسم الخط میں؟ تصویروں پر تصویریں، تبصرہ پر تبصرے، کس کے ’’آرٹ‘‘ پر، کس کے ’’حُسِ ادا‘‘ پر، چھپے رہتے ہیں، ہر روز نہ سہی تو ہر ہفتہ، اونچے سے اونچے انگریزی روزناموں میں، کلکتہ کے اور بمبئی کے، اور دہلی کے اور الہ آباد کے اور لکھنؤ کے اور مدراس کے؟
’’حُسن ،حُسن کی غرض سے‘‘،فلسفہ مہذب یونانیوں کا تھا۔’’ آرٹ آرٹ کی غرض سے‘‘مقولہ فرنگیوں کاہے۔ یہی قول، یہی عمل۔ یہی فکر، یہی خیال۔ اور ’’روشن خیالوں‘‘ نے ٹرکی کے، اور ایران کے، مصر کے اور ہندوستان کے، طے کرلیاہے، کہ ’’ترقی‘‘ اور فلاح، ’’آزادی‘‘ وبہبود کی یہی راہ ہے کہ تقلید اختیار کی جائے، یونان کی، امریکہ کی، فرنگستان کی، اور اِن ملکوں میں بھی ایک مخصوص ’’طائفۂ‘‘ عامیہ کی! اور کعبۂ مقصود بنایاجائے ہالی ووڈؔ کو!……جنت کے انتظار میں ’’جنتِ نگاہ‘‘ کی طرف سے آنکھیں پھیر لینا، اور فردوس کے خیال سے ’’فردوس گوش‘‘ کی طرف سے کان بند کرلینا، کہاں کی عقلمندی ہے؟۔