Shah Qadiri Moulana Syed Mustafa Rifai Nadwi (01)

آج جب مولانا سید مصطفی جیلانی رفاعی کی رحلت کی خبر موصول ہوئی تو دل دھک سے بیٹھ گیا، آنکھیں بھر آئیں، اور آنسو پلکوں پر آکر ٹہر گئے، مولانا کی پرمزاح اور بے تکلفانہ شخصیت آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی، جس میں دور دور تک تکلف اور تصنع نظر نہیں آتا تھا،تین ماہ قبل وطن جانا ہوا تھا، تو علالت کی خبر سن کر بنگلور حاضری ہوئی تھی، اس وقت تین ماہ سے وہ ایک لاشہ کی شکل میں وینٹیلیٹر پر آکسیجن کے سہارے پڑے تھے۔ ایک ہنس مکھ اور دل آویز شخصیت کو اس حالت دیکھ کر دل کو شدید دھچکا لگا تھا۔
جن لوگوں نے مولانا کو قریب سےدیکھا ہے وہ شہادت دیں گے کہ آپ کی وفات کے ساتھ اللہ تعالی کا ایک ایسا ولی اس دنیا سے اٹھ گیا ہے جس نے اپنی ذات کو فنا کردیا تھا، اس کی دنیاوی خواہشات ضرورت سے کم تو ہوسکتی تھیں زیادہ نہیں ، جس کی زندگی کا مقصد اولین رضائے الہی کا حصول اوردنیائے انسانیت کی خدمت تھا، جس کے لئے اس کے دل میں کبھی بھی شہرت وناموری کی ہوس نہیں جاگی، اس نے دوسروں ہی کو آگے بڑھانے میں خوشی وراحت محسوس کی۔ انہوں نے کبھی بھی مخاطب کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ بھی ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں،گذشتہ نصف صدی کے دوران دنیا نے انہیں سر سے پیر تک کالی پوشاک میں ایک فقیر کی صورت میں دیکھا،جس نے سفر حضر، حاکموں، وزیروں، مالداروں ، اصحاب وجاہت ، چھوٹوں بڑوں اور دنیا کے کسی بھی دربار میں بھی اپنی اس ہییت میں جانے میں عار محسوس نہیں کی۔
اس ناچیز نے مولانا کو پہلے پہل 1972ء میں استاد محترم مولانا سید عبد الوہاب بخاری علیہ الرحمۃ کے پاس جمالیہ کالج مدراس میں دیکھا تھا، اس وقت مولانا کی ندوے سے فراغت کا آخری سال تھا، ہمارے بخاری صاحب حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے، اور انکا صوفیہ کی طرف میلان تھا، وہ تصوف سے وابستہ خانوادوں اور ان کی اولاد سے بڑی محبت کرتے اور ان کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتے تھے، اس وقت رفاعی صاحب کی عمر (24) سال کے لگ بھگ رہی ہوگی، اور اس مرحلے میں آپ لباس اور وضع قطع میں بڑے نستعلیق اور باذوق نظر آتے تھے، ہمیں اچھی طرح یاد ہے اس وقت وہ سفید براق قمیص، علی گڑھ پاجامہ، اور ٹوپی زیب تن کئے ہوئے تھے۔ جن میں کہیں سلوٹیں نمایاں نہیں تھیں۔ باتوں سے تیز طرار نظر آتے تھے، ندوے میں آپ کے رفیق مولانا فاروق قاضی ندوی صاحب راوی ہیں کہ 1965ء میں جب آپ پہلے پہل ندوے داخلہ کے لئے آئے تھے تو پینٹ شرٹ زیب تن کئے ہوئے تھے، تبدیلی انسان کی فطرت ہے، اور زندگی کے مختلف مرحلوں میں ااس سے گذرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ تبدیلیاں انسان کے تجربات کو مزیدمستحکم کرتی ہیں، ہمیشہ اعتبار اختتام کو ہوتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کا اختتام باعث رشک تھا۔
اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک مولانا سے کہیں اس ناچیز کا سابقہ نہیں پڑا، لیکن اب گذشتہ بیس سالوں سے مولانا کی ملاقات وقتا فوقتا ہونے لگی تھی، جس میں آپ بڑے اخلاص واپنائیت کا اظہار کرتے تھے، اس دوران مولانا کی جو خصوصیات نظر آئیں وہ دل میں آپ کی محبت کو روز بروز پختہ اور پیوست کرتی رہیں۔
۔ دستوری طور پر مولانا ہندوستان میں تصوف کے سلسلہ رفاعیہ کی اس شاخ کے سجادہ نشین تھے جنہیں فقراء کہا جاتا ہے، اس میں تربیت اور جفاکشی تصوف کے سب سلسلوں سے زیادہ سخت پائی جاتی ہے، لہذا اس کے پیروکاروں میں دو انتہائیں ملتی ہیں، ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے حقیقتاً اپنی ذات کو فنا کردیا ہے، اس کے دوسری طرف سلسلہ رفاعیہ سے منسوب وہ کثیر تعداد افراد پائے جاتے ہیں ، جنہوں نے فنا کا غلط مفہوم اپنایا ہواہے، ان میں مزارات سے وابستہ ان فقیروں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے، جنہوں نے خود کوگم کرنے کے لئے بھنگ اور نشہ آور چیزوں کا سہارا لیا ہے۔ اور دین کی حقیقت جانے بغیر خود کو ضروریات دین سے آزاد سمجھنے لگتے ہیں۔یہ لوگ عروسوں اور مختلف مناسبات میں برچھی بھالوں سے مختلف قسم کے کرتب دکھا تے ہوئے پائے جاتے ہیں، بچپن میں حاجی ملنگ بابا اور دوسری درگاہوں سے جھنڈ کی شکل میں آتے ہوئے ان فقیروں کو ہم نے ستائیسویں رمضان المبارک اور عید کے روز بھٹکل میں آتے ہوئے دیکھا ہے، ان میں سے کئی ایک ایسے چہرے بھی نظر آتے تھے جو اس جھنڈ سے الگ اور جدا شناخت رکھتے تھے، ان کے چہروں سے سادگی اور شرافت ٹپکتی تھی، یہ کرتب تو نہیں دکھا تے تھے، لیکن اپنا کشکول آگے کرتے، اور بھیک میں جو دیا اسے لے لیتے تھے، اور ہم جیسے کمسن حیرانگی میں ان سے دریافت کرتےتو بتاتے کہ یہ شیخ کا حکم ہے، تزکیہ نفس اور کبر کو دل سے نکالنے کی مشق کے مرحلے سے وہ گذر رہے ہیں۔
۔ مولانا رفاعی صاحب نے سجادہ نشینی سے متعلق اپنے تمام اختیارات اور مزارات اور معتقدین سے ملنے والی مادی ومالی منفعتیں اپنے بھائی کو چھوڑ دی تھیں،انہوں نے سجادہ نشینی کو صرف اصلاح معاشرہ کے مقصد کے علاوہ کسی اور مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا، یہاں تک کہ جب آپ کی 1972ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فراغت ہوئی تو آپ کے ابتدائی دن بڑی عسرت میں گذرے،اس وقت ذریعہ معاش کے لئے آپ نے سائیکل پنچر کی دکان کھولی تھی، پھر گھروں میں دودھ کی سپلائی شروع کی، اور سپاری پھاکنے کی مشین بھی لگائی ۔لیکن بغیر محنت کی حلال روزی کے علاوہ ایک دھیلا پائی اپنے یا بچوں کے پیٹ میں جانے نہیں دیا۔
۔ مولانا کی غذا صرف سفید ابلا ہوا چاول اور دال تھی، انہیں دن میں صرف ایک بار کھانے کی عادت تھی، لوگ دعوت دیتے تو اسے قبول کرتے، اس شرط کے ساتھ کہ چاول اور دال کا اہتمام رہے گا،میزبان کے تیار کردہ انواع و اقسام مرغن کھانے مہمان خاص کے بجائے دوسرے شریک دسترخوان افراد کے لئے ہوتے۔ مولانا مولانا کا ہاتھ چاول اور دال سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔
۔ سلسلہ رفاعیہ کی سجادہ نشینی کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے دور کے عظیم بزرگان دین حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ سے چاروں رائج الوقت سلسلوں میں اجازت حاصل تھی، آپ سے عقیدت رکھنے والے دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں میں پائے جاتے تھے، لیکن آپ نے ابھی تین سال ہی سے اپنے مریدین کو خلافت سے نوازنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سلسلے میں چنئی میں خلفاء کا ایک اجتماع منعقد ہوا تھا، جس میں آپ کے تمام (250) موجود تھے، ان خلفاء کا باقاعدہ رجسٹر میں اندراج کیا گیا تھا۔
۔ جب تک اعضاء وجوارح کام کرتے رہے، ایسا لگتا تھا کہ پاؤں میں چکر لگے ہوئے ہیں، باوجود اس کے آپ کا زاد سفر صرف جسم پر ایک کالی قمیص، تہبند، چادر اور ایک کالے تھیلے میں اس کا ایک جوڑے سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی بیگ یا صندوقچہ رکھنے کے روادار نہیں تھے، اسی حالت میں آپ کویت، دبی، اور دنیا بھر کے اسفار کیا کرتے تھے۔سفر میں صعوبتیں برداشت کرنے کے بھی خوب عادی تھے، بتاتے تھے کہ چند عرصہ پہلے وادی کشمیر میں اپنے مریدوں میں دعوت وارشاد کے لئے گئے تھے کہ حکومت نے دفعہ (۳۷۰) ہٹا کر پوری ریاست کی سرحدوں کو اس طرح بند کردیا کہ کوئی پرندہ ادھر ادھر آجا نہ سکے، اس دوران پہاڑوں وادیوں اور دریاؤں کو پا پیادہ پھلانگتے ہوئے آپ باہر نکلے تھے۔
۔ گزشتہ انتخابات کے موقعہ پر کرناٹک میں فسطائی قوت کو جو شکست ہوئی، اس میں خاموشی سے بغیر شور شرابے اور اشتہار بازی کے مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم سے بچانے کی کوشش میں جو کامیابی نصیب ہوئی تھی اس میں، مولانا کی شہرت کی خواہش سے بلند مخلصانہ جدو جہد کا بھی بڑا دخل تھا، ایسی شخصیات ملک کے طول وعرض میں پائی جائیں تو ملک کا نصیب بدل جائے۔
ولادت وخاندانی پس منظر
مولانا سید مصطفی رفاعیؒ کی پیدائش مورخہ 12 اگست 1947ء بنگلور کے قریب ڈوڈا بالاپور قصبے میں ہوئی تھی.
آپ کے والد ماجد شاہ سید غوث اللہ رفاعی مرحوم کا سلسلہ نسب شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ سے جا ملتا ہے، تیرھویں پشت پر آپ کے جد اعلی سلسلہ رفاعیہ میں بیعت ہوئے تھے، اور بصرہ سے سورت تشریف لائے تھے، آپ کے جد امجد سید ظہور الدین شاہ قادری کا مزار کرناٹک کے قصبہ چند پٹن میں واقع ہے، جہاں سے سلسلہ رفاعیہ بڑے پیمانے پر برصغیر میں پھیلا ہے، مولانا کا خیال تھا کہ تصوف کے سلسلوں میں رفاعیہ کو ماننے والے برصغیر میں سب سے زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں،مولانا کا یہ خیال درست بھی ہوسکتا ہے، ویسے مولانا قادری النسب تھے۔
آپ کے والد ماجد نے سلسہ رفاعیہ کے آداب رسوم ورواج کے مطابق مجاہدات و تربیت کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، انہوں نے کسر نفسی کی مشق کے طور پر مریدوں کے ساتھ اپنے شہزادے کو بھی ہاتھ میں کٹورا تھما کر در در بھیک مانگنے بھیجا تھا، مولانا کہتے تھے کہ بھیک کے ملے پیسے فقیر محتاجوں میں بانٹ دئے جاتے تھے، ان میں سے رتی بھر ان کے ذاتی استعمال میں نہیں آتے تھے۔ (جاری)