Shiran Bhatkal (02)

Nizamuddin Nadwi

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:42AM Mon 29 Sep, 2025

 تحریر: مولانا نظام الدین ندوی۔ رانچی۔ جھارکنڈ 

 

*جنت نشاں شہربھٹکل *!

          اہل بھٹکل کے درمیان میں تقریبا نصف صدی سے کسی نہ کسی شکل میں رہ رہا ہوں، ندوۃ  میں طالب علمی کا زمانہ ہو کہ دبی میں بغرض ملازمت چالیس سال سے زائد قیام،  دوست اور احباب برابر بھٹکل آنے کی دعوت دیتے اور اصرار کرتے مگر اب تک یہ سعادت حاصل نہ ہوسکی تھی۔ اتنے سالوں بعد آج پہلی بار سر زمین بھٹکل میں قدم رکھا ہے۔

          شہر بھٹکل جنوبی ہند کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جسکو اپنے سارے گن (مقومات )کے باوجود ضلع کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہوئی ہے مگر وہ جنت نشاں ہے۔ لغت میں ’’جنت‘‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے ’’الجنۃ‘‘ الحدیقۃ أوالبستان الذی یستر بداخلہ من خلال الاشجار والنخیل الکثیف، وہی مشتقۃ من المادۃ ’’جن‘‘ التی تعنی الستر والاختفاء۔

          حاشا وکلا جنۃ الخلد سے کوئی موازنہ نہیں، مگر شہر بھٹکل پراپنے محل وقوع قدرتی مناظر اور خوبصورت باغات میں گھرے ہونے کی وجہ سے ’’جنۃ‘‘ کی لغوی تعریف ضرورصادق آتی ہے۔ خاص طور پر جب بلندیوں پر چڑھ کر شہر کا نظارہ کیا جائے، ہم نے پہ روح پرور منظر وہاں کے مشہور لائٹ ھاؤس پر چڑھ کر بھی دیکھا اور انجمن کالج کے فصیلوں سے بھی، تا حد نگاہ ناریل کے درختوں کی چادر تنی ہوئی اور ان ہی کے درمیان سے کہیں کہیں مسجدوں کے منارے اور مکانات جھانکتے ہوئے اور اپنے مکینوں کا پتہ دیتے ہوئے، شہر بھٹکل اور آس پاس کی پوری آبادی کو ناریل سپاری اور کا جو کے درختوں نے گویا اپنی آغوش میں چھپا رکھا ہے۔

          بھٹکل کے ساحل پر واقع وہاںکے مشہور لائٹ ہا وس پر چڑھکراس خوبصورت علاقے کو ضرور دیکھنا چاہئے، (ہم بھی چڑھے گرچہ دو دن تک ٹانگوں پر اس کا اثر تھا)  ایک طرف بحر بیکراںبحرعرب اور ساحل سے ٹکراتی اسکی موجیں، دوسری طرف خوبصورت جھیل اور ندی، اسی بحر عرب کے دامن میں گھنے اور اونچے درختوں کے باغات کی آغوش میں چھپا ہواشہر بھٹکل، اسکی خوبصورتی اور دلفریب نظاروں کی تصویر کشی ہم جیسے کو تاہ قلم کہاں کر سکتے ہیں اسکے لئے تو مولانادریا بادی ؒجیسے صاحب طرز ادیب کا جادوئی قلم درکار ہے۔

*بھٹکل کے دینی و تعلیمی اصلاحی و دعوتی اور سماجی و رفاہی مراکز اور ادارے*

          شہر بھٹکل اور  اہالیان بھٹکل کو دوسرے علاقے میں رہنے والے مسلمانوں سے سب سے زیادہ ممتاز کرنے والی بات اور خصوصیت ان کی جماعتی صف بندی اور اتحاد و اتفاق ہے جن کے ثمرات پورے معاشرے میں نظر آتے ہیں ، خوبصورت شہر ہے،  معتدل آب و ہوا ہے، ہریالی ہے، خوشحالی ہے، مگر سب سے خوبصورت اور قابل رشک’’ عمل‘‘ وہاں کے بڑے بزرگوں اور نوجوانوں کا آپسی تعاون کے ساتھ ملی کاموں میں حصہ لینا اور واضح منصوبہ بندی کے ساتھ ان کو انجام دینا ہے، مختلف دینی تعلیمی اصلاحی و دعوتی اور رفاہی ادارے قائم ہیں جو دینی و ملی جذبات سے سرشار نوجوان علماء تجارت پیشہ اصحاب ثروت اور جدید تعلیم یافتہ بہی خواہاں قوم ملت کی منظم کوششوں سے مسلسل ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں

"انجمن حامی مسلمین بھٹکل " نے انجمن اسکول اور کالج کے ذریعے عصری تعلیم کی بنیاد رکھی اور اب انجینئرنگ کالج سمیت کئی بوائز اور گرلز کالجز اور متعدد اسکولوں کی صورت میں تعلیم کے اس شعبے کو بہتر طریقے پر چلا رہی ہے،

 قرآنی اور دینی تعلیم علماء اور قضاۃ مسجدوں اور مکاتب میں ہمیشہ دیتے رہے ہیں مگر غالباً 1962ء میں جامعہ اسلامیہ کے نام سے ایک دینی تعلیمی ادارہ کا قیام عمل میں آیا اور  دیکھتے دیکھتے ایک مضبوط اور مؤ قر دینی و علمی مرکز بن گیا،  ایسا لگتا ہے کہ معاشرے میں ایک علمی انقلاب آگیا ہو،  ہر طرف اسی کے جلوے ہیں، ساٹھ کی دہائی میں قائم ہونے والا ادارہ اور اس کے فارغین جو ندوۃ العلماء کے بھی فارغین ہیں معاشرے میں قیادی رول ادا کر رہے ہیں جامعہ اور ندوہ کے فضلاء اب مساجد کے امام اور خطیب ہیں تو محاکم شریعہ کے قاضی منصف اور مفتی، یہی نوجوان فضلا مدارس و مکاتب کے معلم و مدرس اور اسکولوں کے استاد اور ٹیچر ہیں، ان میں کئی نہایت وقیع اور تحقیقی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور رسائل و جرائد کے ایڈیٹر بھی، کہیں ’’پھول‘‘ کی خوشبو بکھیر رہے ہیں اور نونہالان  ملت کی ادبی علمی دلچسپی کا سامان فراہم کر رہے ہیں تو ’’کہکشاں ‘‘اسٹوڈیو میں بیٹھ کر اسلامی ادبی اور ملی نغموں کا جادو جگا رہے ہیں گویا چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں ان کی۔

*جامعہ اسلامیہ بھٹکل*

           ایک وسیع و عریض قطعہ عرض پر قائم ہے مختلف  شعبہ جات کی الگ الگ عمارت ہے درسگاہ دارالاقامہ مسجد مہمان خانہ کتب خانہ لائبریری کو دیکھتے ہوئے  ہم لوگ موجودہ ذمہ  داروں سے ملے ، مولانا عبد العلیم  قاسمی صدر جامعہ،  مولانا طلحہ ندوی ناظم جامعہ، اور مولانا مقبول ندوی مہتمم جامعہ کی ذمہ داریاں اٹھا رہے ہیں ، موخر الذکر دونوں ندوی فضلاء سے عرصہ دراز سے تعلق اور شنا سائی ہے۔

          کتب خانہ کی زیارت ایک قدیم ندوی فاضل ناصر الاسلام ندوی جو لائبریری کے ذمہ دار ہیں نے کرائی ،جہاں مختلف علوم وفنون کی امہات الکتب اور مصادر و مراجع کے قدیم و جدید نسخے موجود ہیں۔دینی علمی اور ادبی  کتابوں کا ایسا ذخیرہ اورمنتخب مجموعہ کم ہی کتب خانوں میں ملے گا،  مکتبۃ الجامعہ کو قیمتی بنانے میں علمی اور دعوتی حلقوں میں معروف عالم دین مولانا عبدالمتین منیری(مقیم دبئی) کی تقریبا چالیس سالہ محنت لگن اور فکرمندی اور منصوبہ بندی شامل ہے ، میں ذاتی طور پر اس کا گواہ ہوں منیری صاحب ہمیشہ جامعہ اور اس کی لائبریری کے لیے اہم اور نادر کتابوں کے نسخے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لاتے اور ان کو بھٹکل پہونچانے کی تدبیر کرتے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت جامعہ میں ایک عظیم الشان لائبریری جویان علم و تحقیق کے لیے قائم ہو چکی ہے ۔