سچی باتیں،  رحمت عالم کی پیروی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

09:00AM Sat 14 Nov, 2020

1925-10-16

ربیع الاول کا مہینہ ختم ہوگیا۔ جس مہینہ میں دنیا کے لئے آخری اور انتہائی پیام لانے والا دنیا میں آیاتھا، اُس کی آخری تاریخ آگئی۔ اب گیارہ مہینے تک پھراسی بابرکت مہینہ کی آمد کا انتظار دیکھنا ہوگا، اور اس درمیان میں خد امعلوم کتنی زندگیاں ختم ہوچکیں گی، قبل اس کے کہ دوسروں کو حساب دنیا پڑے ، ذرا آئیے، ہم اور آپ مل کرخود اپنا اپنا حساب لیں۔ ہمارے سرور وسردارؐ  نمازیں بہت کثرت سے پڑھتے تھے، ہم نے اس مہینہ میں کوئی نماز ترک تو نہیں کی؟ فرض نمازوں کے علاوہ، وہ نماز تہجد پابندی واہتمام کے ساتھ پڑھتے تھے، ہم نے بھی سنتوں اور نفلوں کی پابندی پر کچھ توجہ کی؟ اُن کے لئے دنیا میں سب سے زیادہ ، دلچسپ چیز، نماز تھی، ہم نے نمازوں میں کچھ دل لگایا؟ اُن کے انتہائی لطف و لذت کی چیز رکوع وسجود تھی، ہم نے بھی کچھ ذوق ان سے پیداکیا؟ وہ نماز اس طرح ادافرماتے تھے، کہ گویا پروردگار کا بالکل سامناہے، ہم کو نماز پڑھنے میں کچھ دُھندلا سا تصور بھی اس طرح کا پیداہوا؟ اُن کو حالت نماز میں گریہ وبُکا ہوتاتھا، ہماری آنکھیں بھی خشیّت الٰہی سے کبھی نم ہوئیں؟ وہ دَوران نماز میں دنیا کی ہر فکر سے بالکل آزاد ہوجاتے تھے، ہم کو وسوسوںسے کچھ دیر کے لئے بھی نجات ملی؟

ماہ مبارک ربیع میں ظاہر ہونے والا، ہمارا سردار وآقا (جس پر خدائے رحمن ورحیم کے بیشمار رحمتیں نازل ہوں) دوسروں سے کام لینے کے بجائے خود دوسروں کے کام کردیا کرتاتھا، ہم کو بھی ایسی توفیق کبھی نصیب ہوئی؟ حضورؐ سب سے نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، ہم نے بھی اپنا برتاؤ ایسا رکھا؟ وہ سب کے ساتھ خاکساری وفروتنی برتتے تھے، ہم نے بھی اپنے دل کو جھکایا؟ وہ اپنی مجلس میں کسی کی بدگوئی وشکوہ وشکایت کے روادار نہ تھے ،ہم نے اپنی زبان کو غیبت وبدگوئی سے کہاں تک باز رکھا؟ وہ دوست ودشمن ، اپنے اور بیگانے، سب کی خدمت کرنے والے تھے، ہم نے رحمتؐ عالم کی پیروی کی کچھ بھی کوشش کی؟ وہ ہمیشہ کم کھاتے، اور بعض اوقات فاقہ بھی فرماتے تھے، ہم بھی اپنی بھوک اور اپنی زبان کے چٹخارہ کو اپنے قابو میںلاسکے ہیں؟ وہ لباس میں بہت ہی سادہ زیب جسم فرماتے تھے، ہم نے لباس کے تکلّفات کو غیر ضروری سمجھنا شروع کیاہے؟ وہ غریبوں سے میل جول رکھنا پسند فرماتے تھے، ہم کو غریبوں سے زیادہ ملنے میں کچھ تامل تو نہیں ہوتا؟ وہ بجائے نسب پر فخر کرنے کے سارا زور حُسنِ عمل اور نیک کردار ہی پر دیتے تھے، ہم بھی اپنے دلوں میں یہ جذبہ وولولہ پیداکرسکتے ہیں،روپیہ پیسہ کی فکر اُن کے پاس تک نہ آتی تھی، ہم بھی اپنے تئیں روپیہ پیسہ کی فکروں سے کبھی آزاد کرسکے ہیں؟ اُن کا وقت دوسروں کی خیرخواہی وخبر گیری میں صرف ہوتاتھا، ہم نے کبھی اپنے وقت کا کچھ حصہ اپنی ذات وتن کی پرورش کے علاوہ کسی کام کے لئے الگ کررکھاہے؟

اگر ہم نے ان میں سے کسی چیز پر توجہ نہیں کی، تو ہمارے لئے ربیع الاول کا آنا اور نہ آنا یکساں رہا۔ ہمارے لئے سرور عالمؐ کا ظہور بیکار رہا۔ ہمارے لئے آفتابِ ہدایت کا طلوع لاحاصل ہی رہا۔ بارش ہوئی، اور ہم نے اپنی کھیتی سوکھی رہنے دی، ہَوا چلی، اور ہم نے اپنا پھول نہ کھِلنے دیا۔ آفتاب چمکا، اور ہم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ اس کی ذمہ داری کس کے سر ہے؟ اس کی بابت سوال ہم ہی سے ہوگا، یا کسی اور سے؟ پھر جس وقت ہم سے یہ سوالات ہوں گے، اُ س وقت کے لئے کوئی معقول جواب ہمارے پاس ہے؟ اُس وقت ہمارا کوئی عذر کام دے سکے گا؟ اُس وقت کے ہم کوئی صفائی اپنے پاس موجود رکھتے ہیں؟ اگر آج اِن سوالات کو غیر ضروری سمجھ کر ہم سرسری نظر سے انھیں ٹا ل دینا چاہتے ہیں، توآج بے شبہہ ہمیں اختیار حاصل ہے، لیکن ’’کل‘‘ ، جب یہ اختیار باقی نہ رہے گا، ’’کل ‘‘ جب غفلت کا پردہ اُٹھ چُکا ہوگا، ’’کل‘‘ جب ہنسی اور تمسخر پر قدرت نہ باقی رہے گی، ’’کل‘‘ جب ہر شے آئینہ ہوگی، ’’کل‘‘ جب کوئی مادّی قوت پناہ نہ دے سکے گی، ’’کل‘‘ جب تلافی کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا، ’’کل‘‘ جن اپنی بے بسی اور بیکسی پوری طرح روشن ہوچکے گی، اُس وقت ……؟ اُس وقت خدائے رحمن ورحیم ہی ہماری آپ کی مشکل کو آسان کرے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/