سچی باتیں (۲۲؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ ماں کی قدر وقیمت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

07:17AM Sun 4 Jun, 2023

 

قدرت کا انتظام بھی عجیب ہے۔ جو چیزیں سب کے کام آنے والی، اور سب سے زیادہ ضروری ہیں، اُنھیں خزانۂ قدرت نے بالکل عام کرکے لُٹا رکھاہے، اُن کی نہ کوئی قیمت ہے ، نہ اُن  کے ملنے میں کوئی دشواری ، نہ اُن کے لئے کسی زبان ومکان، موسم ومقام کی قید۔ ہَوا پر زندگی کا دار ومدار ہے، ہوا کسی قدر عام ہے۔ گرمی اورسردی، صبح وشام، یہاں اور وہاں، ہرجگہ، ہروقت، بوڑھے، بچّے، امیر،غریب، شریف، رذیل، سب ہی کوملتی رہتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ضروریاتِ زندگی میں پانی ہے۔ اکثر مقامات پر اس کی بھی افراط، اور اس کے ملنے میں سہولت ہے۔ وقس علیٰ ہذا۔ اس کے مقابلہ میں جو چیزیں جتنی کم کام آنے والی ہیں، اسی قدر اُنھیں نادر بنادیاہے۔ لعل ویاقوت کے بغیر، زندگی کی کون سی ضرورت رہی جاتی ہے، اسی لئے لعل وجواہر ہیں بھی کس قدر عنقا!……خدائی حکمت یہ تھی۔ ہم نے اپنی شامت سے اس کی ترتیب الٹ دی۔ ہمارے ذہن میں اب سب سے زیادہ قابل قدر شے وہ ہے، جو سب سے زیادہ بعید وکمیاب ہے، خواہی وہ کتنی ہی غیر ضروری ہو۔ اور جو شے جس قدر عام اور ہمارے قریب ہے، اُسی نِسبت سے وہ ہماری نظروں میں حقیر وبے وقعت ہے، خواہ وہ کتنی ہی ضروری ہو۔

رضائے الٰہی کا تعلق صرف عملؔ سے ہے۔ جنت مترتب صر ف حُسنِ عمل پر ہوگی۔ اور عمل ہے کیا، جس پر ہم سب مامور ہیں۔ یہی نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، سچ بولنا، خیانت نہ کرنا، وغیرہ وغیرہ، جنھیں ہر مسلمان جانتاہے۔ یہ بالکل ثابت شدہ اور غیر اخلاقی مسئلہ ہے۔ لیکن اِدھر توجہ اور دھیان کوئی بھی نہیں دیتا۔ دلوں میں جما ہواہے، کہ خالی خولی نماز پڑھ لینے ، یا رشوت اور سود سے بچنے میں مزہ کیا آیا؟ نفس کو لذت ہی کیا ملی؟ جو بھی طالب ہوتے ہیں وہ کیفیات واحوال کے! اچھے اچھے خواب نظر آنے لگیں، طبیعت میں ذوق ومستی پیداہوجائے، زبان سے نعرے نکلتے رہیں۔ یا پھر جو اتنا بھی حوصلہ نہیں رکھتے، وہ ’’اسرار‘‘ شریعت کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑجاتے ہیں۔ نماز سے فلاں فلاں فوائد ہیں، روزے میں یہ یہ مصالح ہیں، فلاں حُکم کے یہ یہ نکات ہیں۔ حالانکہ جنت کا وعدہ ، تکرار وصراحت کے ساتھ ، جس شے پر ہے، وہ نمازؔ ہے، فلسفۂ نماز نہیں، صومؔ ہے، حکمت صوم نہیں! کافروں کی سمجھ میں یہاں تک نہ آیا، کہ ہمیں لوگوں کی طرح کھاپی کر، ہماری ہی طرح بازاروں میں چل پھر کر، کوئی شخص پیمبر اور اہل اللہ ہوکیونکر سکتاہے! وہ بدبخت ہمیشہ اسی خبط میں رہے، کہ کوئی انسان ایسا ملے، جو نہ انسانوں کی طرح رہتا سہتاہو، نہ آدمیوں کی طرح کھاتا پیتا ، چلتاپھرتا، تواُس پر ایمان لائیں!

ماں باپ سے سابقہ ہر وقت رہتاہے، خصوصًا ماں سے۔ اسی لئے ان کی قدر ہماری نظروں میں کتنی کم ہوجاتی ہے۔ دوسروں کی تعظیم کے لئے ہم کھڑے ہوجاتے ہیں، ماں کے سامنے پَیر پھیلائے لیٹے رہتے ہیں، دوست احباب کی مروّت میں بہت دفعہ خون جگر پی کر خاموش ہوجاتے ہیں، ماں کی ناگوار بات پر چیخ چیخ اُٹھتے ہیں۔ فلاں عالم اور فلاں درویش، فلاں پیر اور فلاں فقیر سے دعائیں کراتے ہیں۔ لیکن وہ جس کے پَیر کے نیچے جنت ہے، جوہر گھڑی اور ہرآن، بلا طلب اور بلا تقاضا، ازخود دعائیں کرتی رہتی ہے، اور دل کی گہرائیوں سے مالک ومولیٰ ہمارے لئے پکارتی رہتی ہے، کبھی اُس کی دعاؤں کی بھی قدر ہمیں ہوتی ہے؟

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )