سچی باتیں (۲۰؍مئی ۱۹۳۲ء)۔۔۔ ہمارے اندر کے عیب۔۔۔مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

06:58PM Sun 1 Oct, 2023

 

 

مثنوی میں مولاناؒ ایک حکایت لکھتے ہیں، کہ ایک جنگل میں ایک زبردست وخونخوار شیر آبسا۔ اور روز وہاں کے جانوروں کو اُس نے چَٹ کرنا شروع کردیا۔ جانوروں نے آپس میں مشورہ کرکے یہ طے کیا، کہ قرعہ ڈال کر ہر روز ایک جانور شیر کی نذر کردیاجائے، تاکہ اُس روز دوسرے جانور محفوظ رہیں۔ ہوتے ہوتے ایک دن خرگوش کی باری آئی، اُس نے کہا، کہ آپ ہی اپنے کو مَوت کے منہ میں دے دینا کون سی عقلمندی ہے، کوئی چال ایسی سوچئے، کہ اپنی جان بھی بچ جائے، اور ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے یہ خطرہ دُور ہوجائے۔ تجویز سوچ کے، وقت معین سے بہت دیر کرکے شیر کے پاس پہونچا۔ شیر غصہ میں بھرا بیٹھا تھا۔ خرگوش نے سہمی ہوئی آواز سے اور عاجزانہ انداز میں کہا، کہ حضور والا، قصور میرا نہیں، میں تو اپنے وقت ہی پر روانہ ہواتھا، راستے میں آپ ہی کے قدوقامت کا ایک دوسرا شیر مل گیا ، اور اُس نے مجھے شکار کرنا چاہا۔ میں تو کسی طرح جان بچاکر حاضر خدمت ہوگیا، مگر کل سے کوئی شکار آپ تک نہ پہونچنے پائے گا ۔شیر غصے سے بے تاب ہوکر بولا، کہ وہ مردود ہے کہاں، ذرا مجھے تو بتانا،ذرا مجھے تو بتانا، میں ابھی اُس کا قلع قمع کئے دیتاہوں۔ خرگوش راستہ بتانے کے لئے ساتھ ہولیا۔ اور ایک بہت بڑی باؤلی پر پہنچ کر رُک گیا، کہ وہ شیر اُس کے اندر ہے۔ آپ ہی آگے بڑھ کر اُسے دیکھیں، میری تو یہیں سے جان نکلی جاتی ہے۔

شیر نے جھانک کر دیکھا، تو پانی میں اپنی ہی طرح کا ہُو بہ ہُو دوسرا شیر نطر آیا، اور زور سے گرجا، تو اپنی ہی آواز کی گونچ سے یہ سمجھا کہ دوسرا شیر بھی اسی طرح گرجا۔ بس اب کیاتھا ۔ معًا پھاند کے باؤلی کے اندر آیا، کہ حریف کو جھنجھوڑ کر رکھ دے، وہاں حریف کہاں تھا، حریف تو محض خیالی تھا۔ اپنی ہی ہڈیاں پسلیاں ٹوٹیں، اور خود ہی پانی میں دَم توڑ کررہا۔ مولانا ارشاد فرماتے ہیں  ؎

شیر خود را دید در چہ از غلو

 

خویش را نشناخت آن دَم از عدو

نفس خود را او عدوے خویش دید

 

لا جرم بر شیر شمشیرے کشید

اے بسا ظلمے کہ بینی از کساں

 

خوے تو باشد در ایشاں اے فلاں

حملہ بر خود می کنی اے سادہ مرد

 

ہمچو آں شیرے کہ بر خود حملہ کرد

چوں بہ قعر خوے خود اندر رسی

 

پس بدانی کز تو بود آن نا کسی

شیر نے باؤلی کے اندر درحقیقت اپنے ہی کو دیکھاتھا، لیکن غلبۂ جذبات سے بے خود ہورہاتھا۔ اپنے پر غیرکا، بلکہ حریف کا گمان کربیٹھا۔ اپنے ہی کو اپنا حریف سمجھا، اور اپنے اوپر وار کردیا۔ دنیا میں کتنے ہی عیوب ایسے ہیں، جو ہمیں دوسروں میں نظرآتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود ہمارے ہی اندر کے عیب ہوتے ہیں، جو دوسروں میں جھلکتے نظرآتے ہیں۔ پس اُس شیر کی طرح ہم بھی خود اپنے ہی اوپر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ جب حقائق اخلاق تک نظر تعمق پہونچتی ہے، اُس وقت جاکر آنکھیں کھُلتی ہیں، اور معلوم ہوتاہے، کہ نظر کی کجی خود ہماری تھی!

اپنے نفس کا جائزہ ٹھنڈے دل سے لے کر اور اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھئے، کہ یہ حرف بحرف صحیح ہیں یا نہیں؟ کتنے لوگوں کو ہم مغرور ومتکبّر قرار دے دیتے ہیں، حالانکہ اُن کے کبر وغرور کی حقیقت اس سے زائد کچھ نہیں ہوتی ، کہ انھوں نے خود ہماری ہی انانیت اور خودی کی پوری پاسداری نہیں کی!ہم خود بخیل ہیں، لیکن جب کسی فیاض کو کسی خاص موقع پر ضرورۃً یا مصلحۃً ہاتھ روکتے دیکھتے ہیں، تو خوشی سے اُچھل پڑتے ہیں، کہ ایک بڑا پکڑ لیا، اور اُس کے بُخل کی ڈھول پیٹنے لگتے ہیں! روزمرہ کے یہ سارے واقعات شرح ہیں اُسی ایک متن کی  ؎

حملہ بر خود می کنی اے سادہ مرد

ہمچو آں شیرے کہ بر خود حملہ کرد!