سچی باتیں (۲۲؍جولائی ۱۹۳۲ء)۔۔۔ اپنے کام خود کریں...تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

11:45AM Sun 26 Nov, 2023

بولپورؔ میں شانتی نکیتان کے نام سے ٹیگورؔ نے جو درسگاہ عرصہ سے قائم کررکھی ہے، اُس کا آپ ضرور سُن چکے ہوں گے۔ حال میں ٹیگورؔ نے ایک بیان اس سے متعلق شائع کیاہے، اُس کا خلاصہ اس قابل ، کہ ہم آپ سب سنیں۔ کہتے ہیں:-

’’گاندھی جی یہاں چند روز کے لئے آئے، اور چند دن کے اندر وہ کرگئے، جو میں برسوں میں بھی نہ کرسکاتھا۔ میں شروع ہی سے یہ چاہتاتھا ، کہ میرے ہاں کے لڑکے سارا کام اپنے ہاتھ سے کریں۔ اپنا کھانا اپنے ہاتھ سے پکائیں، اپنے برتن خود دھوئیں، اپنے بچھونے خود بچھائیں، اپنے کمروں میں جھاڑو خود دیں۔ لیکن اونچے اونچے معزز خاندانوں کے لڑکے کبھی اس کے پابند نہ ہوئے۔ اور کیسے ہوتے ، جب میں خود ہی اس پر عامل نہ تھا۔ کہتا میں سب کچھ تھا، عمل خود میرا ہی اس پر نہ تھا۔ بس میرا کام کہہ دیناتھا۔ لڑکوں کا کام سُن لینا‘‘۔

برسوں سے یہ صورتِ حال چلی آرہی تھی۔ گاندھی جی ایک مرتبہ آکرمہمان ہوئے، اور لڑکوں سے گھُل مل گئے۔ اس کے بعد لڑکوں سے اُنھوں نے کہا کہ نوکروں سے کام لینا بہت ہی نازیبا ہے، سب کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہئے۔ پھر

’’گاندھی جی نے اپنے کمرہ کو خود ہی جھاڑو بہار کر صاف کیا۔ اپنے ہاتھ سے اپنا بچھونا بچھایا، اپنے برتن خود مانج کرصاف کئے، اور اپنے کپڑے خود دھوکر پھیلائے۔ لڑکے یہ دیکھ کر شرم وغیرت سے کٹ گئے، اور اب وہ بھی یہ سب چیزیں اپنے ہاتھ سے خوشی خوشی کرنے لگے۔ اس کے بعد ایک دن گاندھی جی نے مہتروں سے کہہ دیا ، کہ چند روز کام نہ کریں ۔ مدرسہ کے شریف لڑکے بھلا مہتر کا کام کیونکر گوارا کرتے، نتیجہ یہ ہوا، کہ گندی عفونت کے مارے اسکول میں سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ اتنے میں ایک دن کیا دیکھتے ہیں، کہ گاندھی جی خود، سب کی غلیظ کونڈے اور تسلے اپنے سر پر لاد ے لئے چلے جارہے ہیں۔ جنگل میں لے جاکر خود ہی سارا غلیظ زمین میں دفن کرآئے! اس نے بجلی کا سا اثرکیا۔ لڑکوں کے دل سے وحشت ونفرت معًا دورہوگئی، اور سب نے خوشی خوشی، بھَنگی، ذلیل وناپاک بھَنگی بن جانا گوارا کرلیا‘‘۔

ہمارے علی گڑھ اور ہمارے دیوبند، ہمارے جامعہ اور ہمارے ندوہ کے فرزند، ان خبروں کو سُن رہے ہیں؟ ہاں، وہ سُن رہے ہیں، جن کے آقاؐ وسردارؐ کی عادتِ مبارک یہ تھی، کہ

کان یخدم نفسہ۔

اپنے کام خود اپنے ہاتھ سے انجام دیاکرتے تھے، اور جن کی بابت یہ تصریح موجود ہے، کہ

’’کپڑوں میں پیوند خود اپنے ہاتھ سے لگالیتے تھے، گھر میں جھاڑو خود دے لیتے تھے، دودھ دوہ لیتے تھے، بازار سے سودا خرید لاتے تھے، جوتی پھٹ جاتی تھی تو خود گانٹھ لیتے تھے، ڈول میں ٹانکے لگا دیتے تھے، اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھ دیتے تھے، اُس کو چارہ دیتے، غلام کے ساتھ مل کرآٹا گوندھتے‘‘۔

                          (سیرۃ النبی، شبلی، جلد ۲ ، ص: ۲۷۲)

اور اتنا ہی نہیں ، بلکہ یہ بھی تصریح ہے کہ دوسروں کے کام اور چھوٹوں سے چھوٹوں کے کام آپ خود انجام دے دیاکرتے تھے۔

’’مدینہ کی لونڈیاں آپ کی خدمت میں آتیں اور کہتیں یا رسول اللہ میرا یہ کام ہے۔ آپؐ فورًا اُٹھ کھڑے ہوتے اور اُن کا کام کردیتے۔ مدینہ میں ایک پاگل لونڈی تھی۔ وہ ایک دن حاضر ہوئی اور آپ کا دستِ مبارک پکڑلیا۔ آپ نے فرمایا اے عورت، مدینہ کی جس گلی میں تو چاہے بیٹھ، میں تیرا کام کردوں گا۔ چنانچہ آپ اُس کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی میں جاکر بیٹھے، اور اس کی ضرورت پوری کی‘‘۔ (ایضًا، ص: ۲۷۴)