سچی باتیں۔۔۔پیش روؤں کے لئے دعائیں۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی*
08-05-1931ء
والذین جاء وا من بعدہم یقولون ربَّنا اغفر لنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلًّا للّذین آمنوا (حشر، ع ۱)
اور وہ مومنین جو اِن لوگوں کے بعد آئے ، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، بخش دے ہم کو، اور ہمارے اُن بھائیوں کو، جو ایمان لانے میں ہم سے سابق ہوئے، اور ہمارے دلوں میں میل نہ رکھنا اُن کی طرف سے جو ایمان لائے۔
کسی بندہ کا نہیں، خداکا کلام ہے۔مومنین کے لئے ایک عام دستور العمل ارشاد ہوتاہے۔ مومنین کا شعار یہ ارشاد ہوتاہے ، کہ یہ اپنے پیش رووں سے بغض وعداوت رکھنا، ان کی تنقید وتنقیص کرتے رہنا الگ رہا، اُن کے حق میں دعائے مغفرت ، اپنی دعائے مغفرت کے ساتھ ہی ساتھ کرتے ہیں، اور جس طرح اپنی نجات کے حریص ہیں، اُن کی نجات کے بھی طالب رہاکرتے ہیں۔ اور اپنے قول وعمل سے اُن کی تحقیر وتوہین کرنا تو کجا، دعائیں اس کی مانگتے رہتے ہیں، کہ دل تک میں اُن کی طرف سے غبار نہ رہنے پائے! اَگلوں کی عزت ونیک نامی کو پچھلے اپنی عزت ونیک نامی سمجھتے ہیں، اُن کی ناموری سے خوش ہوتے ہیں، اُن کی رسوائی سے کڑھتے ہیں۔
امت کو تعلیم یہ ملی تھی، امت کا ’’عمل‘‘ کیاہے؟ آج جو بے ادب، اگلوں کی عزت پر حملہ کرنے میں جتنا زیادہ بیباک اور بے دھڑک ہے، اُسی قدر زیادہ ’’محقق‘‘ و ’’روشن خیال‘‘ ! حدیث میں ہر طالب علم، امام بخاری وامام مسلم پر نکتہ چینی کے لئے آمادہ، تفسیر میں ہر جاہل، مجاہد، وابن جریر کا حریف، فقہ میں ہر عامہ ابو حنیفہؔ وشافعیؔ کی تنقید میں سرگرم، کہ آج یہی دلیل کمال، اور یہی معیار فضیلت ہے! اور ان سے بھی گزر کر، اجلِّ صحابہ اور خلفائے راشدینؓ تک کے مقابلہ میں یہ دلیل قطعی ہر زبان پر موجود ، کہ ’’بہرحال وہ معصوم نہ تھے، تمام اہلِ امت کی طرح خاطی ہی تھے۔‘‘آج سائنس کا’’ اکسپرٹ‘‘ (ماہر فن) جو کچھ کہہ دے، اس کے مقابلہ میں سب کی زبانیں گنگ، او رسب کے قلوب جھکے ہوئے ، لیکن فقہ وتصوف، حدیث وقرآن کے ’’اکسپرٹس‘‘ (ماہرین فن) کے اقوال اگر نقل ہوں، تو اُنھیں مان لینا، حرّیتِ ضمیر کے منافی، آزادی عقل ورائے کے حق میں مُہلک!
کسی پیش رَو سے کسی مسئلہ میں کوئی غلطی ہوگئی ہو، تو غوروتحقیق کے بعد سنجیدگی وشرافت سے اُسے واضح کردینا نہ کوئی گناہ ہے نہ کوئی شرعی جُرم۔ نہ کہیں اس کی ممانعت ہے نہ اس کی حوصلہ فرسائی۔ لیکن اس کے بالمقابل خیر ہ سری وجسارت کے دوسرے سرے پر پہونچ جانا ، بلا ضرورت اور بلا غور وتحقیق ، اپنے بڑوں کی ، اپنے اکابر فن کی، اپنے مرحوم بزرگوں کی تحقیر وتضحیک کرتے رہنا ، اُن کی ادنیٰ سی ادنیٰ غلطیوں کی ٹوہ میں خواہ مخواہ لگے رہنا، اور اگر کوئی ہاتھ آجائے ، تو اسے بڑے شوق کے ساتھ فاتحانہ انداز سے شائع کرنا ، یہ آخر کس آئین اخلاق، کس آئین شرافت، کس آئین شریعت کے مطابق ہے؟