سچی باتیں (۲۹؍اپریل ۱۹۳۲ء)۔۔۔ دنیا میں قیامت کے مظاہر
سچی باتیں (۲۹؍اپریل ۱۹۳۲ء)۔۔۔ دنیا میں قیامت کے مظاہر
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
۳۰ء کے آخر میں ، انٹر پارلیمنٹری یونین نے ایک کمیٹی اس تحقیق کے لئے مقرر کی تھی، کی یورپ میں آئندہ جنگ اگر چھڑی، تو اُس کی نوعیت کیاہوگی، کمیٹی میں بڑے بڑے ماہرین سائنس، اور بڑے بڑے ماہرین فن حرب شامل تھے۔ کمیٹی کے نتائج تحقیق ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ اُن کا خلاصہ بعض ولایتی اخبارات کے واسطہ سے ہندوستان بھی پہونچاہے۔ یہ محققین لکھتے ہیں ، کہ پچھلی جنگ عمومی میں طیّاروں کی خود کوئی مستقل حیثیت نہ تھی، محض برتری وبحری فون کے معین ومعاون کی حیثیت تھی۔ اب اصلی میدانِ جنگ ہوائی یا فضائی ہوگا، اور طیّارے اُس وقت کے مقابلہ میں اب سَو گنے زیادہ مہلک ہوگئے ہیں! اب ایسے طیّارے تیار ہوگئے ہیں ، جو بغیر کسی طیارچی کی جان کو خطرہ میں ڈالے ، محض مشین کے ذریعہ سے، از خود اُڑتے اور گیس اور گولے برساتے رہیں گے۔ اب فوج کے حملے فون پر نہ ہوں گے، سپاہیوں کا دھارا سپاہیوں پر نہ ہوگا، بلکہ اصلی ہدف بڑے بڑے شہر اور تجارتی مرکز بنائے جائیں گے۔ ہر ہر حکومت نے دوسری حکومتوں کے پایۂ تخت کے مفصل نقشے حاصل کرلئے ہیں اور ایک دم سے، لندنؔ ، یا پیرسؔ، یا برلنؔ، یا رومؔ کی اُونچی اُونچی عمارتوں پر آتش بازی وزہر افشانی شروع ہوجائے گی!
جنگل، پہاڑ، دریا، سمندر، اب یہ کوئی روک نہ ثابت ہوسکیں گے۔ ہوائی جہازوں اور طیاروں کی نہ آواز سنائی دے گی ، اور نہ یہ دکھائی دیں گے۔ بس یک بیک بیٹھے بٹھائے، پُرامن ، بارونق، اور گنجان آبادی والے شہروں کے سروں پر قیامت آجائے گی۔ اسکول اور کالج، گرجے اور کتب خانے ، عجائب خانے اور نمائش گاہیں، لہلہاتے ہوئے باغ اور سرسبزوشاداب پارک، تھیٹر ہال اور سینما گھر، اسپتال اور ہوٹل، بجلی گھر اور اسلحہ خانے، اسٹیشن اور کارخانے، پانی کے خزانے اور تیل کی ٹنکیاں، آنًا فانًا سب برباد ہونی شروع ہوجائیں گی، اور بم کے گولے جو فولاد کی دیوار تک کے آرپار ہوجائیں گے، اور زہریلی گیسیں ، جو تولوں اور ماشوں کی مقدار میں بھی شہر کے شہر کو ہلاک کرڈالنے کے لئے کافی ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ ڈالیں گی۔ آگ کے شعلے ہرطرف سے لپکیں گے ، تہ خانے اور قلعے کوئی پناہ نہ دے سکیں گے، زمیں دوز سرنگیں بیکار ثابت ہوں گی۔ ’’گیس پروف‘‘ نقابیں بے اثررہیں گے، چَوڑی سڑکیں اور تنگ گلیان سب لاشوں سے اَٹ جائیں گی، نفسی نفسی کا عالَم ہوگا، کوئی کسی کے کام نہ آسے گا ، تہذیب وشائستگی کا دعویدار انسان دیوانہ وار سر ٹکراتا دوڑتا پھرتا ہوگا، راستے میں گِر گِر کر ، تڑپ تڑپ کر دم توڑے گا، اور موت وہلاکت کا عفریت گرج گرج کر اُس کا خون چاٹ رہا ہوگا۔
اور یہ وقت وہ ہوگا، جب آیہ کریمہ
﴿يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ﴾
(عنقریب) تمہارے اوپر آگے کے شعلے اور دھوئیں چھوڑے جائیں گے، اور تم اپنے کو نہ بچا سکو گے۔
کی تفسیر عملی رنگ میں جلوہ گر ہوکر رہے گی! آیت اہوالِ قیامت کے سلسلہ میں ہے، اور یقینا یہ زہرہ گداز منظر حشر ہی کا ہوسکتاہے، لیکن تفسیر بحر المحیطؔ میں ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ ہوسکتاہے یہ خطاب اسی دنیا سے متعلق ہو(وقیل ہو خطاب فی الدنیا) اور اس کے قبل کی آیت سنفرغ لکم ایہا الثقلان کے تحت میں ابن عطیہ کا یہ قول نقل کیا ہے، کہ
ویحتمل أن یکون التوعد بعذاب فی الدنیا ۔
ممکن ہے، یہ وعید عذاب دنیوی سے متعلق ہو۔
جب وہ گھڑی آئے گی تو دنیا دیکھ لے گی، کہ ہمارے مفسرین نے جن اقوال کو ضعیف ومرجوح سمجھا تھا، وہ بھی اپنے اندر کس درجہ صداقت کی قوت رکھتے تھے ، اور سرے سے بے معنی ومحل نہ تھے!