سچی باتیں (۲۹؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ دین نہیں تخریب دین۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

08:23PM Sun 11 Jun, 2023

پولیس کا سب انسپکٹر اپنے تھانہ میں لاکھ بااختیار سہی، لیکن صوبہ کے گورنر کو اگر آپ ’’داروغہ جی‘‘ کہہ کر مخاطب کریں، تو یہ اس کی تعظیم ہوئی یا توہین؟ ڈپٹی مجسٹریٹی بجائے خود ایک معزز عہدہ ہے، لیکن وائسرائے بہادر کو ’’ڈپٹی صاحب‘‘ کہہ کر دیکھئے تو! سپہ سالار (کمانڈر انچیف) افواجِ ہند کو کبھی ’’اجی جمعدار صاحب‘‘ کہہ کر آواز دینے کی ہمت آپ کی پڑے گی؟ کسی بادشاہ کے وسعتِ اختیارات کے بیان میں یہ کہہ ڈالنا، کہ اُسے ہر کانسٹبل، ہر پٹواری، سے زیادہ قدرت حاصل تھی، اُس کی مدح وتوصیف ہوئی، یا اور ہجو وذم؟……آپ اِن مثالوں کو سُن کر ہنس رہے ہیں، لیکن جب آپ اُن مسلمانوں کی کتابیں اور تحریریں پڑھتے ہیں، جنھوں نے اپنے پیمبرؐ  کو دُنیا کا کامیاب ترین لیڈر دکھادینے پر بس کرلیاہے، راحت غیر محدود ومسرت غیر منقطع کا راستہ دکھانے والے کو ایک بڑا خو ش تدبیر ’’انقلابی‘‘ اور زبردست جرنیل ثابت کردینے پر قناعت کرلی ہے، تو آپ کو اِن بھائیوں کی عقل ودانش پر رونا کیوں نہیں آجاتا؟کیا پہلی جن جن مثالوں کو پڑھ کرآپ ہنستے تھے، اُن سے آپ کے بھائی بَندوں کی یہ ’’دانشمندی‘‘ کچھ کم ہے؟ گورنر اور سب انسپکٹر، وائسرائے اور ڈپٹی کلکٹر، تو پھر باہم بہت کچھ اشتراک ومناسبت رکھتے ہیں، لیکن نبی اور غیر نبی، صاحبِ وحی اور محض لیڈر، کا بھلا کوئی بھی مقابلہ ہے یاآپ میں کچھ بھی نسبت ہے؟

آپ خوش ہورہے ہیں، کہ فلاں مسلمان اہلِ قلم نے رسول اللہ ﷺ کو بہت بڑا مصلح ملت، مصلح معاشرت، مصلحِ اخلاق، اور بہت بڑامدبّر وحکیم، دانا وفرزانہ ثابت کردیاہے۔ گویا حضورؐ  کی یہ حیثیات بھی کبھی معرض بحث میں رہی ہیں، اور حضور انورؐ کے اِن خصوصیات سے بھی کبھی انکار کیاگیاہے؟ آپ کی خوش تدبیری اور مصلحت شناسی، تو بڑے بڑے کندہ ذہن فرنگیوں تک کو تسلیم رہی ہے، اور ان ظالموں نے بڑے بڑے طویل مقالات اور بڑے بڑے ضخیم دفاتر تیار کرکے یہی ثابت کیاہے، کہ آپ نے حالات کو موافق ومساعد پاکر، محض اپنی ذہانت وذکاوت، اپنی خوش تدبیری وفرزانگی، سے سارے عرب کو رفتہ رفتہ مسخر کرلیا۔ ڈاکٹر ماڈسلیؔ ، کچھ روزہوئے، برطانیہ کا ایک مشہور ڈاکٹر ہواہے، امراضِ دماغی کا ماہر فن سمجھاجاتاتھا، اور اس پر متعدد کتابوں کا مصنف ہواہے۔ اِس ظالم نے امراضِ دماغی کے ذیل میں، ایک جگہ مرضِ صرع، اور اس کے اسباب، علامات ونتائج کا بیان کرتے کرتے یہ لکھ دیاہے، کہ اس کے دَورے، کمالِ عقل کے ذرا بھی منافی نہیں، چنانچہ (آگے کے الفاظ نقل کرنے کی جسارت کہاں سے لائی جائے) خود داعیِ اسلام باوجود اِن دَوروں میں مبتلا ہونے کے، بڑے دُور اندیش اور بڑے عاقل وفرزانہ گزرے ہیں(نعوذ باللہ) ۔ ابو جہلؔ اور ابولہبؔ تک کوحضورؐکے فہم ودانش، دیانت وامانت میں شبہہ نہ تھا، کفار اپنے فیصلے آپؐسے کراتے تھے، انکار جو کچھ تھا، اور جس کسی کو بھی رہاہے، وہ محض آپ کے دعوئے نبوت سے، صرف آپ کے تعلق مع اللہ سے، فقط آپ کے صاحبِ وحی ہونے سے رہاہے۔ اگر یہ مسئلہ درمیان سے ہٹ جائے، اور محض آپ کی دیانت وذہانت ہی زیر بحث رہ جائے، تو پھرنہ کوئی مومن ہے نہ کوئی کافر۔ ابو جہلؔ، صدیقؓ کا ہمنوا نظرآئے، اور ابو لہبؔ وعلی مرتضیٰؓ ایک صف میں کھڑے ہوجائیں!

اگلے دشمن بھی کھُلے ہوئے دشمن ہوتے تھے ۔ جو محمد رسول اللہؐ  کی نبوت کے منکر تھے، وہ کھُلے ہوئے مُنکر تھے۔ یہ تماشہ آج دنیا پہلی بار دیکھ رہی ہے، کہ نبوت سے انکار ہوگا، عالم غیب پر مضحکہ ہوگا، وحی ایک بے معنی چیز سمجھی جائے گی، اور پھر زبانوں پر دعوی یہ ہوگا، کہ ہم حقیقی مُسلِم ہیں، ہم محمدؐ کے اصلی قدر شناس ہیں، ہم عزت اسلام کے حامل ہیں، اور ہم دنیا کو اول بار صحیح اور سچی سیرت محمدی سے رُوشناس کرنے والے ہیں! اگراسی کا نام دین کی خدمت ہے، تو خدامعلوم ’تخریب دین‘‘ کسے کہیں گے؟