صدیق محمد جعفری۔۔۔ ماہر تعلیم، دانشور اور خیر خواہ۔۔۔ از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

05:18PM Tue 15 Nov, 2022

(سنہ ۲۰۰۵ء میں مرحوم کی وفات پر لکھا گیا تعزیتی مضمون) ابھی قاضی شبیر اکرمی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ صدیق محمد جعفری کے ہمیں داغ مفارقت دینے کی اطلاع آگئی،ان کی عمر (۶۳)کے لگ بھگ تھی، لیکن یہ سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی جلد وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ان کی موت سے بہت سارے تعلیمی و دعوتی پروگرام ادھور ے پڑے رہ گئے ۔ درست ہے ذیابیطس نے کچھ عرصہ سے انہیں آگھیرا تھا، دل بھی کمزور سا چل رہا تھا، لیکن ان کے حوصلے ابھی بلند تھے۔ زندگی کے اتار چڑھائو ، کشادگی پھر تنگی، عروج وزوال کے مختلف ادوار آپ کے حوصلوں کو نہ توڑ سکے تھے ،نہ ہی ان کے تسلسل کے آگے بند باندھ سکے تھے ، لیکن فرشتہ اجل نے آپ کو چِت کر دیا، آدم علیہ السلام سے آج تک یہی ہوتا آرہا ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے ایساہی ہوتا رہے گا۔ تقدیرکے سامنے انسان کو ہار ماننی ہی پڑے گی۔ صدیق محمد جعفری کی شخصیت یوں تو آفاقی تھی، محدودیت ان کے مزاج سے کوئی میل نہیں کھاتی تھی، اہل بھٹکل کے لئے وہ بہت کچھ تھے ، اوصاف حمیدہ کے ایک پیکر مجسم ۔ ابھی چند ماہ قبل انہیں دیکھا تھا تو ڈاڑھی اور سر کے بال سفید برا ق ہو گئے تھے۔ پیر کی موچ نے انہیں چھڑی کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا تھا،لیکن آن بان، خوش ذوقی و خوش لباسی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، وہی شان اب بھی باقی تھی جو کبھی ان کا وصف ہوا کرتی تھی۔ میںنے انہیں پہلے پہل ۱۹۷۸؁ء میں دیکھا تھا، شمس الدین روڈ پر واقع ان کے مکان دار الصدیق میں، خوبرو سجیلا جوان، عمر یہی (۳۷)کے پیٹھے میں، گوری رنگت، متوازن ناک نقشہ ،وجیہ چہرے پر بھری پری کالی ڈاڑھی ، سفید بال کا جسم پر کہیںنام و نشان نہیں، لہجہ میں دھیماپن ، زبان پاکیزہ ، فکر میںبلندی، سفید سفاری سوٹ زیب تن کئے ہوئے ، ایسی جاذب نظرشخصیت شاذو نادر ہی دیکھنے میں آئی، سفید براق جعفری صاحب کو جب بھی دیکھا وہ منظر آنکھوں سے نہیں ہٹا۔ ویسے پہلے بھی جعفری صاحب کا نام ہمارے لئے اجنبی نہیں تھا، ۱۹۷۴ء میں جب سے ہمارے تایا محی الدین منیری صاحب نے جامعۃ الصالحات بھٹکل کی نیو ڈالی تھی، تو آپ کی زبان پر جعفری صاحب کا نام سننے کو ملتا تھا، جامعۃ الصالحات کے قیام میں آپ منیری مرحوم کے اولین دست راست رہے تھے، جامعۃ الصالحات سے آپ کی محبت و تعلق آخر دم تک قائم رہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ مرحوم کے دوسرے نیک کاموں کے ساتھ یہ ادارہ بھی آپ کے بلندی درجات کا باعث بنے گا۔ آپ نے پہلی ملاقات ہی میںجو تاثر ہمارے دل پر چھوڑا آخر تک وہ دل میں جاگزیں رہا،پہلی ملاقات میں ہی آپ کا ایک اہم و صف ہمارے سامنے آیا، وہ تھا اپنے سے چھوٹوں کی ہمت افزائی ، ان کی پیٹھ ٹھونکنا، ہوا یہ کہ وہ اپنے عرب پارٹنر مبارک الجافلہ کو لیکر بھٹکل آئے تھے، چونکہ میری تعلیم ایک ایسے ادارے میں ہوئی تھی جو کہ اس وقت ہندوستان بھر میں عربی میڈیم کی واحد درسگاہ تھی۔ اگر عربی بول چال میں کچھ روانی تھی تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی، لیکن بھٹکل میں رہ کر باہر کی دنیا نہ دیکھنے والے طالب علم سے عربی بول سننا ان کے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔ آئندہ زندگی میں جب بھی تذ کرہ آیا انہوں نے اپنا یہ تاثر بیان کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ دوسرے کی تعریف بیان کرنے کا یہی وصف تعلیمی میدان میں ان کی کامیابی کا راز اپنے اندر پنہاں رکھتا تھا۔ ۱۹۷۹؁ء میں تلاش معاش کے لئے میرے دبی آنے میں ان کی تو جہات بھی شامل تھیں،یہاں انہیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، وہ ایک علم دوست شخصیت کی حیثیت سے ہمیں نظر آئے، اس وقت یہاں پرکتابیں جمع کرنے کا ان جیسا پاکیزہ ذوق کم ہی لوگوں دیکھنے میں آیا ۔ ان کے ذاتی کتابوں کے ذخیرے سے استفادہ کا بھی خوب موقع ملا۔ اس وقت تک وہ الصدیق اسلامک اسکول قائم کر چکے تھے، جس نوائط گلف ایسوسی ایشن کے قیام میں انہوں نے حصہ لیا تھا اب اس کی نیو پر بھٹکل مسلم جماعت دبئی قائم ہو چکی تھی، دبئی کے سماجی ،تعلیمی دعوتی جلسوں میں آپ کا بڑا شہرہ تھا، آپ کے روابط و تعلقات کا ایک جال بچھا ہوا تھا، بڑی بڑی سرکاری و سماجی شخصیات آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ،ان شخصیات میں ابو ظبی کے چیف قاضی شیخ احمدبن عبد العزیز المبارک، شارجہ کے شیخ عبد اللہ علی المحمود، دبی میو نسپلٹی کے چیرمین کمال حمزہ وغیرہ کس کس کا نام گنایا جائے۔ ہندوستان وپاکستان سے جو بڑی شخصیتیں آتیں آپ سےملاقات کے لئے ضرور آتیںآپ کے قائم کروہ الصدیق اسلامک اسکول کا شمار دبئی کے ابتدائی پرائیوٹ اسکولوں میں ہوتا ہے، دینی تربیت کے ساتھ عصری تعلیم کا جو نظام یہاں رائج تھا ،آج تک لوگ اسے یاد کرتے ہیں۔ پھر آپ نے سنٹرل اسکول آف انڈیا قائم کیا۔ اپنے دور میں دونوں اسکول منفعت ہی میں چل رہے تھے۔ ان سے آپ کی شہرت میں اضافہ ہی ہو رہا تھا۔ لہٰذا ہم جیسے آپ کے نیاز مندوں کی تمنا تھی کہ وہ اپنی جدو جہد کو تعلیمی میدان پر مرکوز رکھیں، لیکن بد قسمتی سے ایسانہ ہو سکا، اپنی مختلف النوع تجارتی سرگرمیوں کو سمیٹنا آپ کے بس میں نہ ہو سکا اور ایک وقت وہ بھی آیا جب تجارتی خسارے نے دبئی میں آپ کاٹھہرنا محال کر دیا۔ جس کے نتیجے میں خون جگر سے سینچے گئے ادارے بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ اس کے نتیجہ میں آپ کا اور قوم کا جو عظیم نقصان ہوا آج بھی جب اس کی یاد آتی ہے تو دل میںایک ہو ک سی اٹھتی ہے۔ ہمارے دبئی آنے سے سال دو سال قبل ’’جمعیت تربیت اسلامی‘‘ کے نام سےبھٹکلی احباب کے ایک دعوتی و تحریکی ادارے کا قیام یہاں پر عمل میں آیاتھا، جعفری صاحب اس کے روح رواں تھے، آپ ہی کی کوششوں سے الرأس میں مدرسہ احمد یہ کی عمارت میں اس کو آفس اور لائبریری کی جگہ ملی تھی، بعدمیں حکومت دبئی سے اسے لائسنس بھی مل گیا تھا، اورمنسٹری آف انفار میشن میں اشاعتی ادارے کے طور پر اس کی رجسٹری بھی ہو گئی تھی۔ ۱۹۸۰؁ء تا۱۹۸۸؁ء کے دوران اس عاجز کاندھوں پر اس کی نظامت کی ذمہ داری رہی۔ اس دوران یہاں سے اردو میں دعوتی وادبی کیسٹوں کا اپنی نوعیت کا اولین سلسلہ ’’پیغام اسلام کیسٹ سیریز‘‘ کے نام سے جاری کیا گیا۔ وہ دن دبئی میں بر صغیر سے علماء واکابر کی آمد کے بہار کے دن تھے۔ احمدیہ کے صحن میں ان حضرات کے اعزاز میں جلسے اور پروگرام ہوتے ۔یہ سر گرمیاں آپ کے ذوق کی تھیں، آپ سے خوب تعاون ملتا، ہم جیسوں کی خوب پیٹھ ٹھونکتے ۔ ۱۹۸۸؁ء کے او ائل میں ناگہانی حالات سے مجبور ہو کرآپ نے دبی کو خیر باد کہا۔ اس وقت ان کی زندگی کی بیش بہا پو نجی لٹ چکی تھی۔ انہوں نے امتحان کی اس گھڑی کو ہنسی خوشی برداشت کیا ۔ حرف شکایت زبان پر آنے نہیں دیا۔ وطن میں رہ کر انہوں نے ’’نو نہال سنٹرل اسکول‘‘ کے قیام میں حصہ لیا، انجمن حامی مسلمین کے نائب صدر کے عہد سے پر فائز رہے۔ان اداروں میں اپنی صلاحیتیں اس طرح نچھاور کیں کہ مختصر عرصہ ہی میں ان کے تعلیمی معیار کی بلندی محسوس کی جانے لگی۔ امید تھی کہ نو نہال اسکول انکے الصدیق کے غم کی بھرپائی کرے گا۔ اور قوم کو آپ کی صلاحیتوں سے تادیر فیض پہنچے گا،لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا، بدقسمتی سے نو نہال میں آپ کا تعلیمی سفر جاری نہ رہ سکا اور بھٹکل آپ سے براہ راست استفادے سے محروم رہ گیا۔ مزاج میں حرکت تھی، سوچنے اورغور کرنے کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ نئے افکار و خیالات کی آمد ہوتے رہتی، بنگلور میں رہے تو اپنی خداداد صلاحیتوں سے معاشرہ کو منور کرتے رہے ۔ انٹر نیشنل سیرت اکیڈمی کے نام سے دعوتی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ دوسروں کو فیض پہنچانے کا وصف آپکو اپنے والد ماجد سے ملا تھا، وہ بھٹکل کے قدیم صدیقی خاندان کے فرد تھے، انہیں بزرگوں سے محبت تھی، آپ کا شمار قوم کی ممتاز مہمان نواز شخصیات میں ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷؁ء سے قبل تحریک آزادی جب ممبئی میں آکر سمٹ گئی تھی، محمد علی جناح اور گاندھی کے درمیان مذاکرات کے دور یہاں پر چل رہے تھے، ان ایام میں بر صغیر کے اکا بر علماء میں سے علامہ سیدسلیمان ندویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا قاری محمد طیبؒ کے بھائی مولانا طاہر قاسمیؒ، مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا ظفر احمد انصاری ؒ وغیرہ کولسہ محلہ میں واقع آپ ہی کے فلیٹ پرٹھہرا کرتے تھے۔ محی الدین منیری مرحوم کے علماء سے ربط و تعلق میں اس فلیٹ کا مرکزی کر دار رہا ہے۔ دبئی میں اہل بھٹکل کی ۱۹۶۰؁ء کی دہا ئی کے اواسط میں جب آمد شروع ہوئی۔تو ان کایہاں کو ئی پر سان حال نہ تھا۔ ان نووار دوں کے کھانے پینے کا انتظام آپ ہی کے ہوٹل میں ہوتا تھا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے ایک عرصہ تک یہاں پر مفت کھانا کھایا ہے۔ اس غریب الدیاری میں آپ کے اس ہوٹل کا سہارا نہ ہوتا تو بھٹکل میں دبئی کے راستہ ہونے والی اس خوشحالی کی نسبت بہت کم ہوتی۔ جعفری صاحب نے بھی محتاج اور حاجت مندوں کو مختلف قسم کے ویزے دلواکر دی، امارات میں خوش حال زندگی کی راہ آسان کر دی ،یہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اللہ ان باپ بیٹے کو جوار رحمت میں جگہ دے ، ان کے درجات بلند کرے۔