سچی باتیں (۲۶؍فروری۱۹۳۲ء) نااتفاقی اور ناچاقی کا قرآنی علاج

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

08:11PM Sun 16 Jul, 2023

سچی باتیں (۲۶؍فروری۱۹۳۲ء) نااتفاقی اور ناچاقی کا قرآنی علاج

تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

قرآن مجید کے چھبیسویں پارہ میں ایک سورہ، حجرات ہے۔ اُس میں ارشا د ہوتاہے کہ:-

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ‌إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (١٠) ﴾ [الحجرات: سب مسلمان آپس میں بھائی ہیں، سو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو، اور اللہ سے تقویٰ اختیار کئے رہو، تاکہ تم پر رحم کیاجائے۔ گویا مقصود بندوں کی نزول رحمت سے خبر دیناہے، اور جو شرطیں نزول رحمت کی ہیں، اُنھیں بیان کردینا۔ یعنی ایک، ہر مسلمان کو بھائی سمجھنا، اور یہ سمجھ کر مسلمانوں میں باہم میل ملاپ کراتے رہنا ، دوسرے ہر فرد کا تقویٰ اختیار کئے رہنا۔ اس کے معًا بعد دوضوابط ارشاد ہوتے ہیں، جن سے مسلمانوں کی باہمی سازگاری قائم رہ سکتی ہے،

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ‌لَا ‌يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (١١)يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ (١٢) ﴾ [الحجرات[۔

اے ایمان والو! نہ تو مردوں کو مَردوں پر ہنسنا چاہئے، کیا عجب ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں، اور نہ عورتوں کو عورتوں پر۔ کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے پر عیب لگاؤ، اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام رکھنا ہی بُراہے۔ اور جو توبہ نہ کریں گے، تو وہی ظالم ہیں۔ اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچتے رہو، کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے کھوج میں نہ لگے رہو۔ اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔

یہاں نصیحت چھہ چیزوں کی کی گئی ہے:-

(۱) ایک دوسرے کی تحقیر نہ کریں (’’تمسخر‘‘ اور ’’مزاح‘‘ دو متضاد چیزیں ہیں۔ مزاح یا خوش طبعی سے مقصود دوسرے کا دل خوش کرنا ہوتاہے، تمسخر سے دوسرے کی دل شکنی وتحقیر ہوتی ہے۔ ممانعت اسی سے ہے)

(۲) ایک دوسرے پر عیب نہ لگائیں۔

(۳) ایک دوسرے کے لئے چِڑھانے والے نام نہ تجویز کریں۔

(۴) ایک دوسرے کے اقوال ، اعمال، احوال کی نسبت بدگمانیاں نہ کرتے رہیں۔

(۵) ایک دوسرے کے رازوں کی ٹوہ اور تجسس میں نہ رہیں۔

(۶) پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی کمزوریوں کا تذکرہ نہ کریں۔

خوب غورکرکے دیکھئے، دلوں میں رنجش پیداکرنے کی جتنی بھی راہیں ہیں، ان سب کو بس حکمت کے ساتھ بند کردیاگیاہے۔ اور اگر آج ان تعلیمات پر عمل ہو، تو نا اتفاقیوں اور رنجشوں، نفاق وشقاق کے لئے ، کوئی بھی گنجائش باقی رہ جائے؟

لیکن آج ان تعلیمات پر عمل ہے کہاں؟ آج ان احکام کی تعمیل پوری نہ سہی، ادھوری ہی، کون کررہاہے؟ کیا وہ لوگ، جو ایک دوسرے کو ’’ٹوڈی‘‘ یا ’’نہروانی‘‘ کہتے رہتے ہیں؟ کیا وہ جو اس قسم کی خبریں شائع کرتے رہتے ہیں، کہ مولانا شوکت علی نے اپنا ایمان گورنمنٹ کے ہاتھ، اور ڈاکٹر انصاری نے اپنا ضمیر کانگرس کے ہاتھ فروخت کرڈالا؟ کیا وہ جو دن رات اسی فکر میں رہتے ہیں، کہ اپنے بھائیوں کی کمزوریوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اُن کا پردہ فاش کیاکریں، اور جس حد تک بھی ممکن ہو ، اپنی ہی قوم کے ناموروں کو دنیا کی نظروں میں خوب حقیر وذلیل کرگئے ہیں؟ خوب خیال رہے، کہ ہمیں ممانعت تو واقعی عیوب کی بھی جستجوسے، اور سچّے الزامات لگانے سے بھی ہے، چہ جائیکہ ایک دوسرے کے متعلق اتہامات خود اپنے ذہن سے تراشنا، یا محض افواہ کو شہرت دینااور چرچے کرنا! ہر فریق کی نیت پر حملہ کرنے، ہر گروہ اور ہر گروہ سے متعلق بڑی سی بڑی بدگمانی کرنے، ہرایک کی پردہ دری کرتے رہنے، کا نتیجہ بالآخر اِسی مادی دُنیا میں کیا نکل کرآرہاہے؟ اب کسی کا بھی اعتبار، کسی کا بھی وقار، باقی رہ گیاہے؟ کسی کی عزت محفوظ رہی ہے؟ آخرت میں جو کچھ پیش آناہے، وہ تو آکررہے ہی گا، آج اور یہیں، اگر ہندو یا انگریز ، مسلمانوں سے صلح کرنا چاہے، تو آخر کن افرادسے، کس انجمن سے، کس جماعت سے، مخاطبت کرے؟کسی کا کوئی وزن آپ نے اپنے ہاتھون باقی رہنے دیاہے؟