سچی باتیں (۱۹؍فروری۱۹۳۲ء)۔۔۔ حشر کے دن سب اعمال موجود پائیں گے۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

07:48PM Sun 9 Jul, 2023

 وَوَجَدُوا مَا عملوا حَاضرًا۔ (کہف) لوگوں نے جو کچھ عمل کئے ہیں، اُنھیں موجود پائیں گے۔

یَوم تجد کلّ نفس مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیرٍ مُحضرًا ومَا عَمِلْتْ مِنْ سُوء۔ (آل عمران)  جس دن ہر شخص ، جو کچھ اُس نے نیکی کی ہے، اُسے موجود پائے گا۔ نیز جو کچھ اُس نے بدی کی ہے۔

دونوں آیتیں کلام مجید کی ہیں۔ دونوں موقعوں پر ذِکر قیامت کاہے۔ اہل تفسیر نے معنی یہ لئے ہیں، کہ اُس روز ہر انسان کا ہرعمل، چھوٹا ہو یا بڑا، نیک ہو یا بد، اُسے نامۂ اعمال میں مکتوب ومحفوظ ملے گا۔ اور ہر ادنیٰ سا ادنیٰ جزئیہ بھی اس طرح اُس کے مشاہدہ ومعائنہ میں آجائے گا ، کہ گویا عین اُس کا عمل ہی اُس کے سامنے موجود ہے۔ دوسرے نصوص کے ظاہر سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔

لیکن بعض اہل کشف نے کہاہے، کہ لفظ ’’حاضرًا ‘‘ اور ’’محضرًا‘‘ کو حقیقت ہی پر محمول رکھ کر اُن کے لفظی معنی لینے چاہئے۔ یعنی ہرعمل، لکھاہوا اور درجِ رجسٹر نہیں، بلکہ بعینہ اپنی اصلی صورت اور اصلی حال میں موجود ملے گا۔ جس نے زندگی میں کہیں چوری کی ہے، وہ حشر کے دن اپنی چوری کے واقعہ کو درج رجسٹر ہی نہیں دیکھے گا ، بلکہ واقعۃً اپنے کو اُسی طرح چوری کرتے ہوئے پائے گا! اور جس نے کسی کو زہر دے کر مارا ہے، وہ حشر کے بھرے مجمع میں اپنے تئیں، اُسی طرح زہر ملاتے اور کھلاتے ہوئے پائے گا! حشر کے معنی اگر اعادۂ کامل کے ہیں، تو یہ معنی قرینِ قیاس بھی معلوم ہوتے ہیں۔ گویا حشر کے دن، صرف جسد وقالب ہی میں زندگی کی روح از سر نو نہیں پھٹکے گی، بلکہ ہماری نیکیاں اور بدیاں، ہمارے سارے گُن اور کرتوت، ہماری نمازیں اور ہمارے روزے، ہماری چوریاں اور بدکاریاں، ہماری گفتگوئیں اور بزم آرائیاں، ہماری غیبتیں اور بہتان طرازیاں، ہماری جعلسازیاں اور مردم آزاریاں، سب ایک ایک کرکے ، زندہ ہوہوکر سامنے آکھڑی ہوں گی!

آپ اُس وقت کی پیشوائی کے لئے آمادہ ہیں؟ آپ ایسی گھڑی کے آموجود ہونے کے واسطے تیار ہیں؟ آج اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے کیسے مستعد وسرگرم نظرآتے ہیں، اپنے عبیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کس قدر بے قرار رہتے ہیں، اپنے دل کے چور آپ چاہتے ہیں، کہ قریب سے قریب کے عزیزوں، اور عزیز سے عزیز دوستوں پر بھی نہ ظاہرہوں، اور اپنی بدنامی ورسوائی سے کتنا ڈرتے رہتے ہیں،’’کل‘‘ جب حشر کے بے شمار اور لاتعداد مجمع میں، دوست ودشمن، عزیز وبیگانہ، نوکروں چاکروں، زیردستوں اور ماتحتوں، سب کی نگاہوں کے روبرو، سب کی نظروں کے سامنے، جب آپ اپنے کو فلاں کی چُغلی کھاتے ہوئے، فلاں کی غیبت کرتے ہوئے ، فلاں کا مال ناحق غصب کرتے ہوئے،فلاں کی چوری کرتے ہوئے، فلاں کی عزت وناموس پر حملہ کرتے ہوئے، فلاں کو بدنگاہی سے گھورتے ہوئے، فلاں اور فلاں ناگفتنی اور ناقابلِ ذِکر، شرمناک حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہوئے پائیں گے، تو اُس وقت کیا حال ہوگا؟ اُس گھڑی کیا گزرے گی؟ سزاوعقوبت، جہنم اور اُس کی آگ کو چھوڑئیے، صرف اپنی اس ذلت ورسوائی، اس پردہ دری اور اس اعلان عام ہی کے پہلو پر غور کیجئے۔ دُنیا کا کوئی سا عذاب، یہاں کی کوئی سی بھی سختی، حشر کے اس نشر کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ یہ وقت بندہ کی بے بسی وبیچارگی کے کمال کا ہوگا۔ نہ بڑے سے بڑے تاجدار اپنی فوج اور پولیس کی مدد سے کسی کی زبان بند کرسکیں گے، نہ بڑے سے بڑے سرمایہ دار رشوت کی کسی رقم سے کسی کو خاموش رکھیں گے، نہ بڑے سے بڑے جج اور بیرسٹر کسی پر ازالۂ حیثیت عرفی کے مقدمات چلا سکیں گے! اللہم احفظنا۔