سچی باتیں (یکم ؍اپریل ۱۹۳۲ء)۔۔۔ مغرب کی غلامی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:35AM Mon 4 Sep, 2023

اب تو کسی قدر کمی ہے، لیکن چند سال قبل، ہم میں سے ہر شخص کمالاتِ فرنگ سے مرعوب تھا۔ ’’اقبالِ سرکار‘‘ کا لفظ ہر زبان پر تھا۔ ’’دانایان مغرب‘‘ ’’حکمائے فرنگ‘‘ کے الفاظ زبان کے جزء بن گئے تھے۔ اور کسی کی مجال نہ تھی، کہ ’’صاحب‘‘ کی تحقیقات کے خلاف، کسی علم وفن میں، لب ہلاسکے۔ تاریخ، طب، فلسفہ، ہیئت، جغرافیہ، ہر علم او ہر فن میں، یورپ سے جو آواز اُٹھی، وہ حرف بحرف مسلّم۔ اس مرعوبیت کا سیاسی پہلو تو خیر، تحریکِ خلافت وترک موالات کے وقت سے مسلمانوں میں ایک حد تک ضعیف ہوچکاہے، لیکن علمی وعقلی حیثیت سے یہ رعبِ فرنگ جوں کا توں قائم ہے۔ اور اس کی بنیاد ، مغربی سائنس پر، ’’صاحب‘‘ کے سائنٹفک ایجادات پر، فرنگیوں کے نئے نئے آلات پر، ریل اور تار پر، برقی ریل اور بے تار کی تار برقی پر، مشین گن اور ہوائی جہاز پر، موٹروں اور آبی موٹروں پر، دُوربینوں اور خوردبینوں پر ہے۔ آپ کہتے ہیں، کہ جن قوموں نے ایسے ایسے عجیب وغریب آلات ایجاد کرلئے ہیں، اُن کی عالی دماغی، اُن کی حکمت وصناعی، اُن کی عقل وفرزانگی میں کیا شبہہ ہوسکتاہے؟

اِجمال کو کھول کر ، بس اسی دعوے کو ذرا سوچنے کی ضرورت ہے۔ جن آلات وایجادات کوآپ’’ عجیب وغریب ‘‘قرار دے رہیں ہیں۔ اُس کا حاصل اور اُن کا خلاصہ کیاہے؟ یہی نہ، کہ جو فاصلہ پہلے بہت دیر میں طے ہوتاتھا ، وہ اب بہت جلد طے ہونے لگا، جہاں آپ پہلے دیر میں پہونچ سکتے تھے، وہاں اب جلد پہونچنے لگے، جو خبریں بہت عرصہ میں موصول ہوتی تھیں، وہ اب جلد جلد موصول ہونے لگیں، بعض ایسے حالات وواقعات تکوینی جو پہلے داخلِ غیب سمجھے جاتے تھے، مثلًا موسم کے تغیرات اب اُن کی بابت پیش بینی وپیش گوئی آسان ہوگئی، بعض چیزیں جو پہلے نظر سے مخفی رہتی تھیں، ا ب آلات کی مدد سے نظر آنے لگیں، وقس علیٰ ہذا……سارے آلات وایجادات کا خلاصہ یہی ہے نہ ، یا کچھ اور؟ اب آپ خود ہی اپنے دل میں سوچئے، کہ یہ چیزیں اگر داخلِ کمالات ہیں، تو حیوانات کے لئے یا انسان کے لئے؟ بہت بڑی دُوربین اگر ایجاد ہوگئی، تو اس کے یہ معنی ہوئے، کہ انسان دُور کے چیزیں دیکھنے میں عقاب اور باز، چیل اور گِدھ سے بازی لے گیا۔ آبدوز کشتیاں نکال نکال کر انسان نے بطوں اور مرغابیوں ہی کو نہیں، بلکہ مچھلیوں اور گھڑیالوں تک کو شکست دے دی۔ مصنوعی پر لگاکر وہ ہوا میں ایسا اُڑا، کہ چیل اور کوّے سب ہار مان گئے۔ بارش کی آمد اور ہوا کی تبدیلیوں کا پتہ اُس نے اتنے بیشتر سے چلالیا، کہ چیونٹیاں اور مکڑیاں تک جو ہمیشہ پہلے سے ان چیزوں کو معلوم کرلیتی تھیں، اس کا لوہا مان گئیں!

خوب غور کرکے دیکھئے، یہ کوئی ہنسی کی بات نہیں۔ سارے ’’حیرت انگیز‘‘ ایجادات کی تہ میں بس یہی ہے یا نہیں، کہ انسان اپنے فطری وطبعی قویٰ کو ضعیف کرکرکے، مصنوعی اور خارجی ذرائع سے، اپنی بعض مادّی وحیوانی قوتوں کو بڑھاتا گیا؟ بصارت رو ز بروز ضعیف ہوتی گئی، آنکھیں کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئیں، البتہ عینکیں اور دوربینیں نت نئی ایجاد ہوتی رہیں! چلنے کی سکت برابر گھٹتی رہی، ٹانگیں دن بدن جواب دیتی گئیں، اور انسان خوش اس پر ہوتارہا، کہ سائیکلیں اور موٹریں، اورطرح طرح کی نئی نئی تیز رفتار سواریاں تو نکلتی آئیں !……یہ ساری ’’ترقی‘‘ محض حیوانیت کی ہوئی، یا انسانیت کی؟ انسان، ان ساری ترقیوں کے بعد، ہُوا کیا؟ بہتر انسان ہوگیا، یا حیوانوں سے بڑھ کر حیوان، شیر اور بھیڑئیے سے بڑھ کر درندہ، عقاب اور باز سے بڑھ کر پرندہ؟ قلب کو سکون ان میں سے کسی شے سے حاصل ہوا؟ روح کی تشنگی کسی ایجاد واختراع سے بُجھی؟ روح وضمیر کو بھی چھوڑئیے، خالص مادّی حیثیت سے، روزبروز انسان کی محتاجی، حاجتمندی ہی بڑھتی جاتی ہے، یا کچھ اور، اب ہم برف کے محتاج ہیں، برقی پنکھے کے محتاج ہیں، عینک کے محتاج ہیں، صابون کے محتاج ہیں، چار قدم کے لئے سواری کے محتاج ہیں، کیا آزادی نام انھیں غلامیوں کا، اور ترقی عبارت انھیں پستیوں سے ہے؟